آپ جیسوں کے لیے اِس میں رکھا کچھ بھی نہیں
لیکن ایسا تو نہ کہیے کہ وفا کچھ بھی نہیں
آپ کہیے تو نبھاتے چلے جائیں گے مگر
اِس تعلق میں اذیّت کے سِوا کچھ بھی نہیں
میں کسی طرح بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا
یا تو سب کچھ ہی مجھے چاہیے یا کچھ بھی نہیں
کیسے جانا ہے کہاں جانا ہے کیوں جانا ہے
ہم کہ چلتے چلے جاتے ہیں پتہ کچھ بھی نہیں
ہائے اِس شہر کی رونق کے میں صدقے جاؤں
ایسی بھرپور ہے جیسے کہ ہُوا کچھ بھی نہیں
پھر کوئی تازہ الم دل میں جگہ کرتا ہے
جب بھی لگتا ہے کہ لکھنے کو بچا کچھ بھی نہیں
اب میں کیا اپنی محبت کا بھرم بھی نہ رکھوں ؟
مان لیتا ہوں کہ اُس شخص میں تھا کچھ بھی نہیں
میں نے دُنیا سے الگ رہ کے بھی دیکھا جوّاد
ایسی منہ زور اداسی کی دوا کچھ بھی نہیں