17اپریل2014کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں گیبریل گارسیامارکیز ( 1927-2014: Gabriel García Márquez)کا نام بھی رقم تھا۔علم وادب کی وہ شمع فرزاں جس نے 6مارچ 1927کو صبح نو بجے کو لمبیا کے ایک نسبتاً کم معروف اور چھوٹے سے قصبے اراکاٹاکا(Aracataca)سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تھا،موت کے بے رحم ہاتھوں نے اُسے ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا۔ میکسیکو سٹی کے شہرِ خموشاں کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ادبیاتِ عالم میں فکشن کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے زمیں بوس ہو گئی۔ پُوری دُنیا میں اُس کے کروڑوں مداح فرطِ غم سے نڈھال ہیں اور اُس کی دائمی مفارقت پر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر رہے ہیں۔اپنی مسحورکن شخصیت اور منفرد اسلوب سے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے حقیقت نگاری کی طلسماتی کیفیات سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے والے اس یگانہئ روزگار تخلیق کار نے اپنی تخلیقات کی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے دُنیابھر میں اپنے کروڑوں مداحوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔گیبریل گارسیا مارکیزکی وفات سے بیسویں صدی میں عالمی فکشن اور صحافت کے ایک درخشاں عہد کا اختتام ہو گیا۔ایک رجحان سازادیب،جری صحافی،حقیقت پسندافسانہ نگار اور با کمال ناول نگار کی حیثیت سے اُس نے پُوری دُنیا میں اپنے مسحورکن طلسماتی حقیت نگاری کے مظہر اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔کولمبیا کی سر زمین سے آج تک اس قدر وسیع النظر اور جامع صفات ادیب نے جنم نہیں لیا۔گیبریل گارسیا مارکیز پہلا کو لمبیئن اور لاطینی امریکا کا چوتھا ادیب تھا جس نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔عملی زندگی میں اس نے اپنے متنوع تجربات و مشاہدات اور انسانیت کو درپیش حالات وواقعات کو نہایت بے باکی اور تفصیل کے ساتھ حقیقت پسندانہ انداز میں زیبِ قرطاس کیا۔اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے اُس کانام تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔اُس کے اسلوب میں سپین کے ممتاز ڈراما نگار اور ناول نگار کرونٹس منگول ڈی (Cervantes Minguel De ((پیدائش:1547،وفات:1616) کے شگفتہ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔جس کے ناول (Don Quixto)کو بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔یہ ناول جو 1547سے 1616کے عرصے میں منصہ شہود پر آیا،اپنے عہد کا سد ا بہار ادب پارہ سمجھا جاتا ہے۔مصنف نے حسن و رومان کی دلکش داستان کو اپنی گُل افشانیِ گفتار سے اس قدر شگفتہ بیانیہ انداز میں نثر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری کے دِل کی کلی کھل اُٹھتی ہے۔ ایک زیرک،فعال اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت سے اُس نے مطالعہئ ادب اور تخلیق ادب ہی کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔روزانہ آٹھ گھنٹے ادب کے لیے مختص کر کے اُس نے تخلیقی عمل کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر نے کی سعی کی۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرونٹس منگول ڈی کے بعد جو شہرت،مقبولیت اور پذیرائی گیبریل گارسیا مارکیز کے حصے میں آئی ہے اس میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ایسے ادیب اپنے ابد آشنا اسلوب کی بنا پر نایاب سمجھے جاتے ہیں اور تاریخ ہر دور میں اُن کے فقید المثال ادبی کام اور عظیم نام کی تعظیم کرتی ہے۔اُس نے اپنی لائق صد رشک و تحسین ادبی کامرانیوں سے وطن اور اہلِ وطن کو پوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ عالمی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار وں کے مطابق یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ بیسویں صدی میں جن ناول نگاروں نے مقبولیت،اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کامیابی کے نئے باب رقم کیے گبریل گارسیا مارکیز اُن میں سے ایک تھا۔اُس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے شہرہئ آفاق ناول ”One Hundred Years of Solitude“کا دُنیا کی تیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا۔اس ناول پر مصنف کو چار بین الاقومی ایوارڈز عطا کیے گئے۔ اُس کو ملنے والے دواہم ایوارڈز یہ تھے:
1.Neustadt International Prizefor Literature1972,2.Nobel Prize in Literature 1982
گیبریل گارسیا مارکیز (Gabriel García Márquez) نے نہایت کٹھن حالات میں تخلیقی سفر جاری رکھا۔اس کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے لیکن اس نے حوصلے اور اُمید کا دامن تھا م کر منزلوں کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔شامِ الم ڈھلی تو درد کی ایسی مسموم ہوا چلی جس نے اس کے دل میں نمو پانے والی امید کی کلی کو جھلسا دیا۔وہ امیدوں کی فصل کو غارت ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی اپنی محنت کا اکارت جانا اسے منظور تھا۔وہ تنہا راتوں کے پچھلے پہر تک مطالعہ اور تخلیقِ ادب میں مصرو ف رہتا اور اپنے ناول ”تنہائی کے ایک سو سال“پر کام جاری رکھتا۔اس ناول کی اشاعت کے ساتھ ہی اُس کے مقدر کا ستارہ چمک اُٹھا۔ ۰۷۹۱میں اس کے ناول(One Hundred Years of Solitude)کا گریگوری رباسا(Gregory Rabassa)نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔اس ترجمے میں تخلیق کی جو چاشنی ہے وہ مترجم کے ذوقِ سلیم کی مظہر ہے۔اسی وجہ سے اس ترجمے کو گیبریل گارسیا مارکیز نے بہت پسند کیا۔اکثر ناقدین ادب کی رائے ہے کہ یہ انگریزی ترجمہ اپنے دلکش اسلوب اور بے ساختگی کے اعتبار سے اصل سپینش تخلیق سے کسی طرح کم نہیں۔ اس ناول کو امریکہ میں سال کی بارہ بہترین ادبی تخلیقات میں شامل کیا گیا۔فرانس میں بھی اس ناول کو غیر ملکی زبانوں کے ادب کی بہترین تصنیف قرار دیا گیا۔اٹلی میں ۹۶۹۱میں اس ناول کو ”Chianciano Aprecia“ ایوارڈ سے نوازا گیا۔اشاعت کے بعد صرف ایک ہفتے میں اِ س ناول کی آٹھ ہزار کا پیاں فروخت ہوئیں جب کہ مجموعی طور پر اس ناول کی تیس ملین کا پیاں فروخت ہوئیں۔ ناول ”تنہائی کے سو سال“ میں ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت اورطلسمِ ہوش رُبا کی فسوں کاری ادب کے قاری کو مسحور کرکے اُس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے۔تخلیق کار نے طلسماتی اثر آفرینی کو ایسے دلکش انداز میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے کہ بیانیہ قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے۔طلسماتی کیفیات کی یہ فضاکئی کرداروں کو سامنے لاتی ہے جن میں رمّال،نجومی،ستارہ شناس،فال نکالنے والے،قسمت کا حال بتانے والے ا ور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والے اہم کردار بہت نمایاں ہیں۔ اُس کا ناول ”تنہائی کے سو سال“ ایک خاندان بوندیا (Buendia)کی اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز کے گرد گھو متا ہے۔ ایک نسل کا دوسری نسل کے ساتھ تعلق اور اُن کے مابین پائے جانے والے فکری فاصلے قابلِ توجہ ہیں۔ستارے جو کہ خود فراخیِ افلاک میں خوار و زبوں ہیں اُنھیں انسانی تقدیر کے ساتھ وابستہ سمجھنے کے حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں یہاں طلسمِ ہوش ربا کی جو صد رنگ کیفیت جلوہ گر ہے اسے دیکھ کر قاری ششدر رہ جاتاہے۔کئی عامل ہیں جو طلسمی عمل کے زیرِ اثر آ جانے والے افراد کے ذریعے نہ ہونے کی ہونی کے کھیل کے بارے میں چونکا دینے والے واقعات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ان تمام محیر العقول واقعات اور مافوق الفطرت حکایات کا تعلق ایک پُر اسرار قصبے ”مکونڈو“(Macondo)سے ہے۔مکونڈو کسی خاص مقام کا نام ہر گز نہیں بل کہ جس انداز میں اس مقام کے محلِ وقوع اور لوگوں کی بُود و باش کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اُس سے یہ قیاس تقویت پاتاہے کہ یہی وہ قصبہ ہے جہاں گیبریل گارسیا مارکیز کی آنول نال گڑی ہے۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنے تخیل کی جو لانیوں سے اس پُر اسرار قصبے کے بارے میں جو سماں باندھا ہے وہ قاری کو ایک ایسی موہوم طلسماتی فضا میں لے جاتا ہے جہاں ہر طرف تنہائی کے باعث ہو کا عالم ہے۔