ابھی ’گہن‘ مجموعہ پڑھنے کا موقع نہیں تھا،لیکن جب پڑھنے لگے تو کہانی ایک جابر حاکم کی طرح مجھ سے پیش آئی۔ اس کاحکم ہواپڑھو اور ہم پڑھنے لگے۔ ضروری کام ہونے کے باوجود ہم اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ آپ کی انگلیوں کی جنبش سے بکھرے قوس وقزح کے رنگوں میں گم ہوگئے۔ رنگ اپنے مزاج کے مطابق زندگی میں رنگ بھرتے نظر آئے۔ کوآرک کی رنگینی جذبات واحساسات کا ترجمان بن گیا۔ ہم حیرت زدہ ہیں کہ آپ کس طرح مختلف شیڈس یکجا کرکے زندگی کا سلائیڈ بنالیتی ہیں۔ کبھی ان کی سوشل پتھالوجی کرتی ہیں۔ کبھی سماج کے ذہن میں پلے بڑھے کیڑے کاMicros copiesٹسٹ کرکے سماجی، اخلاقی ، اقتصادی، مذہبی۔۔۔ اورمختلف پہلوؤں کا فن کارانہ تجزیہ کرتی ہیں۔ آپ زندگی کے مسائل سے پائنچہ سنبھال کر نہیں گزرتی، بلکہ ان میں اُتر کر کچھ اتنے اپنائیت، ہمدردی اور لگاوٹ سے انہیں پیش کرتی ہیں کہ زندگی کے سارے نقوش نمایاں ہوجاتے ہیں۔ کبھی آپ کا برش وہ رخ پیش کرتاہے کہ مجھ جیسا مبتدی چونکے بنا نہیں رہتا۔ سماج پسند کرے یا نہ کرے آپ زندگی کے چندایسے گوشوں پربھی روشنی ڈالتی ہیں جو بہت ہی پوشیدہ اور متبرک ہونے کے ساتھ ساتھ سیکرٹ متروک بھی ہے۔ لیکن ان میں وہ بھی آلودگی نہیںآئی ہے بلکہ ایک عجیب نوعیت کاجنسی، جذباتی، اخلاقی بدلاؤ ہے۔جس کی حیثیت اس دورمیں Biological Factsکے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آپ اپنے افسانوں میں زندگی کی حقیقتوں کو اس کے مختلف شیڈس کو ایک فن کار نقاش کی طرح پیش کرتی ہیں۔ زندگی کوآپ نے ٹی وی سیریل، کتابوں، رسالوں، اخباروں کو پڑھ اور دیکھ کر نہیں جاناہے بلکہ آپ اپنے چاروں طرف پھیلے رشتے ہی نہیں بلکہ گھر اور سوسائٹی میں بدلتے مزاج ، عیارانہ فضا، مکارانہ ماحول اور پراگندہ سماج کے تیور کونفس کی گہرائیوں میں اتر کرمحسوس کیاہے اور غور فکر کی عادت نے کچھ الگ سے سوچنے، سمجھنے، پرکھنے، جاننے اور پانے کا ملکہ دیاہے۔ تودوسری طرف اسے اسی قوت بے باکی اورصداقت کے ساتھ لوٹانے کاہنرو حوصلہ بھی بخشاہے اور وہ ہے آپ کی سمجھ اور معیارِ نقدجو آپ خود ’عرضِ مصنف‘ میں لکھتی ہیں:
’’زندگی میرے نزدیک محض ایک آرٹ ہی نہیں ایک سچی حقیقت ہے۔ تصنع کی تمام آلائشوں سے مبرا۔۔۔ اخلاقی معیار کے دائرے میں رہتے ہوئے۔۔۔ یہ کہانیاں بھی تمام انسانوں کی زندگی، ان کے مسائل، الجھنوں اورمحرومیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔۔۔ کھوکھلی اخلاقیات کی میں بالکل قائل نہیں بلکہ ان کھوکھلی اخلاقیات سے باغی کرداروں میں مجھے دلچسپی ہے۔۔۔ جنسی کہانی نہیں لکھتی۔۔۔ اگر کسی کو جنسی تلذذ محسوس ہوتا ہے تو یہ بات یقینا پڑھنے والے کے رجحان پرمنحصر ہے۔‘‘
آپ نے عرض مصنف میں جو کچھ کہا ہے اس کا تجزیہ آپ کی کہانیوں کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعہ آپ کے مزاج، طبیعت کی بناوٹ اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے کہ آپ اپنے دعویٰ پر کتنی کاربند ہیں۔ لیکن آپ کی مصروفیتوں کو دیکھتے ہوئے خود کو روک رہے ہیں صرف چند کہانیوں پر کچھ باتیں ہوںگی اس کا سرسری جائزہ لیا جائے گا جو کچھ ہم نے پڑھنے کے دوران محسوس کیا ہے۔ افسانے کے مطالعہ کے سلسلے میں جو نقادوں کا ٹیکنیکل الفاظ ہوتا ہے اس سے گریز کررہے ہیں۔ ممکن ہے میرے خط کو پڑھتے وقت آپ کو تشنگی کا احساس ہو لیکن تفصیل سے لکھنے کا موقع بھی نہیں ہے۔
اگرہم یہ کہیں ’’فرض‘‘، ’’گہن‘‘، ’’پھانس‘‘، ’’تکمیل‘‘ اور’’ عکس‘‘ کہانیوں کی ابتداء، اختتام کے بھرپور لذت آنگیں ارتعاشات کا نتیجہ ہیں۔ جب تک آپ کی اس تکنیک کو نہیں سمجھا جائے گا، کہانی تک پورے طور پر رسائی نہیں ہوگی اور نہ ہی پورے طور پر لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے اور یہی آپ کے لیے بہتر بھی ہے۔ آپ کے کہانی کہنے کا یہ انداز آپ کو ایک چالاک خلاق افسانہ نگار بناکر پیش کرتا ہے۔ اگر اسی موضوع کو آپ رائج بیانیہ انداز میں چھیڑ تیں اور سرشاری کو تکمیلیت کی جگہ دکھاتیں تو آپ پر مخرب اخلاق کا الزام آسکتا تھا۔
’’فرض‘‘ ہی کو لیں، اس میں خونی رشتہ کے خون سفید ہونے کے پیچھے جو صارفی نظام ہے اور آئے دن ہر جگہ محبت، خلوص، اپنائیت کے نام پر جو استحصال ہورہا ہے وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن ’’ساحل نے جان سے عزیز خالہ کو سینے سے لگالیا… کسی بزرگ کی طرح سر پر ہاتھ پھیرنے لگا… مدتوں بعد کسی کا شفقت بھرا ہاتھ نیلوفر کے سرپر رکھا گیا تھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی… اسی وقت ساحل نے اپنے دل میں عہد کیا کہ وہ اپنی ماں کا فرض اور خالہ کی زندگی کا قرض اب وہ خود ادا کرے گا…‘‘ بھانجے کے اس عہد کے بعد خالہ کی اس تبدیلی کو لکھا جاتا… ’’پچھلے کافی دنوں سے نیلوفر بے انتہا خوش تھی… وہ تو خوشیوں کے لیے ترس گئی تھی۔ اس لیے تھوڑی سی خوشی بھی اسے حیات جاوداں لگ رہی تھی۔‘‘درج بالا بیان کے مطابق لکھ دیتیں تو کس کس کو کیا کیا جواب دیا جاتا۔یا ’’تکمیل‘‘ ہی میں ایک لڑکی کا کسی خوش اخلاق مرد سے مل کر آسودگی دکھایا جاتا اور وجود کے مکمل ہونے کے بعد کار سے اترتے ہوئے بھرپور نگاہوں سے نوجوان کا شکریہ ادا کرتی اور سرمشاری کی کیفیت اس کے انگ انگ سے پھوٹتے دکھایا جاتا تو کیا اس سے پیدا ردعمل کی آپ شکار نہیں ہوتیں۔ معتوب نہیں قرار دی جاتیں لیکن آپ کے کہنے کا انداز سبھوں کو چکمہ دے جاتا ہے۔ایک معمولی سے لہر اتے ارتعاش سے لوگ لرز جاتے ہیں شروع میں جو کیفیت بیان کی گئی وہ اس پر دھیان نہیں دیتے۔
