Home غزل ناز اٹھانے سے رہے، حال سنانے سے رہے-نمرہ شکیل

ناز اٹھانے سے رہے، حال سنانے سے رہے-نمرہ شکیل

by قندیل

ناز اٹھانے سے رہے، حال سنانے سے رہے
تیری آواز پہ ہم دوڑ کے آنے سے رہے

ہم نے تصدیق کی، تردید کی زحمت نہیں کی
خلق میں ورنہ مرے تیرے فسانے سے رہے

یوں نہیں ہے کہ ترے بعد نہیں زخم ملے
سرسری کہنے پہ ہم، یار، دکھانے سے رہے

ہم نے دشمن کی طرح اپنا بھرم رکھا ہے
ورنہ شکوے تو بہت تھے کہ زمانے سے رہے

اک نہ اک خار ہمیشہ تھا گلابوں میں نہاں
پھول بالوں میں کسی طور سجانے سے رہے

حسن کج رو کہ تعلق سے گریزاں تھا بہت
اس کی محفل میں جو رہتے تھے، بہانے سے رہے

تو اگر رابطہ رکھے تو تری مرضی ہے
ہم کبھی خود تو تجھے کال ملانے سے رہے

وقت رخصت کی روایت ہے سو کہتے ہیں مگر
تیرے گھر تک تو تجھے چھوڑ کے آنے سے رہے

اس کی آواز بہت دور سے آتی تھی کبھی
جب نہیں آئی تو ہم ہنسنے ہنسانے سے رہے

اپنے تاریک سے غاروں میں مقید عفریت
اب مری آتش فردا تو بجھانے سے رہے

حاکم وقت! ترے خواب گراں کی خاطر
ہم سے خوش فکر خیال اپنے سلانے سے رہے

You may also like

Leave a Comment