Home تجزیہ غزہ: جہاں خواب مرتے نہیں-ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

غزہ: جہاں خواب مرتے نہیں-ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

by قندیل

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

غزہ، وہ سرزمین جہاں خاک کا ہر ذرہ بھی شہادت کی گواہی دیتا ہے، اور جہاں ہر گلی ایک ایسی داستان سناتی ہے، جس کا ہر لفظ گویاخون سے لکھا گیا ہو، یہاں کی فضائیں گولیوں کی گونج سے آشنا ہیں، اور یہاں کے درخت بھی اپنے شاداب پتوں میں شہیدوں کے نام محفوظ رکھتے ہیں، غزہ ایک ایسا چراغ جو اندھیروں میں بھی روشنی کا ضامن ہے، یہ بستی اپنے ویرانوں میں بھی آباد ہے، اور اپنی ہر صبح کے افق پر آزادی کے رنگ بکھیرتی ہے، غزہ، نہ صرف ایک زمین کا نام ہے بلکہ ایک زندہ جذبہ کی علامت ہے، جو جبر کے سمندر میں امید کا ساحل ہے، غزہ، وہ سرزمین جہاں نہتے ہاتھوں نے دنیا کی ایک طاقتور فوج کو جھکنے پر مجبور کر دیا،اور ثابت کردیا کہ:

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا

ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

حماس صرف ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے، ایک پیغام ہے کہ جب غیرت جاگ اٹھے تو کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی، حماس کے قائدین، اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار، مزاحمت کے وہ پہاڑاور ایسے "خالد جانباز” اور "حیدر کرار” تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالا، یحییٰ سنوار نے اپنی قربانی سے دنیا کو دکھا دیا کہ قیادت محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ اپنے وجود کو قربان کرنے کا نام ہے، اسی طرح اسماعیل ہانیہ، جنہوں نے دنیا بھر میں فلسطینی کاز کی حمایت جیتی، اس بات کے گواہ ہیں کہ قیادت وہی ہوتی ہے جو اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہو،طوفان اقصیٰ ایک ایسی تاریخ رقم کر گیا جس نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا، 471 دنوں کی مزاحمت نے نہ صرف میدان جنگ میں اسرائیل کو شکست دی بلکہ اس کے اندرونی نظام کو بھی بے نقاب کر دیا، استعفوں کا طوفان، جو اسرائیلی انٹیلیجنس افسران سے لے کر چیف آف اسٹاف تک سب کو بہا لے گیا، اس بات کی علامت ہے کہ حماس کی مزاحمت نے اسرائیل کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، اگست 2024 کو غزہ ڈویژن کے انٹیلیجنس افسر نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دیا، اور پھر 4 ستمبر کو زمینی فورسز کے سربراہ نے بھی یہی راستہ اختیار کیا، اوراب اسرائیل کے فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہلیوی بھی مستعفی ہوگئے، یہ استعفے، جو ایک کے بعد ایک آتے گئے، اسرائیلی قیادت کی ناکامی اور فلسطینی عوام کی فتح کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔

غزہ جنگ، جو 15 ماہ تک جاری رہی، تاریخ کے المناک اور تباہ کن واقعات میں سے ایک بن گئی، اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ پٹی پر مکمل محاصرہ کرتے ہوئے روزانہ بمباری، جبری انخلا، اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی بندش کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا، فلسطینی عوام کو ناقابل تصور نقصان اٹھانا پڑا، جس میں 46707 افراد جاں بحق اور ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، ان متاثرین میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے، دوسری طرف، اسرائیل نے مجموعی طور پر 1940 ہلاکتوں کا اعتراف کیا، جن میں 1139 شہری اور 810 فوجی شامل تھے،جب کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، اس دوران اسرائیل نے غزہ پر 85,000 ٹن دھماکہ خیز مواد برسایا، جس کے نتیجہ میں 42 ملین ٹن ملبہ جمع ہوگیا، عالمی عدالت برائے انصاف نے اس جنگ کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا، لیکن غزہ کے نہتے عوام نے اپنی استقامت سے دنیا کو حیران کر دیا، وہ مائیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھائے، وہ مرد جو ملبے سے اپنے گھروں کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ بچے جو ہر رات بمباری کے سائے میں بھی آزادی کے خواب دیکھتے ہیں، یہ سب فلسطینی غیرت کے وہ چراغ ہیں جو کبھی بجھ نہیں سکتے، اس جنگ کا اختتام قطر، مصر، اور امریکہ کی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدہ پر ہوا، قطر، جو ہمیشہ مظلوموں کی آواز بنا، اس معاہدہ میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے روشن تاریخ کا حصہ بن گیا، قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی کی سفارتی مہارت نے وہ ممکن کر دکھایا جو نا ممکن لگتا تھا، ان کی ثالثی نے اس معاہدہ کو حقیقت میں بدلا اور دنیا کو دکھایا کہ امن کے لیے خلوص اور جرات دونوں ضروری ہیں۔