’’پھانس‘‘ میں ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی وضعداری کی صلیب پر خود لٹک رہا ہے۔ وہ بھی ان لوگوں کے لیے جن کی نظر صرف ظاہر پر ہے کسی کو اس کے باطن میں جھانکنے کی فرصت نہیں۔ ہر شخص اپنی ذات تک محدود ہے کسی کو فرصت نہیں کہ اس کے بارے میں سوچے، ہر ایک کو اپنی ضرورت اور مجبوری ہی بڑی لگتی ہے لیکن اگر دوسرے کی طرف سے کسی مجبوری کے بنا تھوڑی کوتاہی ہوجاتی ہے تو گز بھر لمبی زبان نکالے ہر شخص ڈسنے کو تیار ہے ناقدروں کے درمیان اپنے خلوص کے زیاں کا رونا ہے۔ ایسے ماحول میں دیر ہی سے سہی شادی ہوتی ہے اور دلہن چھوڑ کر چلی جاتی ہے ایسی صورت میں بدگمانیوں، شکایتوں خفگیوں کا ایک بے تعلق سا سلسلہ چل نکلتا ہے، نہ اس میں کوئی ہمدردی ہوتی ہے، نہ چارہ سازی ہوتی ہے اور نہ حقیقتوں کو جاننے ، سمجھنے، پرکھنے کا حوصلہ، ہر شخص انتظار سے بیزار بیزار سا اور سارا الزام اس کے مقدر کا حصہ۔ ایسے غیر ہمدردانہ ماحول میں کس سے کیا کہیں؟ بیوی گزارش کے درخواست پر نظر کرنے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ گھر کے سارے لوگ بیوی کے بہی خواہ و طرفداربن کر زبردستی انتظار کو مجبور کرکے خلاء دلوا دیتے ہیں۔ پھر دلہن دوسری شادی کر لیتی ہے ایسی صورت حال میں انتظار کی ذہنی کیفیت کو خوب بیان کیا ہے۔ عصمت چغتائی کے ’’تل‘‘ میںایک مصور پر نامردی کا الزام لگا تھا وہاں بھی زنا بالجبر کرنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی اور یہاں بھی انتظار کی ایک تقریب میں پروین سے ملاقات ہوتی ہے۔ اسے پتہ چلتاہے کہ وہ خدا کی ایک بڑی نعمت سے محروم ہے۔ اس کے لچکدار خوبصورت شاخ میں پھول اور پھل نہیں آئے ہیں نامرادی نے اس کی ذات کو اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے خلوص، خوش اخلاقی، نیکی کی یہ پیکر بڑی مظلوم ہے۔ یہ سن کر انتظار کے اندر کہیں بھی ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، وہ رسم کے دوران پروین کے پاس چلے جاتے ہیں اور سرسراتے سرد انداز میں پوچھتے ہیں:
’’کیا وہ بھی میری طرح……‘‘ کہانی اس جملے پر ختم ہوجاتی ہے لیکن کہانی اس جملہ کے ادا کرنے سے ملی آسودگی اور دل کے پھانس نکلنے سے شروع کی گئی ہے۔ یعنی ’’کیا وہ بھی میری طرح… نا… م… ر… د… ہے جو تمہیں بچہ نہیں ہوا؟؟…
نقطوں میں کہہ کر ’’سترہ برس سے جو آگ انتظار بیگ کے سینے میں دہک رہی تھی… ایک ہی پل میں اپنا اگلا پچھلا حساب چکادیا۔
اگر درج بالا انداز سے کہانی لکھی جاتی تو باکس آفس پر کامیاب عوامی ٹسٹ کی فلم ہوجاتی ادب نہیں رہتا۔ نامکمل جملے پر ختم کرنے اور سترہ برس کے اگلے پچھلے حساب کے چکتا کرنے سے شروع کرنے کے انداز نے کہانی کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔
’’گہن‘‘ میں نازش لسبین (Lesbian) ہے۔ وہ ’’لحاف‘‘ کی مالکن، ’’انگڑائی‘‘ کی گلنار، ’’ہائے اللہ‘‘، ’’تل اوٹ پہاڑ‘‘ کی چھوٹی سی کمسن لڑکی۔ ’’تارے لرزتے رہے ہیں‘‘ کی نند بھاوج کی طرحPri sexual یا Tom Boyنہیں ہے۔ نازش میں Libido ہم جنسی محبت کا چسکا اپنے پورے شباب پر ہے۔ اس میں کہیں بھی مخالف جنس کی طرح جھکاؤ نہیں پایا جاتا۔ یہ پورے طور پر Cliloride ہے۔ ممکن ہے یہ جس لڑکی یا عورت سے ملتی ہووہ۔ Pri sexual رہی ہو۔ لیکن نازش کے کسی بات یا انداز سے یہ نہیں جھلکتا کہ اس میں جنس مخالف کی طرف سے کوئی کشش ہے۔ ممکن ہے نازش سنورنے والی عورتوں، لڑکیوں اور ناپختہ بچیوں میں جنسی شعور پیدا کرکے ہم جنس عورتوں کے ساتھ مباشرت کرتی ہو۔ نازش فیشن ہاؤس کی انچارج تھی۔ معمولی شکل صورت ہونے کے باوجود اس کی سہیلیوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ حسن اخلاق، خاطر مدارات اور جدید ترین فیشن کے فن میں مہارت کی وجہ سے فیشن زدہ خواتین کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ اس بناؤ سنگھار اور آپس کے مصاحبت کے پس پردہ مکمل نامکمل جسم کے حلقے درحلقے ایک دوسرے میں ٹوٹتے ہوںگے ستارہ سے نازش نے کسی طور پر رشتہ بڑھایا اور قریب سے قریب تر ہوتی گئی اور ایک روز ستارہ نے کولی میں بھرکر نازش کو چوم لیا لیکن یہ احساس تشکر اور فرط جذبات سے مغلوب ہوکر مسرت کا بوسہ تھا دوسری طرف نازش ایک شاطر شکاری کی طرح اپنے محبت کے جال کا حلقہ مختصر سے مختصر کرتی چلی جارہی تھی۔ ویسے ستارہ نئی روشنی کی پروردہ ہونے کے باوجود اپنے چال ڈھال، رکھ رکھاؤ، ہنسی مذاق، ہاؤ بھاؤ، چھیڑ چھاڑ، حسن وادا بناؤ سنگھار خود کو تیکھے زاویہ سے دیکھنے اور بے ساختہ گفتگو کے لحاظ سے اپنے پرانے وضع کی پاسدار اور امانت گزار لگتی تھی۔ لیکن وہ لسبین نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نازش کے فاعل عمل سے بپھر گئی۔ نازش کی مدہوشی اور ستارہ کی کسمساہٹ کھینچنے اور ڈھکیلنے کا عمل عموماً سپردگی میں تبدیل ہوجایا کرتا ہے۔ زندگی کے شاہراہ کے تنے ہوئے جال میں پھنسے ہوئے پھتنگے، آخر کار ڈنک کی لذت سے بدحال ہوکر خود سپردگی کے کرب سے گزر جاتے ہیںجس طرح بھینگتے ہی پتنگ کا کانپ چھوٹ جاتا ہے اور کاغذ ایک دوسرے کو آغوش میں لے لیتا ہے لیکن جال توڑ کر اڑ جانے والا خود سر پتنگا مکڑی کو خجالت میں ڈال دیتا ہے۔ ستارہ سے مات کھانے کے بعد نازش کی جو ذہنی اور جذباتی کیفیت ابھر کر سامنے آئی ہے وہ مکمل طور سے کہانی کے تانے بانے کو ملاکر تفہیم وبصیرت عطا کرتی ہیں۔
یہاں منٹو کے سوگندھی کے ہتک جیسا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی کہانی میں ’’اونہہ‘‘ کے بعد کا ردعمل ہے۔ یہاں تو کہانی باطنی اظہار سے شروع ہوئی ہے۔ یہاں محسوسات اسے اپنے تاثر کے بیرونی اظہار کے لیے اکسارہے ہیں، نجی ردعمل کا اظہار بیانیہ انداز میں ہوگیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کہتے ہیں:
’’ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہو اپنے اوپر مسلط کرکے اس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سننے والے پر وہی اثر کرے یہ افسانہ ہے۔‘‘
لیکن یہاں تو خود نازش کا تاثر اس پر مسلط ہے— گہن میں اگر ہتک ہونے کے بعد ردعمل کو تفصیل سے پیش کیا جاتا تو کئی نسل کی تباہ کاری اور سماجی زندگی کا الم ناک حصہ بن جاتا۔ کہانی ستارہ کے خفا ہوکر چلے جانے پر ختم ہوجاتی ہے لیکن کہانی بڑی چالاکی، ہنرمندی اور ذہانت کے ساتھ اس کیفیت سے شروع ہوتی ہے جو نازش نے ستارہ کے جانے کے بعد محسوس کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’ستارہ چلی گئی اور نازش کا سارا چین سکون لے گئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ نہ صرف اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا… اپنی اتنی بڑی ہتک سے وہ تڑپ اٹھی۔‘‘
درج بالا بیان کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ – ستارہ سے قبل نازش ہمیشہ کامیاب ہوتی رہی تھی۔ انٹلکچول طبقہ کو زندگی کا پردہ چاک کرکے جو چیتھڑے سامنے آئے ہیں وہ دراصل ہمارے پرفریب معاشرہ اور ترقی یافتہ آزاد سوسائٹی کی نفسیات کا بھرپور اور واضح صورت حال ہے۔ اس کہانی پر کئی جہت سے باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن اس کا موقع نہیں۔
’’سنگین جرم‘‘ اور ’’جشن‘‘ فسادات پر لکھی ہوئی کہانیاں ہیں۔ یہ کہانیاں آتش پارے اور سیاہ حاشیے کے بطن سے پھوٹی ہوئی ہیں۔ اس میں مصنفہ کا قلم بے باک اور خود آگاہ ہے۔ ان کی آنکھوں نے جو دیکھا ہے۔ پڑھا ہے، سمجھا ہے، تجزیہ کر تحلیل نفسی کے بعد جو کچھ سامنے آیا ہے۔ اس کا برملا تخلیقی اظہار کیا ہے لیکن بڑی چابکدستی وفنکاری کے ساتھ… اس کہانی میں وردی والے ایک طبقہ کے ساتھ مل کر ظلم، جبر، درندگی کابازار گرم کرتے ہیں۔ اس دوران اپنے ساتھ کام کیے افسر کا بھی لحاظ نہیں بربریت کی انتہا کردیتے ہیں۔ رٹائر افسر کو مارتے ہی نہیں بلکہ چودہ سال کی بچی کے جسم کو اس طور پر نوچتے بھنبھوڑتے اور زدوکوب کرتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ابھی کوئی آدمی یہاں تھا۔ ’’جشن‘‘ میں طوائف کو بھی نہیں بخشا، طوائف کیا ہوتی ہے ایک تولیہ ہی نا جس میں سارے ہی لوگ بلا امتیاز اپنی غلاظت پوچھتے اور جھاڑتے ہیں۔ یہ بھی مزاج آشنا ہے اسے پتہ ہے کہ یہ اپنی ذلت کا بدلہ کس طرح لے سکتی ہیں۔ اس لیے یہ انتقام لینے کے لیے ایک ’’جشن‘‘ مناتی ہیں اس میں وہ افسر بھی آتے ہیں جو اپنی پیاس بجھانے کے لیے قبل بھی ناک سے الف لکھتے رہے تھے۔ انہوں نے فساد کے موقع پر سنگینوں کی پیاس بجھائی تھی ،ہنستے تھے، قہقہے لگاتے تھے۔ تخلیقی حصہ کی تحقیر کی تھی اسی لیے یہ رنڈیاں وش کنیا بن گئی تھیں لیکن عام عوام اپنا زہر کہاں انڈیلے۔ سنگین جرم میں چودہ سال بہن اور باپ کا عالم دیکھ کر ایک لڑکی اپنی حفاظت کے لیے سنگین اٹھاتی ہے تو سنگین جرم بن جاتا ہے۔ حکومت نے حفاظت کے لیے ہی نااسلحہ دیا ہے۔ وحشی آئے اپنا کام کرگئے۔ پھر آئے وہی وحشی خونخوار درندے۔لیکن حفاظت کے لیے گورنمنٹ سے ملا اسلحہ اٹھانے پر سنگین جرم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہوم سیکورٹی ڈپارٹمنٹ اپنا اعتبار اور اعتماد کس رام راج میں بحال کرے گی— اعتماد ٹوٹتا ہے تو کہیں سنگین اٹھایا جاتا ہے تو کہیں ’’جشن‘‘ ہوتا ہے— جھمی بائی کی پولیس کے خلاف گواہی کافی ہے۔ ان کی بہیمیت کو سمجھنے کے لیے ’’کھول دو‘‘ میں ڈاکٹر کی نظر جھک گئی تھی۔ یہاں رنڈیوں کی نظر کھل گئی اور اپنے حفاظتی اقدام میں جٹ گئیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں جھمی بائی کی گواہی:
’’—اتنے میں شور مچا پولیس آگئی— پولیس کانام سنتے ہی جھمی کے بے جان جسم میں حرکت ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ چاروں طرف دیکھا۔ کپکپاتی ہوئی شہادت کی انگلی وردی والے کی طرف اٹھی— اسی وقت اس کی روح پرواز کرگئی—‘‘
