Home نقدوتبصرہ مرزا غالب اور جان کیٹس(فکر و فن کا تقابلی مطالعہ)- حقانی القاسمی

مرزا غالب اور جان کیٹس(فکر و فن کا تقابلی مطالعہ)- حقانی القاسمی

by قندیل

مصنف: ڈاکٹر زیڈ حسن، مرتب: ڈاکٹر سید اختیار جعفری
صفحات :490، قیمت: 400 روپے، سنہ اشاعت: 2021
ناشر :ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

مرزا غالب (27 دسمبر 1797- 15 فروری 1869) اور جان کیٹس (31 اکتوبر 1795 – 23 فروری 1821) دونوں ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں بہت سی سطحوں پر مماثلت ہے۔ مرزا غالب سے انگریزی زبان و ادب کا ایک بڑا حلقہ واقف ہے کہ غالب کی شاعری کے ترجمے انگریزی میں ہوچکے ہیں اور کیٹس سے بھی اردو ددنیا واقف ہے کہ کیٹس کے کلام کے ترجمے اردو میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی عظیم شاعر ہیں اور دونوں کو بے پناہ مقبولیت بھی حاصل ہے۔ انگریزی ادبیات میں جس طرح جان کیٹس کے مطالعات کا سلسلہ ہنوز قائم ہے اسی طرح ہمارے یہاں مطالعاتِ غالب کا تسلسل قائم ہے۔ دراصل ان دونوں شاعروں کے یہاں ایسے زاویے اور جہتیں ہیں کہ تلاش و تفحص سے کوئی نہ کوئی نیا زاویہ متجسس ذہنوں کو مل ہی جاتا ہے۔
دیوبند کے متوطن، متھرا میں مقیم انگریزی کے سندیافتہ اور استاد ڈاکٹر زیڈ حسن نے د و زبانوں کے شاعروں کو اپنا محور و مرکز بنا کر تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں تقابلی مطالعات کی روش پہلے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی تھی کہ الگ الگ زبانوں کے شاعروں کے ماحول، فضا، زبان، ذوق میں فرق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود تقابلی مطالعات کی روایت ہمارے یہاں موجود ہے اور کچھ شعبے بھی اس تعلق سے قائم کیے گئے ہیں۔ اسی کی پاسداری کرتے ہوئے زیڈ حسن نے مرزا غالب اور جان کیٹس کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ یہ دراصل ان کے انگریزی مقالہ ’مرزا غالب اینڈ جان کیٹس: اے کمپیریٹو اسٹڈی‘ کا اردو روپ ہے۔ اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ کیٹس اور غالب کے مابین شخصی، فکریاتی اور موضوعاتی سطح پر بہت قربت ہے۔ دونوں کی پیدائش کے درمیان دو برس کا فاصلہ ہے۔ کیٹس غالب سے دو برس بڑے ہیں ماہ پیدائش میں فرق ضرور ہے مگر انتقال کا مہینہ ایک ہی ہے، یعنی فروری۔ کیٹس کو عمر تو بہت مختصر ملی، صرف 26 سال۔ جب کہ غالب کو 72 سال ملے۔ مگر دونوں نے اپنی مختصر یا طویل زندگی میں ادبی معاشرے پر گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ یہ دونوں ہی فطری شاعر ہیں۔ دونوں کے یہاں رومانیت ہے۔ دونوں کے کائناتی تصور اور مذہبی افکار و اقدار میں بھی تھوڑی بہت مماثلت بھی ہے۔زیڈ حسن نے دونوں عظیم شاعروں کی سماجی، شخصی، معاشی اور تخلیقی زندگی کا موازنہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زبان، ملک، قوم، جغرافیہ کے اختلاف کے باوجود دونوں کے نظریات بہت حد تک ملتے جلتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ان دونوں کے فکر و فن کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ دونوں عظیم شعرا انسانیت کے دائمی جذبات کی کھوج کرتے ہیں اور اکثر ایک ہی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔ ایک ہی جیسے خیالات ان کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں، ایک ہی جیسے دکھوں سے وہ دکھی ہیں اور سکون و اطمینان بھی ایک ہی جہان رنگ و بو میں تلاش کرتے ہیں۔ شاعری دونوں کے ہی خون میں تھی، یہ دونوں ناکامیوں، مایوسیوں اور مالی دشواریوں کے باوجود اپنے اس خداداد فریضے سے پیچھے نہیں ہٹے۔‘‘ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ’’دونوں کے خطوط ادب کی تاریخ کا بیش بہا خزانہ ہیں اور دونوں ہی شعرا فلسفیانہ خیالات سے لبریز تھے۔‘‘
زیڈ حسن نے شخصی سوانح کا بھی تقابلی مطالعہ کیا ہے اور یہ عجب سی مماثلت بھی تلاش کی ہے کہ غالب دلی میں برسوں رہے، لیکن بے گھر رہے اور کیٹس بھی ایسا ہی تھا جس کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ غالب کی زندگی بھی کرائے کے مکان میں گزری اور کیٹس بھی بطور کرایہ دارہی رہتا تھا اور اتنا ’فاقہ مست‘ اور مفلوک الحال تھا کہ مکان کا کرایہ تک دینے کی استطاعت نہیں تھی۔
