نئی دہلی:ایک ایسے دور میں جب عورتوں، دلتوں اور اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر لوگ اس کا جشن منانے لگیں تو ایسے دور کو ظلمتوں کا دور ہی کہا جا سکتا ہے۔بیگم عابدہ احمد یادگاری خطبے کے کلیدی خطاب میں ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سدھنوا دیش پانڈے نے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ تھیئٹر نے اس سے بھی برا وقت دیکھا ہے لیکن ہر دور میں اس نے مسائل سے جی چرانے کے بجائے ثابت قدمی سے ان کا سامنا کیا ہے۔ موجودہ وقت کے مسائل بدل گئے ہیں اب لوگ خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے لہٰذا ایسی مثالیں بھی ہیں جہاںاچھے فن کاروں نے الجھنے کے بجائے کہانی کے بین السطور مقصد کو چھپا دیا ، اور یہ نہایت کامیاب تجربہ رہا۔ جلسے کے صدارتی خطاب میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئر مین جسٹس بدر درریز احمد نے کہا کہ سدھنوا دیش پانڈے کا خطبہ ہمیں گہرائی میں لے جاتا ہے اور مسائل کو دوسرے زاویے سے دیکھنے کی بھی ترغیب دلاتا ہے۔ اچھے اور برے وقت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اچھے وقت میں زندگی حقیقت اور ڈراما جھوٹ معلوم ہوتا ہے لیکن برے وقت میں ڈراما حقیقت معلوم ہوتا ہے اور زندگی فریب لگتی ہے۔ اختلافی باتوں کو ہوا دینے والے اپنی توریخ سے بھی ناواقف ہیں اگر ان کو حقائق سے آگاہ کرایا جائے تو ان کے رویے میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے اور اس کے لیے سدھنوا دیش نے جو تجویز پیش کی کہ مقاصد کو کہانی کے پیرائے میں بیان کیا جائے، میرا خیال ہے کہ یہ بہت موثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہا کہ سدھنوا دیش پانڈے نے آج ایسی گفتگو کی جیسی ایک فنکارکو کرنا چاہیے ۔ ڈرامے کی روح ان کے لکچر میں اتر آئی تھی انھوں نے ایسے مسائل کی طرف توجہ دلائی جو موجودہ وقت میں بڑے با معنی ہیں۔ ہم سب ڈراما گروپ کی چیئر پرسن رخشندہ جلیل نے کہا کہ آج کے لکچر کا موضوع بہت اہم ہے برے وقت میں بھی کچھ خوبیاں ہیں مثلاً یہ فن کو پنپنے کے لیے غذا فراہم کرتا ہے اور برے وقت کی تخلیقات ہمیشہ یاد رہ جاتی ہیں ان کے نقوش بہت گہرے ہوتے ہیں، اس طرح برے وقت کی بھی اپنی جمالیات ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے کہا کہ ہم سب ڈراما گروپ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ثقافتی تنظیم ہے بیگم عابدہ احمد نے جس دور میں اس ثقافتی تنظیم کی بنیاد رکھی اس وقت ہمارے یہاں ثقافتی پیش رفت بہت محدود تھی ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس میدان کے ماہرین کے خیالات سے مستفیض ہوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔ سدھنو ا دیش پانڈے کا لکچر اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس موقع پر آرٹ، تھیئٹر اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم و دانش نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