عارفہ مسعود عنبر
مرادآباد
نت نئے رنگ بدلتا کیوں ہے
تو یوں گلیوں میں بھٹکتا کیوں ہے
زندگی جب تجھے رب نے بخشی
موت سے جاکے الجھتا کیوں ہے
ہے ابھی وقت تو توبہ کر لے
نفس اماراہ میں پھنستا کیوں ہے
خود بھی محفوظ رہ اوروں کو بھی رکھ
ہاتھ ہر ایک کا پکڑتا کیوں ہے
فاصلے سے تو ملا کر سب سے
یوں گلے سب کے تو لگتا کیوں ہے
ہو کا ماحول ہے ہر ایک جانب
گھر سے باہر تو نکلتا کیوں ہے
قوت ضبط ہے جب عنبر میں
درد پھر دل میں یہ پلتا کیوں ہے