کیا اس گواہی کے بعد بھی وردی والوں کا تعارف کرانا بچتا ہے۔ کیا اس سے بلیغ اشارے ممکن ہوسکتے ہیں خوف سے قصر عنصر سے روح کا پرواز کرجانا— کیا رائج نظام کے لیے تمغہ نہیں ہے؟؟ ’’زندگی زندگی‘‘ کہانی بھرپور خوشگوار زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ منگنی کا ماحول ہے ہر طرف نغمے، قہقہے، چہچہے، چہلیں، امنگ بھری، خواب آنگیں رسم ایک خوش آئند زندگی کی تمنا، تاک جھانک، چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق، نوجوان امنگیں— اور پھر— حادثہ (بھوپال کانٹ)—!! —!! چہارطرف حشر برپا، قیامت کا سماں— اس میں عارف کی تلاش ثریا کا مل جانا، ایک دوسرے کے لیے مرہم بنا— تھکے، نڈھال، شکشتہ، ریزہ ریزہ خواب کے کرچیوں کو چن کر پلکوں پر سجانا اگر زندگی بکھربھی گئی تو مسکرانے کے زاویہ درست کرنے کی کوشش کرنا۔ زندگی کا ایک مثبت اپروچ ہے۔ زندگی جس حال میںہو زندگی ہی رہتی ہے۔ بہتری کی امید کا دامن ہرحال میں تھامے رکھنا چاہیے۔ کانٹوں بھرے کیکٹس میں کھلے پھول، بے رونق زندگی کو پھرسے امنگوں سے بھردیتے ہیں۔ ’’شاید پہلی بار… عارف نے اپنا ہاتھ ثریا کے ہاتھ پر رکھ دیا…‘‘ (نام یاد نہیں) کلام حیدری کی فساد کے ماحول سے متعلق ایک کہانی تھی جس میں ایک جوڑا بھاگ کر ہیوج (Huge)پائپ کے اندر چھپ جاتا ہے۔ چاروں طرف آگ، دھماکہ، چیخ پکار، فوجی بوٹوں کی ٹاپ، ٹاپ آوازیں، بندوق، ٹامی گن کی گڑگڑاہٹ، اس ماحول میں بیوی کے جسم کے لمس سے، تھوڑی دیر کے لیے ماحول کے جبرسے نکل کر خوش آئند مستقبل میں گم ہوجاتے ہیں۔ ’’زندگی زندگی‘‘ بے ثباتی اور ثبات کا افسانہ، مثبت ذہن لے کر لکھا گیا ہے اور آج کے زہریلے ماحول میں بڑا بامعنی ہوگیا ہے۔ منتشر زندگی کو دوبارہ یکجا کرنے اور سمیٹنے کی کہانی۔
’’کنفیشن‘‘ میں عورت یا ماں کا نیا روپ ابھرا ہے۔ کسب معاش کے لیے ہمیشہ جسم کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خاندانی وقار کو قائم رکھنے کے لیے جسم کے استعمال کرنے کی مجبوری بھی سامنے آتی رہی ہے خواہ وہ قحط بنگال کا المیہ ہو کہ فسادات کے پیدا صورت حال یا ہجرت کے بعد جڑ کی آبادکاری کے لئے گاہک کی تلاش۔
’’ٹوٹے ہوئے آدمی‘‘ میں ایک غیرت مند شوہر کی بیوی، شوہر کے علاج کے لیے، شوہر کے جذبات، احساسات و انااور وقار کی پاسداری کے خیال سے خوفزدہ کر جسم کا سودا کرتی ہے۔ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں رانو بیٹی کا سودا ہوتے ہوئے دیکھ کر بپھری ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔ جبکہ وہ خود بے سہارہ ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن اسے صارفی نظام ہی کا دین کہیں گے کہ ایک ماں اپنی آسودگی کی خاطر بیٹی کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔ آج کی معاشی زندگی اخلاقی گراوٹ سماج میں رہنے والوں کی ذہنی خود مختاری اور اپنی ذات تک محدود ہوجانے کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد رقیہ کی ماں شوہر کے دوست دلاور خاں کے قریب ہوجاتی ہے اور اپنے آرائش وزیبائش، گھومنے پھرنے، سیرسپاٹے پر زیادہ دھیان دینے لگتی ہے۔ گھریلو ذمہ داریوں کی طرف سے غافل لگنے لگتی ہے۔ یہ دلاور خاں کے چنگل میں کچھ اس طور پر چلی جاتی ہے کہ دلاور خاں کے دیوانے بیٹے سے اپنی لڑکی کا رشتہ طے کردیتی ہے۔ اس کے انگلیوں کے اشارے پر ناچنے لگتی ہے— اتنا ہی نہیں دلاور خاں اس کی بیٹی کے ساتھ جنسی تشنگی بجھانے کی کوشش کرتا ہے ناکامی کی صورت میں رقیہ کی ماں پر اپنا غصہ اتارتا ہے تو وہ اسے رشتے کی نزاکت کا آئینہ دکھانے کے بجائے بیٹی پر ہی زیادتی کرتی ہے۔ اپنی ذات کا زہر تیزاب کی صورت میں بیٹی پر ہی انڈیلتی ہے۔ اسے لگتا ہے بیٹی نے جرم کیا ہے گھر کے لوگ دوبارہ بے سہارہ ہوجائیںگے۔ وہ پھر تنگدستی، بے مروتی کی شکار ہوجائے گی۔ اس لیے وہ خود غرضی کی شکار ہوکر کہتی ہے۔ ’’حرامزادی تیرا کیا گھس جاتا‘‘ آج کے سماج کی یہ گھناؤنی تصویر، ماں کے تقدس بھرے رشتہ کے لیے ایک گالی ہے۔
اخلاقی معیار، سماجی دائرہ اور رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے ماں کا کنفیشن بہت خوبصورت اور چونکانے والا ہے۔ کُل وہ روش چھوڑ چکی تھی، زندگی کو قائم رکھنے کا طریقہ بدل چکا تھا، باہری چکاچوند کرنے والے تام جھام نے اسے اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ دام خلوص اور غرض مند ہمدردی نے اسے پوری طور پر جکڑ لیا تھا۔ بیٹی کو مار کر وہ اپنے کردار کے اوچھے پن اور خجالت کو مٹانا چاہتی تھی۔ نہ چاہ کر بھی بیٹی سے کچھ سننا چاہتی تھی، لیکن اس کی مستقل خاموشی، اس کے عزم کا پتہ دے رہی تھی۔ جو ماں کے غیرت کو جگانے کے لیے کافی تھا۔
