بے روزگاری سے عوام پہلے سے ہی پریشان تھے، مگر آج ایک خبر نے صورت حال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب آنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملازمت کے مواقع میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور ہندوستان کے کئی شہر بالخصوص حیدرآباد، پونے اور بنگلور آئی ٹی ہب بنے۔ ان مقامات پر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں نے اپنا کام شروع کیا جس میں کمپیوٹر سائنس انجنیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ ، سافٹ ویر ڈویلپر، سسٹم انیلسٹ ، پروگرامر سے لے کر مختلف زبانوں کے معاونین بشمول عربی کے لئے روزگار کے مواقع نکلے اور ہزاروں لوگ دہلی، حیدرآباد، پونے اور کرناٹک میں ان کمپنیوں میں برسر روزگار ہوئے۔
دوسرے میدان عمل بالخصوص صنعتی فیکٹریوں اور کنسٹرکشن ورک کے برعکس آئی ٹی کے کام کی نوعیت خالص کمپیوٹر سے منسلک تھی اس لیے لاک ڈاؤن سے یہ لوگ بہت زیادہ متاثر نہیں ہوۓ اور ورک فرام ہوم کام چلتا رہا اور مشاہرہ ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتا رہا۔
پریشان کن خبر یہ ہے کہ آئی ٹی کمپنیوں ؛ ٹاٹا کنسلٹنٹسی سروسز، انفوسس، وِپرو وغیرہ نے اعلان کیا ہے کہ 2022 تک وہ 30 لاکھ ملازموں کو بر طرف کر دیں گی، جن کی تنخواہوں پر تقریباً سو بلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ بالفاظ دگر ان کمپنیوں کی سالانہ 100 بلین ڈالر کی بچت ہو گی۔
ان ملازمین کے متبادل کے طور پر وہ روبوٹ کا سہارا لیں گی جسے (RPA) robotic process automation کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سافٹ ویئر ڈیجیٹل ورک فورس ہے جو کمپیوٹر پر ویسے ہی کام کرتا ہے جیسے انسان کرتا ہے یعنی یہ کلک کرتا ہے، ٹائپ کرتا ہے ، اپلیکیشن یوز کرتا ہے ، کی بورڈ شارٹ کٹ یوز کرتا ہے اور فائل کھولتا ہے وغیرہ۔ یعنی انسان کی مکمل نقل کرتا ہے۔
گرچہ RPA سسٹم ڈیولپ اور انسٹال کرنے کے لئے بھی RPA based computer skilled انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور آسامیاں خالی ہیں لیکن ظاہر ہے ان کی تعداد بہت کم رہے گی۔ مستقبل کے لیے منصوبہ بنا کر چلنے والوں کے لیے اب RPA کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