حوالہ وہ محبت کا ہوا ہے
کہ جس نے بھی تجھے دیکھا ہوا ہے
یہ کشتی کیوں کنارے پر لگی ہے
ابھی دریا میں یہ جھگڑا ہوا ہے
گھڑی پر وقت کیا پوچھا تھا اُس نے
وہیں پر وقت یہ ٹہرا ہوا ہے
اُڑا دو دل سے خواہش کے پرندے
یہ پنجرا یوں بھی اب ٹوٹا ہوا ہے
تمہیں دیکھا ہے پہلی بار لیکن
تمہیں اک خواب میں دیکھا ہوا ہے