دونوں کے درمیان لمبی خاموشی فطری ہے۔ باہر آکر بچوں کی خاموشی کو محسوس کرنا اور ظاہری خفتگی کے انداز میں چلا کر بولنا ’’کیا ہوگیا ہے تم سب کو؟ ارے کم بختوں کوئی مرگیا ہے کیا؟؟— سچ میں ماں تو مرچکی تھی— لیکن ممتا ماں کا تقدس پورے آب وتاب کے ساتھ جی اٹھا— اس نے بھانجہ مراد سے شادی کا اعلان کردیا یعنی اس نے سکون آرام پر مشقت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا اس لیے وہ مشین کو صاف کرنے کا حکم نماشرط لگا کر کہانی کو خوبصورت موڑ دیا ہے اور ماحول کی گرانباری کو کم کیا ہے۔ ماں کی خجالت کو باوقار اور محترم بنادیا ہے۔
’کنفیشن‘ افسانہ میں ایک جگہ دکھایا ہے— دلاور خاں گھر میں داخل ہوتا ہے رقیہ کی امی کہیں گئی ہوئی ہوتی ہیں وہ دلاور خاں سے کہتی ہے امی اس وقت گھر پر نہیں ہیں اسے سن کر دلاور خاں کا کہنا ’’تم تو ہو میری جان‘‘— کہنے کہ درمیان ایک لمبی کڑی چھوٹی ہوئی لگتی ہے۔ اس طرح کا مکالمہ ادا کرنے کے لیے ماحول کو شاطرانہ انداز سے ترتیب دینا پڑتا ہے۔ نہیں تو فلمی دنیا کا بازاری پن نمایاں ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ’’گہن‘‘ میں— ’’ستارہ نے پیٹھ پھیر کر اسی طرح بلاؤز اتار کر ایک طرف رکھا اور قمیض پہننے لگی… یکایک… اوئی… کہہ کر ستارہ اچھل پڑی‘‘ میں بھی ایک گیپ ہے۔ کسی صورت میں بھی ہوتکمیل۔ رضا قوت تخلیق اور آپس کے باہمی اتصال کے بغیر ممکن نہیں۔ اتصال تک پہنچنے کے لیے کئی منزل سے گزرنا ہوتا ہے۔ نقطہ کے درمیان باتیں کہیں ہیں لیکن ذہن میں تدریجی ارتقاء کی صورت نہیں بنتی۔ دلاور خاں اور نازش کو جسم تک پہنچنے کے لیے ایک فطری سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس سے آپ پر ممکن ہے جنسی ہونے کا الزام آتا لیکن یہ فطرت سے قریب ہوجاتا۔
زاہدہ مقدس جڑ سے اکھڑی ہوئی عورت کی کہانی ہے۔ زاہدہ ایک ایسی انا پرست خاتون ہے، جس میں ساری خصوصیات ہے، لیکن ذرا لچک نہیں ہونے کی وجہ سے اس کی خودداری انا کا روپ دھار لیتی ہے۔ پھر تو آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے— وہ ہر جگہ کھری اترتی ہے اور اپنے بیٹے کو رات دن کا نیند، آرام، چین، سکون کھوکر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاتی ہے۔ کبھی کسی چیز کی کمی اور نامرادی کے احساس سے دوچار نہیں ہونے دیتی۔ راہ کے نشیب وفراز میں بکھرے کانٹوں کو اپنی پلکوں سے چن لیتی ہے اور لڑکا بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کے راستے پر گامزن کشاکشاں آگے بڑھتا ہے نصرت و کامرانی قدم چومتے ہیں اور بیٹا وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچانے کے لیے کامیاب سے کامیاب لوگوں کے بھی خواب کے قدم اکھڑجاتے ہیں۔ زاہدہ کی قوت ارادی اور عزم محکم نے وہ دن دکھایا کہ عالم آج انجینئر بن کر امریکہ جارہا تھا۔ پھر ایک اچھے گھرانے میں دوسال بعد شادی کردی جاتی ہے ارمانوں، خواہشوں، چاہتوں کے خزانے کو دل کھول کر بہو پر لٹایا۔ بیٹا بھی ماں کی خوشنودی کے لیے بہو زمرد کوچھوڑ کر گیا، زاہدہ زمرد کو سیر کرانے وہاں وہاں لے گئیں جہاں جواں ولولے حسرتیں نکالتی ہیں پھر انہیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ بیٹے کے پاس بہو کو کس طرح جلد سے جلد بھیج دیں۔ بار بار فون پر بیٹے کو تاکید کرتیں کے جلد سے جلد بہوکو اپنے پاس لے جاؤ۔ زاہدہ ایک بار بہو بیٹے کے ساتھ گئیں واپس آگئیں— طبیعت خراب ہوئی ہاسپیٹل میں ڈال دی گئیں بیٹے کو خبر ہوئی دوڑا ہوا آیا پھر زبردستی نوکری چھڑواکر اپنے پاس لے گیا۔ ساتھ ساتھ رہنے سے قربت— دوری، کشیدگی اور بے گانگی میں تبدیل ہوگئی— ماں بیٹے کی قربتیں سمٹ کر چند جملوں کی محتاج ہوگئی— ’’امی دوا کھائی، کھانا کھایا، کسی چیز کی ضرورت ہوتو بتادیجیے گا‘‘— بہو آزاد روشن مہکتے ہوئے مغربی تصور وخیالات کی دلدادہ جدید امریکی تہذیب، جواں ولولوں، امنگوں کی پرستار، بغیر روک ٹوک، لباس وبے لباسی کی پرستار اپنی خواہشوں کے پنکھ سے بدمست اڑنے والی۔ کسی ٹوکتی، ضمیر کو جھنجھوڑتی، خمیر کی خوشبو کی اہمیت بتاتی وجود کو کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ خانہ جنگی چھڑگئی، بدزبانی، تعن تشنہ کے خنجر چلنے لگے، بہو جلد ہی اخلاق کی ساری حدیں، ضابطے و قوانین کو پھلانگ گئی— ماں— جو ماں کسی بھی بات سے بیٹے کے سکون چین کو درہم برہم کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے کو روہی بنا رہنے دینا چاہتی تھی ویسے اس کی فطرت بھی شکوہ شکایت کی نہیں تھی اور نہ ہی پل میں تولہ اورپل میں ماشہ کی صفت پائی تھی، بڑی خوددار طبیعت کی مالک تھی، حالات موافق نہیں پاتی کنارہ کش ہوجاتی ہرچیز سے چشم پوشی کرلیتی۔ اسی طرز زندگی پر اب تک جی رہی تھی— دوسری طرف بہو زمرد تھی جو شوہر کے سکون چین درہم برہم کرکے جسم کے موج کے ہلکورے کے درمیان اپنا غم سناکر ہمنوا بنالینے کے فن سے واقف تھی وہ کروک چھتیر کی ایسی سنجے تھی جو ایک ہی پکچھ کی ناکردہ زیادتی دکھا رہی تھی۔ جو ہوا بھی نہیں تھا۔ وہ زاہدہ کی بار بار تذلیل کرتی، ہتک آمیز جملے کہتی، دوستوں سہیلیوں کے درمیان مذاق اڑاتی— بیٹے کے سامنے بھی سنا سنا کر الزام لگاتی لیکن زاہدہ خاموش رہتی وہ نہیں چاہتی تھی کہ گھر کے ماحول میں مزید کشیدگی پیدا ہو— لیکن ایک روز جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ بیٹے سے دو ٹوک بات کرنے کے لیے گئی۔ یہ کچھ کہہ بھی نہیں پائی تھی کہ زمرد فراٹے کے ساتھ بہتان تراشی کرنے لگی۔ بے بس ہوکر ماں نے بیٹے سے کہا:
