غالب نے اردو شاعری میں جدلیات نفی کی روایت قائم کی :پروفیسر گوپی چند نارنگ
نئی دہلی:جدلیات اور لاشعور سے متعلق بحثیں ترقی پسند تحریک سے پہلے ہمارے ادب کا حصہ نہیں تھیں۔ ترقی پسند تحریک کا فیضان ہے کہ ہم ان اصطلاحات سے واقف ہوئے۔ غالب کے یہاں جدلیات نفی کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ دوسرے شعرا کے یہاں بھی اس کی خوبصورت مثالیں موجود ہیں لیکن غالب کے یہاں یہ بڑی خوبصورت شکل میں ظاہر ہوئی ہیں ۔ اردو شاعری کی شعریات جن نقوش پر سفر کر رہی تھی غالب نے بڑی حد تک ان کا رخ تبدیل کردیا۔ شاید اسی لیے رشید احمد صدیقی نے کہا تھا کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے اور غالب اردو غزل کی آبرو ہے اوراسی لئے فیض نے کہا تھا کہ لفظ کو استعارہ بنانے کا ہنر میں نے غالب سے سیکھا ہے ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ’غالب کی شاعری میں نفی و اثبات ‘ کے موضوع پر منعقد سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبے کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج جناب آفتاب عالم نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اپنے سمینار کے لیے نہایت اہم اور اچھوتے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے۔ ’نفی و اثبات‘ ایک جدلیاتی بندش ہے جس میں ہر انسانی ذہن کا حصہ ہے۔ ’نفی و اثبات ‘ کے کھیل سے ہی اندرون ذات کی کشاکش اور شخصیت کا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ شاعر کا شعور جتنا وسیع ہوگا اس کا تضاد بھی اتنا ہی گہرا اور وسیع ہوگا۔ غالب کی شاعری میں معانی کے کئی جہاں آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا تضاد بھی اسی قدر وسیع اور گہرا ہے۔ اس درجے کا تضاد شاید آپ مومن ، ذوق، ظفر یا داغ کے یہاں نہیں پائیں گے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہایہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ حضرات ہماری دعوت پر تشریف لائے ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی اولیت یہ بھی ہے کہ ہم نے تمام سمیناروں کو کتابی شکل میں شائع کردیا ہے ۔ہم نے اپنے کئی اہم بزرگوں سے گزارش کرکے بعض اہم کتابیں بھی لکھوائیںجو آج حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ ہمیشہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے کہ جن سے عصری حسیت بھی متاثر ہوتی ہے اور جن کا تعلق زندگی کی گہرائیوں سے ہوتی ہے ۔ غالب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ دنوں میں ’غالب کی شاعری میں نفی و اثبات‘ کے موضوع پر جو مقالات پیش کئے جائیں گے وہ ہماری ادبی روایت کو متاثر کریں گے۔ ممتاز مؤرخ پروفیسر ہربنس مکھیا نے تعارفی خطاب میں کہا ہم لوگ چیزوں کو اُن کے تضاد کے ساتھ دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں متضادچیزیں ایک دوسرے سے بہت مختلف نظر آتی ہیں حالانکہ ان کی گہرائی میں اتر کر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ متضاد چیزوں میں بھی گہرا ربط اور تعلق ہوتا ہے ۔ نفی و اثبات ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان ایک مشترک خلا ہے اور یہی خلا بڑی شاعری اور بڑا ادب پیدا کرتا ہے ۔ میں نے جب یہ موضوع دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ اس موضوع میں ایسابہت کچھ دریافت کرنے کے لائق ہے جو اب تک معرض گفتگو میں نہیں آیا ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے کہا کہ کسی ادارے کا نصف صدی کا سفر ایک یادگار سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے علم و ادب کی کس طرح خدمت کی ہے اس کا اندازہ آپ کو آج رلیز ہونے والے سوینیر اورہماری کتاب ’غالب انسٹی ٹیوٹ نصف صدی کا سفر‘ کے دیکھنے سے ہو سکتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ علم و ادب کی خدمت کرنے والوں کو ہر ممکن تعاون دے۔ ہمیں خوشی ہے کہ جن افراد کو غالب انسٹی ٹیوٹ نے ابتدائی مراحل میں متارف کرایا وہ آج ملک کی مشہور و معروف دانش گاہوں میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیںاور اپنی مستقل شناخت رکھتے ہیں۔ میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوں جن کے خیالات سے ہم مستفید ہوئے ان تمام افراد کا جو صف سامعین میں موجود ہیں کہ آپ نے آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا۔
اس موقع پر جسٹس بدر دُرریزاحمدکے دست مبارک سے پروفیسر علیم اللہ حالی کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے تحقیق و تنقید، پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی کو فخرالدین علی احمد غالب اوارڈ برائے فارسی تحقیق و تنقید، پروفیسر خالد محمود کو غالب اوارڈ برائے اردو نثر، پروفیسر شہپر رسول کو غالب اوارڈ برائے اردو شاعری، جناب مظفر علی کو ہم سب غالب اوارڈ برائے اردو ڈرامہ اور ڈاکٹر نریش کو غالب اوارڈ برائے مجموعی علمی خدمات پیش کیاگیا۔ اس گولڈن جبلی تقریبات کے موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع مندجہ ذیل کتابوں کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔
دیوان غالبکافی ٹیبل فارم، سووینیر 1969-2019، گنجینۂ معنی کا طلسم جلد سوم مصنفہ رشید حسن خاں،قادر نامہ مرتبہ پروفیسر اخلاق احمد آہن، اردو ادب میں وقت کا تصور مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، شرح دیوان غالب مصنفہ حسرت موہانی، باقیات شہریار ، غالب اور الور مصنفہ ڈاکٹر مشتاق تجاروی، نقد غالب اور آل احمد سرور مرتبہ ڈاکٹر امتیاز احمد، غالب انسٹی ٹیوٹ نصف صدی کا سفر مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی و ڈاکٹر رضا حیدر، شمس الرحمٰن فاروقی ادیب و دانشور مرتبہ ڈاکٹر رضا حیدر و محضر رضا، نظم طباطبائی مونوگراف پروفیسر ظفر احمد صدیقی، رشید حسن خاں مونوگراف مصنفہ ڈاکٹر عمیر منظر، سید مسعود حسن رضوی ادیب مونوگراف مصنفہ ڈاکٹر نور فاطمہ، یوسف سلیم چشتی مونوگراف مصنفہ ڈاکٹر عبدالسمیع، انشا ء اللہ خاں انشا اور ہندستانی روایت مرتبہ ڈاکٹر رضا حیدر، کچھ غالب کے بارے میں مرتبہ ڈاکٹر محضر رضا، عہد غالب کا لکھنؤ مرتبہ ڈاکٹر رضا حیدر، غالب نامہ جولائی 2019و جنوری 2020۔
اس موقع پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات، ریسرچ اسکالرس، طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سمینار کے تکنیکی اجلاس 14-15 مارچ کوصبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ایوان غالب میں منعقد ہوں گے جس میں مشہور و معروف اسکالرس ’غالب کی شاعری میں نفی و اثبات‘ کے موضوع پر مقالات پیش فرمائیں گے۔ 14 مارچ شام 6 بجے عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا جائے گا جس میں اردو کے ممتاز شعرا اپنا کلام پیش کریں گے۔