دنیا کے ایوان اقتدار میں بیٹھے وہ حکمراں جو اپنے بیانات میں انسانیت اور امن کے دعوے کرتے ہیں، شاید کبھی غزہ کی سسکتی کہانی کو نہ سمجھ سکیں، ان کے لیےیہ اعداد وشمار محض خبروں میں لکھے ہوئے الفاظ ہیں، لیکن اس ملبہ کے نیچے دفن کہانیاں وہ نہیں پڑھ سکتے، یہ کہانیاں معصوم بچوں کے خوابوں، ماؤں کی دعاؤں، اور شہیدوں کے خون سے لکھی گئی ہیں، غزہ کا ہر گھر، ہر گلی، ہر پتھر یہ پکار رہا ہے کہ ظلم کی عمر مختصر ہوتی ہے، اور عزیمت کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوتی، الحمد للّٰہ 19 جنوری کو کافی ردّ و قدح کے بعد جنگ بندی کا نفاذ ہوگیا، لیکن مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے ضروری ہے کہ اہل فلسطین کے حقوق تسلیم کئے جائیں، اور اس خطہ کو ہمیشہ کے لیے خون خرابہ سے نجات دی جائے، ڈر یہی ہوتا ہے کہ یہود کبھی اپنے ودہ پر قائم نہیں رہتے، جنگ کے دوران اسرائیل کی عہد شکنی اور ظالمانہ رویے ہمیشہ کی طرح واضح طور پر سامنے آئے، 1948 میں جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے یورپ سے ہتھیار اور رضاکار حاصل کیے اور دوبارہ جنگ شروع کر دی، 1956 میں "کیمپ ڈیوڈ” معاہدے کی چوتھی شق، جس میں دونوں طرف غیر فوجی علاقے قائم کرنے کا وعدہ تھا، اسرائیل نے رفح پر بھاری فوجی مشینری کے ساتھ حملہ کر کے اسے توڑ دیا تھا، اسی طرح 1967 میں اسرائیل نے ایک بار پھر جارحیت کرتے ہوئے ہر معاہدے کو روند ڈالاتھا، غزہ کے باسیوں کو 2023 میں "محفوظ علاقوں” میں منتقل ہونے کا حکم دیا گیا، لیکن انہیں وہیں قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا، یہی نہیں، اسرائیل کی جانب سے لبنان میں معاہدوں کی خلاف ورزی اور مغربی کنارے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی بھی اس کی بدنیتی کو عیاں کرتی ہے،رب العزت نے سچ فرمایا: "کیا یہ واقعہ نہیں کہ جب بھی ان لوگوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس کی خلاف ورزی کی ؟ بلکہ ان کی اکثریت ایمان سے محروم ہی رہے گی” (البقرہ: 100)، یہ آیت یہودیوں کی بار بار کی عہد شکنی اور وعدوں سے انحراف کی گواہی دیتی ہے، جو ان کی سرشت میں شامل ہے اور تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے، خدا کرے حالات بدل جائیں۔

ٹرمپ کے "ابراہام معاہدہ” Abraham Accords اور "معاہدۂ صدی” Trump peace plan نے فلسطینی عوام کی کمر پر جو بوجھ ڈالا تھا اسے مسلم دنیا کی بے حسی نے اور بھاری کر دیاتھا، ان معاہدوں نے نہ صرف اسرائیلی قبضہ کو جواز فراہم کیا بلکہ مسلم قیادت کی در پردہ "دوستی” کو بھی بے نقاب کیا، لیکن فلسطینی مزاحمت نے ان سازشوں کو ناکام بنا کر یہ پیغام دیا کہ آزادی کسی سازش کا شکار نہیں ہو سکتی، یہ کامیابی حماس اور فلسطینی عوام کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، لیکن چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے، غزہ کی تعمیر نو، لاکھوں بے گھر افراد کی بحالی، اور اسرائیلی پابندیوں کا مقابلہ کرنا ابھی باقی ہے، اس کے ساتھ اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ حماس کو محدود کرے، اس کے ہتھیار چھینے، اور اس کی حمایت کو کمزور کرے، لیکن ایک دن ان شاء اللہ غزہ کے ملبے تلے دبے خواب ایک دن حقیقت بن جائیں گے، چوں کہ:

خواب مرتے نہیں

خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو

ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے

جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے

خواب مرتے نہیں

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like