ساتھ چلنا تھا دو قدم اس کے
وہ ہمارا نہ تھا نہ ہم اس کے
راستہ ختم کس طرح ہوتا
ہم بڑھاتے تھے پیچ و خم اس کے
پارسائی کی انتہا کر دی
پاؤں چھو لیتے کم سے کم اس کے
خواب ٹوٹا اور اس طرح ٹوٹا
پھر نہ ریزے ہوئے بہم اس کے
دل ہے بیزار ہم سے ہم دل سے
ساتھ ہیں اور کوئی دم اس کے
رات رو کر گزاری برگد نے
سارے پتّے ملے ہیں نم اس کے
میری خوشیاں ہیں اس کا پیراہن
میں نے پہنے ہوئے ہیں غم اس کے