نئی دہلی: شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی توسیعی خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ توسیعی خطبہ شعبۂ تاریخ و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سیمینار ہال میں منعقد ہوا۔خطبے کا موضوع ’’سماجی اقدار اور ادبی کارگذاری: غالب کے متداول اور غیر متداول کلام کی تفہیم‘‘ تھا۔ معروف اسکالر پروفیسر مہر افشاں فاروقی(ورجینیا یونیورسٹی) نے ادبی کارگذاری پر طباعت، سامعین اور قارئین کے زیر اثر بدلتی ہوئی سماجی اقدار کاجائزہ لیتے ہوئے غالب کے غیر متداول کلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ مخطوطے عموماً خواص کے لیے تیار کیے جاتے تھے ، لیکن کتابوں کی طباعت عام ہونے کی وجہ سے قارئین کا حلقہ وسیع ہوگیا۔ اس لیے غالب کو مطبوعہ کلام میں انتخاب کی ضرورت پیش آئی اور انھوں نے تجریدیت سے مملو بیشتر کلام کو مسترد کردیا۔ غالب کا مشکل اور غیر متداول کلام آج کے دور میں غالب کے متداول کلام کی طرح مقبول اور اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ انٹرنیٹ کے دور میں عام ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے پہلے جیسی مشکلات نہیں ہیں۔ انھوں نے غیر متداول اشعار کی مثالوں سے ثابت کیا کہ تخلیقی کارگذاری کی سطح پر غالب کے متعدد غیر متداول اشعار ایسے ہیں کہ انھیں متداول کلام میں لازماً شامل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوسکا کہ غالب کو اپنے کلام پر قارئین کے ردعمل کی بھی فکر تھی اس لیے مشکل لیکن عمدہ اشعار بھی ان کے انتخاب سے باہر ہوگئے۔ صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر احمدمحفوظ نے صدارتی تقریر میں مہمان مقرر کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے غالب کے تعلق سے ان کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ مہمان مقرر کا خطبہ موضوع کے لحاظ سے تازہ اور فکر انگیز تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ غالب سے پہلے شاہ نصیر، شیخ امام بخش ناسخ اور خواجہ حیدر علی آتش بھی خیال بند شاعر ہیں، لیکن ان شعرا کے بالمقابل غالب کا خیال بند کلام تجریدیت کی وجہ سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ خطبے کی نظامت کنوینر ڈاکٹر محمد مقیم نے انجام دی۔ شعبے کے استاد ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ آخر میں ڈاکٹر خوشتر زریں ملک نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
اس خطبے میں پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر انیس الرحمن، پروفیسر باراں فاروقی، پروفیسر مجیب الرحمن، پروفیسر محسن عثمانی ندوی، جناب گرجیت سنگھ چیما، پروفیسر راحیلہ فاروقی، پروفیسر محمد فوزان، ڈاکٹر زہرا فاروقی، جناب محمود فاروقی، ڈاکٹر سیف الرحمن فاروقی، محترمہ وندنا اگروال، محترمہ متوشی مکھرجی، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر تفسیر حسین کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف شعبوں کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجو د تھے۔