ڈاکٹر زیڈ حسن نے غالب او رکیٹس کی شخصیت کی تشکیل کے مشترکہ عناصر پر بھی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے جہاں غالب کی دہلی کے بارے میں لکھا ہے وہیں کیٹس کے لندن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ایک اور عنوان ’کیٹس :کلام اور کمالات‘ ہے جس میں انھوں نے کیٹس کے شعری موضوعات اور محاسن کے حوالے سے بحث کی ہے اور اس کے نظریہ شاعری کو بھی پیش کیا ہے۔ ’غالب کے شعری کارنامے‘ کے عنوان سے یہ واضح کیا ہے کہ کیٹس کی شاعرانہ کاوش صرف ایک کلیات تک ہی محدود ہے جب کہ غالب کا تصنیفی کینوس وسیع ہے۔ غالب کے خطوط میں جیسے ایک خاص عہد کا معاشرتی، سیاسی و ثقافتی رنگ و روپ ہے، اسی طرح کیٹس کے خطوط میں ان کی زندگی اور عہد سے جڑی ہوئی بہت سے واقعات و واردات ہیں۔ ابتدا میں جس طرح کلام غالب کا مذاق اڑایا گیا، اسی طرح کیٹس کے بارے میں کہا گیا کہ پگلے کو شاعری کا بھوت سوار ہوگیا ہے۔ اس طرح کے تضحیک آمیز رویے سے جیسے غالب کو تکلیف پہنچی ویسے ہی کیٹس کو بھی بہت دکھ ہوا۔
زیڈ حسن نے غالب اور کیٹس کے ماضی کو بھی موضوع بنایا ہے اور بہت سی اہم باتیں اس حوالے سے تحریر کی ہیں۔ ’غالب اور کیٹس کے موضوعات‘ کے تحت موضوعی مماثلت تلاش کی ہے۔ جس طرح غالب کے یہاں حسن و عشق اور اس کے تلازمات پر شعر ملتے ہیں اسی طرح کیٹس کا بھی ایک الگ جہانِ حسن و عشق ہے، کیٹس بقول زیڈ حسن ’’نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مقبول ترین شاعر تھا اور رہے گا کہ اس نے بھی محبت کے حوالے سے بہت سے شعر کہے ہیں…‘‘ اور کیٹس حسن پرست بھی تھا جیسا کہ ان کی نظموں سے متبادر ہوتا ہے۔اسی طرح غالب بھی عشق ا ور حسن کے پرستار تھے۔ زیڈ حسن نے ان دونوں کے حکیمانہ نظریات میں بھی یکسانیت تلاش کی ہے۔ غالب کے نزدیک خدا اور مذہب کا جو تصور تھا شاید اسی نوع کا تصور کیٹس کے یہاں بھی ملتا ہے۔ زندگی کے بارے میں بھی اسی نوع کے تصورات ہیں، شاعرانہ اندازِ بیان کے حوالے سے بھی انھوں نے گفتگو کی ہے اور آخری باب ’مقبولیت کے راز‘ کے عنوان سے ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہکیٹس کا مغربی دنیا سے تعلق ہے تو غالب کا مشرق سے مگر دونوں ہی نصابوں میں شامل ہیں۔ زیڈ حسن لکھتے ہیں کہ ’’دونوں نے غربت کی زندگی گزاری، مشروب زیست کے دکھ سکھ، امید و بیم کے تلچھٹ تک پی گئے، اپنے خواب بنتے رہے، حقیقت اور تصورات کی چلمن بناتے رہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’غالب نے اپنی جائے پیدائش آگرہ کو خیرباد کہا اور دارالحکومت دہلی میں سکونت اختیار کی وہاں اس کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا، اسی طرح کیٹس والد کی وفات کے بعد لندن آکر بس گیا جہاں اس کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔‘‘ خلاصۂ کلام یہ کہ کیٹس اور غالب دونوں بے گھر تھے، لیکن دلوں میں اپنا گھر بنانے میں کامیاب رہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ڈاکٹر زیڈ حسن کی یہ کتاب دو زبانوں کے ادبیات کے رویے، رجحانات، افکار و اقدار اور ان زبانوں سے متعلق شعرا کی ذہنی، نفسی، داخلی اور خارجی کیفیات کی تفہیم میں بہت معاون ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب کی تفریق و تقسیم بے معنی ہے کہ تصورات، خیالات، جذبات، احساسات کی سطح پر یکسانیت بھی ملتی ہے۔ دراصل شاعر یا ادیب آفاقی ذہن کا حامل ہوتا ہے، اس کا تصور کسی قوم، ملک، زبان میں محدود نہیں ہوتا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مغربی اور مشرقی شعرا کے مابین بہت سی سطحوں پر مماثلتوں کے ثبوت موجود ہیں۔کتاب کے آخر میں پانچ ضمیمہ جات شامل ہیں۔ غالب اور کیٹس کی توقیت کے علاوہ منظومات کیٹس کی فہرست بھی ہے۔ یونانی ادب و تہذیب کا مطالعہ کے ساتھ کتاب میں مذکورہ شخصیات کا ایک اشاریہ ’فرہنگ بزمیہ‘ کے نام سے ہے جو بہت وقیع ہے اور اس فرہنگ کی تحریر و ترتیب میں ڈاکٹر سید اختیار جعفری کی معاونت شامل رہی ہے۔ غالب، غالبیات، کیٹس اور کیٹسیات کے عنوان سے کتابیات کی فہرست بھی ہے۔
ڈاکٹر زیڈ حسن نے مطالعات غالب کے ضمن میں ایک نیا زاویہ تلاش کیا ہے، یقینا یہ تلاش و جستجو، عرق ریزی، ژرف نگاہی اور تحقیق و تجسسقابل قدر ہی نہیں بلکہ قابل رشک بھی ہے۔

You may also like

Leave a Comment