Home غزل کون مٹی ہے کون پانی ہے-نصیر احمد ناصر

کون مٹی ہے کون پانی ہے-نصیر احمد ناصر

by قندیل

کون مٹی ہے کون پانی ہے
ایک دریا کی سب روانی ہے

کس نے دیکھی ہے وقت کی صورت
حاصلِ دید  رائگانی ہے

دُور تک کچھ نظر نہیں آتا
بے کرانی سی بے کرانی ہے

اور کچھ دیر زندگی ہے یہاں
پھر زمانوں کی لا زمانی ہے

یہ تماشا بھی دیدنی ہو گا
اِس تماشے میں ناگہانی ہے

جسم میرا جدید ہے لیکن
روح میری بڑی پرانی ہے

میں کسی خواب کی اوڈیسی ہوں
میری تعبیر داستانی ہے

دکھ کا پودا دلوں میں اگتا ہے
دکھ زمینی نہ آسمانی ہے

یہ ذرا سی جو رات روشن ہے
اک ستارے کی ضوفشانی ہے

یہ جو تھوڑی بہت طراوت ہے
چند پیڑوں کی مہربانی ہے

صبح جیسی ہے خوبصورت ہے
شام جیسی بھی ہے سہانی ہے

آ ہی جائے گا اب مجھے اُڑنا
ایک تتلی کی بات مانی ہے

You may also like

Leave a Comment