خوشیوں میں بھی سو رنج کے پہلو نکل آئے
اتنا میں ہنسا، آنکھ سے آنسو نکل آئے
گلیاں ہیں کہ خوش رنگ دریچے ہیں چمن کے
بازار ہیں یا دشت میں آہو نکل آئے
انصاف کو پھر کون سی میزان میں رکھیں
ہر شخص کا جب اپنا ترازو نکل آئے
وہ پھول ہے تو جس کے نکلنے سے بھی پہلے
ہر تارِ رگِ شاخ سے خُوشبو نکل آئے
کل رات میں تنہائی میں دل کھول کے رویا
پھر یوں ہوا دیوار سے بازو نکل آئے