’’عالم— زمرد کیا کہہ رہی ہے بولتا کیوں نہیں؟
کیا بولوں؟ میں تو پریشان ہوگیا ہوں۔ عاجز آگیا ہوں روز روز کے چخ چخ سے۔
کیا کہوں میں؟ کیا آپ یہی چاہتی ہیں کہ یہ بھی آپ کی طرح گھر چھوڑ دے اور راتوں کو جاگ جاگ کر قینچیاں گھسے— اور اپنے بیٹے کو پالے۔‘‘
بیٹے کے زبانی یہ باتیں سن کر زاہدہ کے انا کا شیش محل چکناچور ہوگیا۔ عالم جسم کا رسیا، ماں کے مزاج کاآشنا نہ بن سکا، ماں کے روح کے کرب کو نہ سمجھا، جسم کی کہانی سن کر اس کا طرفدار ہوگیا۔
بیٹے کے زبان سے یہ جملہ سن کر ’’کیا آپ کی زبان بندنہیں رہ سکتی۔‘‘زاہدہ آپا بیٹے کی بات سن کر اعتبارات کی کسی بلندی سے گریں کے سراسر ٹوٹ کر بکھر گئیں اور خواب حلقۂ زنجیر کا رشتہ ہی ختم کردیا۔
’زاہدہ آپانے زبان کی بلی چڑھاکر شوہر کے گھر سے نکلنے اور اس خون کی پرورش کرنے کا قصاص ادا کردیا!!‘
’’عکس‘‘ پر سریندر پرکاش کے افسانہ ’’خواب صورت‘‘ کا اثر ہے۔(یہ بات تحقیق طلب ہے کہ ’’خواب صورت‘‘ اور ’’عکس‘‘ میں پہلا افسانہ کس کا منظرعام پر آیا)وہاں وہ منہ بولی بہن کے ساتھ مباشرت کرنے کا خواب دیکھتا ہے— یہاں مہرؔ نے جو کچھ دیکھا ہے اس پر شرمندہ اور نادم ہے۔ وہ یہ کچھ دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ کہانی پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے۔ کہانی جب شروع ہوتی ہے تو باپ کے رعب دبدبہ سے پورا ماحول خوفزدہ اور ڈرا ڈرا ہے۔ ڈانٹ، ڈپٹ، غصہ، تنبیہ— پھر رفتہ رفتہ ذہنی یگانگت پیدا ہونے لگتی ہے تو مردانگی حسن ووجاہت، نفاست، علمیت، تدبر، تربیت کا ڈھنگ واضح ہونے لگتا ہے۔ قرب اور ذہنی ہم آہنگی کچھ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مہر کو والد صاحب میں اپنا آئیڈیل اور تصور کا مکمل روپ شاہکار کی شکل میں ہو بہو نظر آنے لگتا ہے۔ وہ ہر وقت والد کے قریب رہنے لگی ان کا چھوٹا بڑا کام کرنے لگی۔ طبیعت خراب ہوئی تو بچھاون میں ساتھ گھس گئی والد نے بچھاون میں کلبلاہٹ محسوس کیا، پوچھا کون ہے مہر نے کہا میں ہوں والد نے فرط محبت سے مہر کو ایک بچے کی طرح سینے سے چمٹا لیا اور اس کی آنکھیں محبت کی لمس سے بھر آئی— پھر زندگی موت کا لبادہ اوڑھ کر روپوش ہوگئی۔سارا عمل غیرشعوری طور پر ہوتا رہا اور وہ غیرمحسوساتی طور پروالد سے قریب سے قریب تر ہوتی گئی۔ اس دوران چھوٹے سے آپریشن کے بعدوالد کا انتقال ہوگیا۔ سبھوں نے اپنے اپنے نوعیت کا خواب دیکھا اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا یہ خواب دیکھنے کے لیے ترس گئی۔ یہ ایک بار انہیں دیکھنا چاہتی تھی، سارے لوگوں کے تعلقات کو خواب میں پھلتے پھولتے دیکھ رہی تھی سن رہی تھی اور وہ محسوسات سے قریب تر ہوکر بھی کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھی، وہ ایک احساس تشنگی سے دوچار تھی۔ ایک حبس کا ماحول پورے وجود پر طاری تھا۔ ذہن بالکل ساکت— ویسے ہی!— جیسے سمندر میں جوار بھاٹا سے قبل ماحول خاموش ہوجاتا ہے— طوفاں ہی تو آنا تھا— خواب کی نوعیت کسی طوفان سے کم نہیں۔اب ساری تہذیبی قدروں کو ٹوٹ پھوٹ کر احساس کے عکس میں ڈھلنا تھا۔ آئیڈیل وجود کے سپرد ذات کو ہونا تھا۔ قائم شدہ اخلاقیات کے سارے بندھن پھلانگنے تھے۔ بے ریا محبت کے نئے مذہب کی تعمیر ہونی تھی۔ اب مادہ اور غیرمادہ کا رشتہ کسی بندھن کے حصار کا پابند نہیں۔ نئے اخلاقی ضمیر کی تکمیل ہونی تھی سوخواب کی صورت میں ہوگئی۔ خوشبو بن کر لوٹیںگے جیسا مافوق الفطرت ماحول نہیں پیدا ہوا ہے۔ یہاں جو کچھ ہے زمینی اور فطری ہے۔بالکل بلوریں شبنمی بدن جیسا، پھولوں کے سینے پر قدموں کے نشان چھوڑتا۔
’’حصار‘‘ ایک جاہل اور متوسط گھرانے کی کہانی ہے۔ جہاں نہ جانے کتنی زاہدہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔ جن کی خواہشات، جذبات، احساسات اور سنہرے خوابوں کی پامالی مرد کے جبریہ قانون کے تحت کیا جاتا رہا ہے۔ اسے حق ہی نہیں ہے کہ کوئی خواب بنے،دیکھے یا دکھائے نہ خود کے لیے اور نہ بچیوں کے لیے۔ یہ ازل سے کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ بھیڑ بکریوں سے زیادہ بے زبان۔ لیکن جب زاہدہ ہی کی کہانی پندرہ برس بعد اس کی بچی کے ساتھ دہرائی جانے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی ممتا کو گالی دیا گیا، بگاڑنے کا سہرا اس کے سرمنڈھا گیا کیونکہ بنیادی طور پر شوہر کی زبانی وہ خود چھینال ہے۔ آج سے پندرہ سال پہلے کا واقعہ اس کے نظروں کے سامنے گھوم گیا جہاں وہ بھی بے قصور تھی اور جینے کا حق مانگ رہی تھی…… گالیوں کے بوچھاروں کے ساتھ ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کے وجود کو ہلاکر رکھ دیا— تھپڑ کھانے کے بعد یکایک وہ چونکی پھر سنبھلی اسے ایسا لگا جیسے اب تک خواب میں تھی یکایک اس نے اپنے بکھرے وجود کو سمیٹا خوفزدہ ڈری ہوئی، بے بس اور مجبوریاں، مستحکم قوت ارادی کے ساتھ مرد کے بنائے ہوئے ظالمانہ نظام کے خلاف ایک آواز بن کر ابھری اس کے تیور سے لگ رہا تھا جنم جنم سے دبی کچلی ہوئی مجبور و بے بس و بیکس عورت کے ساتھ ہوئے ظلم وزیادتی کا بدلہ لے کر رہے گی اور وہ بچی کو آگے پڑھانے کا فیصلہ سنا دیتی ہے، جس میں مستحکم فیصلے کے پیچھے قوت ارادی صاف ظاہر ہورہی تھی کہ اب وہ استحصال پسند مرد ذہنوں کا نہ خود شکار ہوگی اور نہ ہی بیٹی اس سفاک نظم کے ظلم، جبر کا نشانہ بننے دے گی۔ لہٰذا اس نے فیصلہ سنا دیا:
’’میری بیٹی پڑھے گی ضرور پڑھے گی……
بیوی کی مضبوط آواز اور اٹل قوت ارادی دیکھ کر مزمل بھونچکاسا رہ گیا۔
زاہدہ پرسکون تھی… برسوں سے پھڑپھڑاتی روح قید خانے کے حصار توڑ چکی تھی۔‘‘
یہاں پر زاہدہ قدر شرافت کرتے کرتے بھی شوہر کے لئے ایک دشنام ہی تھی تو اس نے حرف کو حکایت کا ہنر بخشا اور انداز دلبرانہ کو تیور دے کر معرکۂ بے اماں سے نکلی اور احتجاج کو مرہم زخم ہنر بنادیا۔
’’لمحہ‘‘ پاکیزہ کے پر اعتماد کردار کی باوقار کہانی ہے۔ ایک ایسا محبوب اپنی معشوقہ کے شوہر کے گھر آتا ہے دونوں کی شادی نہیں ہونے کے پیچھے باپ ماں یا قسمت ہوسکتا ہے۔ ان دونوں کی غلطی نہیں لڑکے نے تو کورٹ میرج تک کا آفر کیا تھا۔ محبوب کی حالت قابل رحم ہے ایسی صورت میں عورت کی ممتا جاگ جائے تو کوئی بھی صورت رونما ہوسکتی ہے لیکن پاکیزہ اسم بامسمّیٰ تھی۔ ایک مضبوط قوت ارادی کی مالک اور ایک مبسوط زاویۂ حیات رکھنے والی۔ یکایک تیز ذہنی جھٹکے کی طرح شروع ہونے والے کمزور لمحے میں بھی زندگی کے باگ پر سے شعور کا ہاتھ، نظر، قدم ہٹنے نہیں دیتیں۔ اس کے کردار کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ کہیں پر سے کھلے پن، کشادہ قلبی کی کمی نہیں چھلکتی۔ خوف بے جا شرم، جھجھک انسان کو کمزور بنا دیتا ہے۔ مناسبات کا دامن چھوڑ دینے سے آدمی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اندر سے اٹھے خواہشات اور اس کے تقاضے کبھی اتنے تیز طوفان نہیں بنے کہ زندگی کے تقاضے اور اصولوں اور سنہرے خواب تک کو بہالے جائے۔ گفتگو کے دوران جہاں پر کمزوری کے غالب ہونے کا خدشہ تھا وہاں پر ایک بے رحم فلسفی بن گئی۔ جملے کے کاٹ اور دھار سے خود بلبلا اٹھی لیکن سامنے والے کو محسوس نہیں ہونے دیا۔ اس خود اعتمادی کے پیچھے اس کے شوہر کے اعتماد اور اعتبار کی بے بہا پونجی اس کو حاصل تھی۔
ندیم جب عورت کے جذبات پر پرانے یادوں کی انگلیوں سے احساس کو ٹٹولتا ،کریدتاہے تو وہ کہہ اٹھتی ہے:
’’تم یہ بات کیوں جانناچاہتے ہو کہ مجھے کیا یادہے اور کیا نہیں؟‘‘
’’سمجھوتہ تم جیسے لوگ کرتے ہیں۔ زندگی میں سب کچھ تو نہیں مل جاتا؟
میں بہتر سے بہتر زندگی جینے کے حق میں ہوں۔‘‘
دوسری جگہ کہتی ہے:
’’اپنی سوچ کا زاویہ بدل دو، لمحوں کے کرب سے باہر نکل آؤ سب کچھ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
دیر رات گئے دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے پھر سونے چلے گئے۔ عورت نے دروازہ نہیں بند کیا کیونکہ اس نے اٹھتے ابھرتے مچلے احساس پر قفل ڈال رکھا تھا۔ وہ کسی طور پر بھی خود کو کمزور دکھانا نہیں چاہتی تھی۔ ویسے بھی وہ خود اعتمادی کی قوت سے مالا مال تھی اس قوت میں تقویت اس کے شوہر نے ہی پہنچائی تھی— ندیم ساری رات بالکل نہیں سویا اس کی ساری رات بے چینی میں گزری خود اس کے اندر ڈوبتے ابھرتے احساس سرگوشیاں کرتے رہے— اور صبح ندیم کے کمرے میں چائے لے کر جاتی ہے تو ادھ جلے سگریٹ اور ندیم کی بوجھل سوجی اور دہکتی ہوئی آنکھ سے سامنا پڑتا ہے تو اسے بھی بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’کمزور لمحہ گزر گیا‘‘ پھر ایک سکوں طمانیت کا سانس لیتی ہے۔لیکن قاری کے ذہن میں بار بار سوال سر ابھارتا ہے کہ یہ اصولوں کا نشہ اور سنہرے خواب کیا گل کھلائیں گے؟
’’نگینہ‘‘ لڑکی کی نفسیات پر مبنی ایک رومانی کہانی ہے۔ خون کا رشتہ معاشی بدحالی سے متاثر نظر آرہا ہے۔ ٹھیکرے کی مانگ راہ چلتے مسافر سے پوچھے ہوئے وقت کی طرح چچا اور چچی کے ذہن سے محو ہوچکا ہے۔ نگینہ اپنے منگیتر ابرار کے تئیں ثابت قدم ہے لیکن ابرار کی طرف سے گرم جوشی کا بھی جواب سرد مہری سے ملتا ہے تو نگینہ ایسی صورت میں چھیڑ خوباں سے چلی جانے والی فطرت اختیار کرلیتی ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے احساس نامرادی سے بچ سکے۔دل پھینکنا، دل لینا اور دنیا اس کے لیے ایک شغل بے ریا سے زیادہ نہیں تھا— اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نامساعد حالات میں جب اس نے ابرار سے اپنی محبت کی مراد چاہی تو اس کی طرف سے سرد مہری ملی۔ اس میں وہ جوش وخروش نہیں پایا جو اس قسم کے رشتے کا تقاضا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ ٹوٹی نہیں بلکہ سراپا جسم ہوگئی۔ ادا ہوگئی، انداز ہوگئی، مینکا ہوگئی، سمٹنے اور کھلنے لگی اور کھلنے میں سمٹنے لگی۔ چاہا، چاہا جانا، چاہ کر چاہتے رہنا اور اپنے جذبات، احساسات، خواہشات کی قربانی دینے لگی۔ محبت میں خود غرض نہیں ہوئی۔ جس سے ملی، اس کے دل میں اپنا نقش چھوڑاوہ ایسا نہیں چاہتی تھی کہ جو اس کا ہوگیا صرف اسی کا ہوکر رہے بلکہ وہ تواپنی محبت سے تعمیری و تخلیقی توانائی کا کام لیتی تھی۔ نفرتوں کی کھائی پاٹتی تھی۔ اس عمل سے اسے صرف آسودگی ملتی تھی جو بڑا ہی نفسیاتی پہلو ہے۔ اپنی بے بصاعتی کے احساس سے بچنے کا۔
