راہی کو راہ دیتا ہوا آگے بڑھ گیا
ہر موڑ پہ چراغ رکھا آگے بڑھ گیا
دو ٹوک سچّی بات کہی سب کے سامنے
اپنے خلاف سب کو کیا آگے بڑھ گیا
یہ تشنگیِ شوق کسی طور نہ بجھی
آنسو ، شراب، زہر پیا آگے بڑھ گیا
آب و ہوا میں اسی کی مرا جی نہیں لگا
کچھ روز میں بدن میں رہا آگے بڑھ گیا
گھر سے چلا تو راہ میں دنیا ملی مجھے
کچھ دیر اس پہ غور کیا آگے بڑھ گیا