Home نقدوتبصرہ غیاث الرحمن کا ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ـ مالک اشتر

غیاث الرحمن کا ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ـ مالک اشتر

by قندیل

پچھلے برس کے یہی دن تھے جب وبا کی دوسری لہر چیختی چنگھاڑتی انسانوں پر چڑھ دوڑی تھی۔ جنازے اٹھا اٹھاکر کندھے شل تھے اور آنسو بہا بہا کر آنکھیں چٹخ گئی تھیں۔ مجھے آج بھی فیس بک پر خورشید اکرم کی لکھی دو سطریں یاد ہیں:

"ابھی اور کتنے جائیں گے، معلوم نہیں۔ خیر! جو بچ رہیں گے وہ آئیندگاں کو اس آشوب کی کہانی سنائیں گے۔”

پچھلی رات غیاث الرحمن کے ناول ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ اس آشوب کی وہ کہانی لکھ دی گئی ہے۔ تقریبا سوا سو صفحات کا یہ ناول کائنات کے اس سب سے بڑے حادثے کا احوال ہے جسے ‘انسانی زندگی’ کہا جاتا ہے۔ پہلی نظر میں ناول ایک بے میل جوڑے کی پریم کہانی ہے، لیکن یہ اس کی صرف ظاہری پرت ہے۔ ناول کی اندرونی پرتوں میں متعدد سماجی المیوں کی کہانیاں چھپی پڑی ہیں۔ غیاث الرحمن کے فکشن سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ان کے یہاں نہ تو کرداروں کی بھرمار ہوتی ہے اور نہ ہی غیر ضروری تجرید و علامت کے ذریعہ اپنی فن کاری کی دھاک جمانے کی کوشش ان کا مسلک ہے۔ اس ناول میں بھی انہوں نے اپنے اسی انداز کو برتا ہے۔
کہانی میں کرداروں کو سلیقے سے قائم کرنے پر غیاث الرحمن کی بہت توجہ رہتی ہے۔ قاری کو کرداروں سے کماحقہ متعارف کرا دینے کے بعد ویسے بھی تخلیق کاری کا آدھا حق ادا ہو جاتا ہے۔ کسی کردار کے ساتھ نفسیاتی طور پر ایک پیج پر آنے کے بعد قاری کے لئے تفہیم میں noise کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ کے کرداروں میں بھی یہی تخلیقی ہنر مندی آزمائی گئی ہے۔ ہر چند ناول نگار نے ‘دگڑو’ نامی کردار کو کہانی کا عنوان بنایا ہے لیکن کہانی کا ‘سرلا’ نامی دوسرا کردار قاری کو کم متاثر نہیں کرتا۔ اس کے یہاں وہ ساری خوبیاں تو ہیں ہی جو دگڑو کے کردار کا خاصہ ہیں، ساتھ ہی اس میں دنیا سے ٹکرا جانے کا حوصلہ بھی ہے، جو دگڑو کے یہاں کم ہے۔ یہ دیہی بھارت کی روایتی عورت کے ذریعہ خود کے وجود پر اصرار کا اشارہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جو روایت شکنی کے الزام کو گالی نہیں بلکہ تمغہ سمجھتی ہے۔
ابھی پیچھے کہیں کسی نے اس بات پر شکر ادا کیا تھا کہ اردو میں ‘دلت ساہتیہ جیسا’ کچھ نہیں ہے۔ اس ارشاد پر مجھ جیسے طالب علم حیرت زدہ ہوئے کہ ایک سانس میں ادب کو سماج کا آئینہ بتاکر دوسرے سانس میں ہمارے سب سے سنگین سماجی مسائل میں سے ایک پر، اردو میں ادب تخلیق نہ کئے جانے پر شکر بجا لانا، کیا ماجرا ہے؟۔ خیر بزرگوں کے سامنے زبان درازی ہمارے سنسکار کا حصہ نہیں اس لئے چپ بیٹھ رہے۔ اب غیاث الرحمن کا ناول پڑھ کر اطمینان ہوا کہ اردو فکشن دلت ڈسکورس کو بہرحال خاطر خواہ توجہ دے رہا ہے۔ میں یوں بھی بہت کم لکھ پڑھ پاتا ہوں، لیکن ادھر کافی عرصے میں ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ جیسا اردو ناول کم ہی دیکھا ہے، جو شروع سے انت تک دلت، اچھوت اور شودر جیسے حوالوں کے گرد گھومتا رہے۔
جس طرح بطور قاری، میں اس ناول کو دلت ڈسکورس کا حصہ مانتا ہوں، ویسے ہی میرا یہ بھی تاثر ہے کہ یہ کورونا پر لکھے گئے اردو فکشن میں ایک قابل ذکر اضافہ ہے۔ یوں تو اب اردو فکشن میں اس وبا کے حوالے تواتر سے دکھائی دے رہے ہیں لیکن غیاث الرحمن کے پورے ناول کی فضا ہی اس وبا میں قائم ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ وبا اپنے ساتھ صرف موت نہیں لائی تھی بلکہ اس کی زنبیل میں ہجرت، فاقے، استحصال اور انسانی جسد کی تکریم کا زوال بھی تھا۔ وبا کے یہ سارے رنگ ‘ڈھولی دگڑو ڈوم’ میں موجود ہیں۔
میرا ذہن پلٹ پلٹ کر کرداروں کو قائم کرنے میں دکھائی گئی تخلیقیت کی طرف جا رہا ہے۔ ناول کے بہت سے کردار بظاہر بہت منفی ہیں، لیکن اگر ان کے پاس بیٹھ کر ہمدردی سے ان کی بات سنی جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی سیاہ کاری کے پیچھے کوئی اور بھی گنہ گار ہے۔ اور وہ کون ہے؟۔ وہ ہے ہمارا سماج!۔ مثال کے طور پر وہ دگڑو کا باپ اور تین مذہبی پیشوا جو اگلا جنم ‘اشراف’ میں لینے کی خاطر انسانیت کی ہر حد پھلانگ جانے کو راضی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی اس جسارت میں ‘اچھوت’ ہونے کے سبب سماجی دھتکار کی شکل میں ملے زخموں کا بھی ہاتھ ہے۔ سیاہ اور سفید کی بائنری سے نکل کر سماج کی سرمئی حقیقتوں کو دیکھنا ہو ناول میں اور بھی کئی کردار مل جائیں گے۔
غیاث الرحمن کا ناول اس اعتبار سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے کہ اس میں سماجی روایات کی گانٹھیں کھولنے کی کوشش میں زخمی ہوتے لہو آلود پوروں کی کہانی کہی گئی ہے۔ گانٹھیں جتنی پرانی ہوتی ہیں انہیں کھولنا اتنا ہی زیادہ مشکل ہوتا ہے، اور یہاں تو مدتوں پرانی گرہیں کھولنی ہیں، اس لئے سرلا اور دگڑو کی انگلیوں کا فگار ہو جانا فطری ہے۔

You may also like

Leave a Comment