اس نے ابرار سے وہی کچھ کہا جو اس کے قبل دوسرے عاشقوں سے کہتی رہی تھی لیکن ان لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن یہاں تو باضابطہ روحانی رشتہ تھا وہ سارے رشتے اسی ایک رشتہ کو استوار کرنے کے لیے رچاگیا تھا— وہ اپنے ٹھیکرے کے منگیتر سے کہتی ہے:
’’مجھے بھول جاؤ‘‘ بہتر زندگی گزارو، تم خوش رہو، بیوی کو خوش رکھو، یہی میری محبت کی مراد ہے۔ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دینا۔ بندھے ہوتو تم پر ذمہ داری آتی ہے کبھی اس سے روگردانی نہ کرنا، اس کی طرف سے کبھی کوتاہی مت برتنا، ایسی صورت میں لوگ مجھے بدنام کریںگے۔ کیا تم چاہتے ہو تمہاری محبت بدنام ہو… تم یہ ہو، تم وہ ہو، ہم ہماری حیثیت کیا… ہم سمجھیںگے ہمارا مقدر ہی یہی تھا، ہم تو جی ہی لیںگے—!! —!!‘‘
اتنی ساری باتیں تو ہوگئیں لیکن اب سوال اٹھتا ہے کہ ’’نگینہ‘‘ کو اتنا کچھ کہنے کا موقع تھا۔ اس نے ابرار سے کیوں کہا بھول جاؤ۔ عاشقوں سے کہتی تھی تو وہاں کچھ یادیں تھیں باتیں تھیں۔ ابرار نے تو کبھی اس کا موقع نہیں دیا:
’’وہ (نگینہ) عشق محبت کی پنگیں بڑھانا چاہتی تو ابرار ان باتوں کو فضول کہہ کر خود کو کتابوں میں غرق کرلیتا۔‘‘
لیکن یہاں ایک چیز تھی اور وہ قوت تھی ٹھیکرے کی مانگ اور اپنی ذات کا عرفان— ابرار کے لفظوں میں ان تبدیلیوں کومحسوس کرلینا جو اس کی بے راہ روی کے ردعمل میں اس کے یہاں رونما ہوئی تھی۔ اس کی خفتگی، جھنجھلاہٹ، بے رخی میں بھی محبت کی لپک محسوس کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی ابرار اپنے حق کا استعمال کرے۔ اس کی زندگی کی فراریت کو سمجھے لیکن وہ تو شادی کرنے جارہا تھا!— شادی!!
جیسی وہ تھی، جن راہوں پر خود کو ڈال لیا تھا، ابرار بھی محبت کو فضول کہہ کر ٹال دیتا تھا تو اس میں چونکنے اور حیرت کی کیا بات تھی۔ بہن کہتی ہے:
’’آپا… ابرار بھائی شادی کررہے ہیں۔
تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے… ابرار اور شادی؟‘‘
یا پھر اس طور پر سوچنا:
’’اس کو چھوڑکراس کی اتنی بڑی توہین؟؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟ اس کے دل پر سانپ لوٹنے لگے ،وہ یہ برداشت نہیں کرسکتی… وہ ایساکبھی نہیں ہونے دے گی… کبھی نہیں… کسی قیمت پر بھی نہیں۔‘‘
نگینہ جو جسم کا بین بجا رہی تھی، تماشائیوں کے درمیان ناچ اور تھرک رہی تھی۔ اپنے جسم کے تناؤاور ابھار سے مسحور کر رہی تھی۔ لہراتے، بل کھاتے، ڈگمگاتے جوانی سے مدہوش قدم تماش بینوں کے لیے نہیں تھا بلکہ آدرش وادی کتاب کے نیچے دبے ہوئے کریئرسٹ سانپ کے لیے تھا کیونکہ جب یہ کتابوں پر سے لڑھک کر اس کی طرف دیکھتا تو اس کے آنکھوں میں وحشت ہوتی لیکن محبت میں یہ گرانبارئی آداب کیا معنی— وہ چاہتی تھی کہ ابرار پھوپھکارتا ہوا نکلے، لپکے، ڈسے، ناچے ڈس کر قابو میں کرنے کے لیے مچلے اپنے وجود کا سارا زہر اس کے وجود میں ڈال دے۔
ابرار بے تعلق بنا تھا لیکن اس بے تعلقی میں بھی ایک تعلق تھا جسے نگینہ خوب محسوس کرتی تھی اس میں ایک حقدار کے طور پر حق لینے کی کمی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ اس کی رضا کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرے لیکن یہ سانپ تو کتابوں کے درمیاں سے نکل کر دوسری طرف چل دیتا تھا۔ یہ ہتک تو سپیرا کبھی برداشت نہیں کرے گا اور اس سانپ کے ذوق پر بھی سوالیہ نشان پڑ جائے گا۔
’’ایسا کیسے ہوسکتاہے——؟؟‘‘
’’ابرار اور شادی؟‘‘
ابرار اور نگینہ کا رشتہ قربت کی عجب دوری پہ قائم تھا، بیچینی بے قراری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب بچھڑنے کا خوف حاوی ہو جاتا ہے، ذہنی موسم میں ایک ارتعاش و انتشار کی کیفیت پیدا ہوجایا کرتی ہے جیسے خوشبو قبائے گل سے نکل کر دربدری کا شکار ہو جاتی ہے۔
اس کہانی کو جس طور پر بنا ہے۔ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ایک عام موضوع کو جو آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے ایسے اتنے سارے پہلو بخش دینا حقیقت نگاری کی معراج ہے۔ منٹو، ضمیرالدین احمد کے بعد جو چند نام آسکتے ہیں۔ ان میں ایک نام آپ کا بھی ہوسکتا ہے جو بیانیہ انداز میں اتنی صاف، سادہ اور سلیس کہانی لکھ سکتا ہے۔ خاص طور سے خواتین کی نفسیات کو بیان کرنے پر آپ کو قدرت حاصل ہے۔ معاف کیجیے آپ کا بہت وقت ضائع کردیا۔ لکھنے لگے تو لکھتے چلے گئے۔ ایک کہانی کو سمجھنے کے لیے جو وقت ملنا چاہیے تھا وہ ملا نہیں اور نا ہی وہ زمانی دوری ہی پیدا ہوسکی جو قاری اور تخلیق کے درمیان ہونی چاہیے۔ آپ کا ’’عکس‘‘ مجموعہ نہیں پڑھا ہے، ہوسکے تو بھیجوادیں۔ کامران عظیم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سرورق دیکھ کر ایسا لگا ثروت میرٹھی کی ذات کامران عظیم میں منتقل ہوگئی ہے۔