فخر الدین عارفی اردو ادب کے ایک ممتاز افسانہ نگار، تنقید نگار، اور صحافی ہیں، جنہوں نے اپنی تخلیقات سے اردو ادب کو نئی جہت عطا کی۔ ان کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ”غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے“ (2024ء) عظیم آباد (پٹنہ) کی ادبی، تاریخی، اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے والی ایک اہم کاوش ہے۔ یہ کتاب نہ صرف دبستان عظیم آباد کی ادبی روایت کو خراج تحسین پیش کرتی ہے بلکہ یہ کتاب ان کے تاریخی پس منظر، شعرا، اور تہذیبی عوامل پر بھی تحقیقی و تنقیدی زاویے سے روشنی ڈالتی ہے۔ فخر الدین عارفی کی یہ تصنیف عظیم آباد کی ادبی تاریخ کو نئی نسل تک پہنچانے اور اس کے مستقل دبستان کی حیثیت کو مستحکم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔کتاب کی اہمیت و افادیت کی وضاحت کرنے کے لیے راقم الحروف نے اس مضمون میں ضمنی عنوانات بھی پیش کئے ہیں تاکہ اس کتاب کی قدر و منزلت کا مکمل احاطہ کیا جاسکے۔
کتاب کا موضوعاتی ڈھانچہ
کتاب غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے دبستان عظیم آباد کی تشکیل و توسیع کو ایک منظم اور تحقیقی انداز میں بیان کرتی ہے۔ کتاب کا عنوان ایک مشہور شعر سے مستعار لیا گیا ہے، جو عظیم آباد کی ثقافتی خوبصورتی اور ادبی گہرائی کی عکاسی کرتا ہے۔ عارفی صاحب نے اس کتاب میں عظیم آباد کو اردو کا چوتھا مستقل دبستان ثابت کرنے کے لیے تاریخی، جغرافیائی، اور تہذیبی دلائل پیش کیے ہیں۔ وہ روایتی مفروضے کو چیلنج کرتے ہیں کہ دکن، دلی، اور لکھنؤ کے بعد کسی چوتھے دبستان کی ضرورت نہیں۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ عظیم آباد نہ صرف ایک ادبی مرکز ہے بلکہ اس کی ادبی روایت دکن اور دلی کے ہم عصر ہے، جبکہ لکھنؤ سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔
کتاب میں عظیم آباد کے ادبی مثلث”مرزا عبد القادر بیدل، غلام علی راسخ، اور سید علی محمد شاد عظیم آبادی“ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ عارفی صاحب اس مثلث کو دبستان عظیم آباد کی بنیاد قرار دیتے ہیں، لیکن وہ واضح کرتے ہیں کہ شاد عظیم آبادی کی خدمات اس دبستان کی شناخت قائم کرنے میں سب سے نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، وہ پھلواری شریف کے شعراء اور دہلی سے ہجرت کر کے عظیم آباد میں آباد ہونے والے ادیبوں مثلاً اشرف علی فغاں، میر محمد باقر حزیں کے کردار کو بھی سراہتے ہیں۔ یہ تحقیقی نقطہ نظر کتاب کو ایک جامع اور مستند دستاویز بناتا ہے۔
ادبی و تحقیقی اہمیت
فخر الدین عارفی کی یہ کتاب اپنی تحقیقی گہرائی اور تنقیدی بصیرت کے لحاظ سے ایک سنگ میل ہے۔ وہ دبستان عظیم آباد کی تاریخی ترتیب کو نہ صرف شعراء کے تذکروں تک محدود رکھتے ہیں بلکہ اسے تہذیبی و ثقافتی سیاق و سباق میں بھی دیکھتے ہیں۔ کتاب میں عظیم آباد کے مشاعروں کی روایت، جو راجہ رام نارائن موزوں اور مہاراجہ شتاب رائے کے عہد سے شروع ہوئی، کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ مشاعرے عظیم آباد کی گنگا جمنی تہذیب کے مظہر تھے، جہاں ہندو اور مسلم شعراء برابر کی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ عارفی صاحب نے ان مشاعروں کے تاریخی واقعات، جیسے کہ 1902ء کا معرکۃ الآرا مشاعرہ جو سید بادشاہ نواب رضوی کے دولت خانے پر منعقد ہوا، کو نہایت دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔
کتاب کا ایک اہم پہلوعظیم آباد کی ادبی فضا کو دوسرے دبستانوں دکن، دلی، لکھنؤ سے موازنہ کرنا ہے۔ عارفی صاحب دلیل دیتے ہیں کہ جب لکھنؤ ابھی گوشہ گمنامی میں تھا، عظیم آباد شعر و سخن کی شمع سے منور تھا۔ وہ پروفیسر عطاء الرحمن عطا کاکوی اور دیگر محققین کے حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ عظیم آباد دلی کے بعد اردو کا دوسرا اہم مرکز تھا۔ اس دعوے کو تقویت دینے کے لیے وہ اشرف علی فغاں، میر حسن، اور یگانہ چنگیزی جیسے شعراء کے عظیم آباد سے تعلق کو نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔
زبان و اسلوب
فخر الدین عارفی کی تحریر کا اسلوب نہایت شائستہ، صاف، اور پرکشش ہے۔ وہ پیچیدہ تاریخی اور ادبی موضوعات کو سادہ مگر گہرے انداز میں بیان کرتے ہیں، جو عام قاری اور ادیب دونوں کے لیے قابل فہم ہے۔ ان کی زبان میں فلسفیانہ گہرائی اور شاعرانہ چاشنی ہے، جو ان کے افسانوی اور تنقیدی اسلوب سے ہم آہنگ ہے۔ مثال کے طور پر، وہ عظیم آباد کی ادبی فضا کو”شعر و سخن کی قندیل“ اور”گنگا جمنی تہذیب کا مظہر“ جیسے استعارات سے بیان کرتے ہیں، جو قاری کے تخیل کو جگاتے ہیں۔ ان کا تحقیقی انداز حقائق پر مبنی ہے، لیکن وہ تاریخی واقعات کو کہانی کی طرح پیش کرتے ہیں، جیسے کہ غلام علی راسخ ؔاور میر تقی میرؔ کا لکھنؤ میں ملاقات کا واقعہ، جو کتاب کو دلچسپ بناتا ہے۔
عظیم آباد کی ادبی روایت کا احیا
یہ کتاب نہ صرف دبستان عظیم آباد کی تاریخی اہمیت کو واضح کرتی ہے بلکہ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ایک شعوری کوشش بھی ہے۔ عارفی صاحب زور دیتے ہیں کہ عظیم آباد کی ادبی روایت کو از سر نو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس دبستان کے شعراء، جیسے کمال علی کمال، شیخ محمد عابد دل، اور غلام حسین شورش، کے تذکروں کو زندہ کرتے ہیں، جنہیں اکثر ادبی تاریخ میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ عظیم آباد کے مشاعروں کی روایت کو بحال کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں، جو اس شہر کی ادبی شناخت کو مضبوط کر سکتی ہے۔
کتاب میں عظیم آباد کی ثقافتی عظمت کو بھی شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے، جیسے کہ رمز عظیم آبادی کا یہ اشعار:
یہ عظیم الشان کا شہر عظیم آباد ہے
آج بھی لوگوں کو موزوں کا زمانہ یاد ہے
کتنا مردم خیز ہے یہ خطہء ارض بہار
اس کے دامن میں ہیں غلطاں کتنے دُر شہوار
راسخ و جوشش، خیال و شاد کی محفل ہے یہ
دانش و پرویز و ثاقب کا دھڑکتا دل ہے یہ
گامزن ہے آج بھی علم و ادب کا کارواں
جن کے نقشِ پا سے ہر جادہ ہے مثل کہکشاں
مذکورہ بالا اشعار کتاب کے مرکزی خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ عظیم آباد کا ادبی ماضی نہ صرف روشن تھا بلکہ اس کا حال اور مستقبل بھی تابناک ہے۔
الغرض فخر الدین عارفی کی یہ کتاب اپنی تحقیقی گہرائی اور ادبی بصیرت کے لحاظ سے اردو ادب کے اثاثے میں ایک قیمتی اور قابل قدر اضافہ ہے۔ انھوں نے دبستان عظیم آباد کی تاریخی ترتیب کو نہایت مہارت سے بیان کیا ہے، ان کا نقطہ نظر پروفیسر عبد المغنی، عطاء الرحمن عطا کاکوی ، اور دیگر محققین کے حوالوں سے مستحکم ہے۔
کتاب کا ایک اور قابل تحسین پہلو اس کا غیر جانبدارانہ انداز ہے۔ عارفی صاحب لکھنؤ اور دلی کے ادبی مراکز کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن وہ عظیم آباد کی منفرد شناخت پر زور دیتے ہیں۔ وہ لکھنؤ کی ”خود نمائی“ کے رویے پر تنقید کرتے ہیں، لیکن یہ تنقید حقائق پر مبنی اور ادبی منطق کے دائرے میں رہتی ہے۔
الغرض غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے فخر الدین عارفی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو دبستان عظیم آباد کی ادبی، تاریخی، اور ثقافتی اہمیت کو نہ صرف بحال کرتی ہے بلکہ اسے عالمی ادبی منظر نامے میں ایک مستقل مقام عطا کرتی ہے۔ عارفی صاحب کی تحقیقی بصیرت، شاعرانہ اسلوب، اور تاریخی واقعات کی دلچسپ پیشکش اس کتاب کو اردو ادب کے طالب علموں، محققین، اور عام قارئین کے لیے یکساں پرکشش بناتی ہے۔ یہ کتاب عظیم آباد کی گنگا جمنی تہذیب، اس کے شعراء کی خدمات، اور اس کے مشاعروں کی روایت کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ عارفی صاحب کا یہ دعویٰ کہ عظیم آباد اردو کا چوتھا مستقل دبستان ہے، نہ صرف قابل غور ہے بلکہ ان کے دلائل کی روشنی میں قابل قبول بھی ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے جو اردو ادب کی تاریخ اور عظیم آباد کی ادبی میراث سے دلچسپی رکھتا ہے۔