اس شہرِ ناپُرساں میں کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔اگر یہاں کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو اُس کی تیمارداری اور علاج پر توجہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ قسمت سے محروم شخص کی موت کی صورت میں بھی کوئی نوحہ خواں نہیں ہوتا جو اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر کے تزکیہئ نفس کی صورت پید ا کرے۔معاشرتی زندگی میں جب احساسِ زیاں عنقا ہو جائے تو مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی بچھڑ کے چلا جائے گریہ و زاری کی نوبت ہی نہیں آتی۔دنیا کے اکثر ممالک میں دیہی زندگی کے مسائل اسی نوعیت کے ہیں کہ وہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔گرد و غبار سے اٹا ہوا ماحول، توہم پرستی،بے عملی، یاسیت،صحت و صفائی کی غیر اطمینان بخش صورتِ حال اور مواصلات کی ناکافی سہولیات نے دور دراز کے قصبات کے مکینوں کو کنویں کے مینڈک کے مانند بنا دیا ہے۔ان لوگوں کی زندگی صرف ایک ڈگر پر چلتی رہتی ہے اور زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں ے اُنھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اُن کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن وہ جن صبر آزما حالات سے گزرتے ہیں اُن کے باعث اُن کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔جب اُن کی مسافت کٹ جاتی ہے تو سفر کی دھول ہی ان کا پیرہن بنتا ہے۔ جب مصنف کو اپنے آبائی قصبے کے وہ اداس بام اور کھلے در یاد آتے ہیں جہاں مایوسی،محرومی،بے بسی اور اداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے تو وہ تنہائیوں کی مسموم فضامیں اس موہوم قصبے اور اپنے آبائی گھر کو یاد کرتا ہے تواس کی ذہنی کیفیت کچھ اس طرح ہوتی ہے:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کودیکھ کے گھر یاد آیا
گیبریل گارسیا مارکیز نے ہر قسم کے ظلم،استحصال اور جبر کے خلاف کھل کر لکھااور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔اس کی حقیقت نگاری بعض اوقات سراغ رسانی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تجسس سے لبریز اس کی تحریروں کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ اُس کی تصانیف کو دنیا میں بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں شمارکیا جاتا ہے۔عالمی ادبیات بالخصوص فکشن میں یہ وہ عدیم النظیرکامیابی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گبریل گارسیا مارکیز نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔اپنے اسلوب میں اس نے جو طرزِ اد ایجاد کی وہ اوروں سے تقلیداًبھی ممکن نہیں۔اختر الایمان نے کہا تھا:
کون ستارے چھو سکتا ہے
راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
گیبریل گارسیامارکیز کو تنہائی کے نوحہ گر اور زندگی کی حقیقی معنویت کے با کمال صورت گر کی حیثیت سے دنیا بھر میں عزت و احترام کا اعلی مقام اصل تھا۔ اس کی وفات سے وفا کے سارے ہنگامے ہی عنقا ہو گئے ہیں۔اس کے زینہئ ہستی سے اُترتے ہی ہر طرف ہو کا عالم دکھائی دیتا ہے۔اب تو فروغِ گلشن و صوت ِ ہزار کا موسم خیال و خواب بن گیا ہے۔وطن،اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔اس نے تخلیق کاروں کو اس جانب متوجہ کیا کہ تیشہئ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اپنے منفرد اسلوب سے اس نے تخلیقِ ادب اور تنقید کے تمام معائر کو اسی نئی جہت عطا کی جواقتضائے وقت کے عین مطابق تھی۔اپنے افکار کی جولانیوں،بصیرت افروز خیالات اور ذہن و ذکاوت سے اُس نے قارئین ِ ادب کے اذہان کی تطہیر و تنویر کی،تخلیقی استعداد کو صیقل کیا اور فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیاکہ قارئینِ ادب ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے آشنا ہوتے چلے گئے۔اس کے فکر پرور خیالات اور دل کش انداز ِ بیان نے جمود کا خاتمہ کر دیا اور فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کی کیفیت دکھا کر قاری کو اپنی طلسماتی حقیقت نگاری سے حیرت زدہ کر دیتا ہے۔زندگی کی برق رفتاریوں میں اُس کا اسلوب دما دم رواں رہنے کی نوید سناتا ہے اور حیات ِجاوداں کا راز ستیزمیں نہاں ہونے کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ادب کا قاری اس انہماک کے ساتھ اس کی تخلیقات کا مطالعہ کرتا ہے کہ اس کا مرحلہئ شوق کبھی طے ہی نہیں ہوتا۔ آزادیِ اظہار،حریتِ فکر و عمل اور انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے اس کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔اس نے جس جامعیت اور ثقاہت کے ساتھ معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور نشیب و فراز بیان کیے ہیں وہ اس کی انفر ادیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔قومی اور معاشرتی زندگی کے واقعات،سماجی زندگی کی اقدار و روایات،انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات اور اقوام ِعالم کے مناقشات و سانحات پر وہ حریتِ ضمیر کا علم بلند رکھتا ہے۔اس کے اسلوب میں تاریخ کے مسلسل عمل،تہذیبی و ثقافتی اقدار کے معاملات اور عصری آگہی کے بارے میں ایک واضح اندازِ فکر پایا جاتاہے۔انسان زندگی کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر ہو جاتاہے۔کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کا یقین ہونے کے باوجود فرصت ِ زندگی کا اسراف ایک بو العجبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔آج کے دور کا سانحہ یہ ہے کہ انسان آب و گِل کے کھیل میں الجھ کر رہ گیا ہے اور یہ تماشا شب و روز جاری ہے۔ سسکتی انسانیت کے لرزہ خیز مسائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے رو بہ رو بیان کرنا پڑتے ہیں۔دیکھنے والے محوِ حیرت ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔گیبریل گارسیا مارکیزنے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے وہ اس کے ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کی دلیل ہے۔اس نے کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی،اسے معلوم تھا کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشیں درد سے عاری ہیں۔اپنے منفرد اسلوب میں اس نے افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کی جو راہ دکھائی ہے،اُس سے قاری کے دل میں ایک ولولہ ئ تازہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بیزار کن جامد و ساکت ماحول سے گلو خلاصی حاصل کر کے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی دھن میں مگن ہو جاتا ہے۔ بے یقینی اور بے عملی کے تارِ عنکبوت ہٹا کر یقین و اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو انداز اُس کی اسلوب میں نمایاں ہے وہ قارئینِ ادب کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔اپنی تخلیقی تحریروں کے اعجاز سے اُس نے تخلیقِ ادب کے لاشعوری محرکات کو تنوع عطا کیا،خیالات،مشاہدات اور تجربات کی نُدرت سے تخلیق ِادب میں دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کی تحریریں ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے معیارپر ہر دور میں ادب پاروں کو پرکھا جاسکے گا۔ مستقبل کے تخلیق کاراس لافانی ادیب کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھ کر تخلیقِ ادب میں اپنی سمت کا تعین کریں گے۔
گیبریل گارسیا مارکیز کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔اس کا والد ملازمت کے سلسلے میں کئی شہروں میں مقیم رہا۔گیبریل گارسیا مارکیز کے دس بھائی تھے۔۹۲۹۱میں اس کے والدین نے ترکِ سکونت کی اور گیبریل گارسیا مارکیز کو کم عمری ہی میں اپنے ننھیال پہنچا دیا گیا۔اپنے ننھیال میں اسے جو ماحول میسر آیا اس کے اثرات بہت دور رس ثابت ہوئے۔اُس کی نانی اپنے کم سن نواسے کو رات کوسونے سے قبل جو کہانیاں سناتی وہ مافوق الفطرت عناصر کے بارے میں ہوتی تھیں۔ان کہانیوں میں جن،بھوت،دیو،آدم خور،پریاں،چڑیلیں اور ہوائی مخلوق کے غیر معمولی واقعات کے بیان سے تجسس،خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی جاتی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کہ بچپن کے یہ واقعات اس ادیب کے مستقبل کے تخلیقی تجربات کی اساس بن گئے۔ زمانہئ طالب علمی ہی سے گیبریل گارسیا مارکیزکو ادب اور صحافت سے گہر ی دلچسپی تھی۔ جب وہ کارٹا گینا یونیورسٹی (University of Cartagena)میں زیر ِ تعلیم تھا تو وہاں کے علمی و ادبی ماحول میں اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار ملا۔اس کے احباب عقیدت سے اسے ”گابو“ (Gabo) کے نام سے پُکارتے تھے۔اُس زمانے میں نو عمر گیبریل گارسیا مارکیز کے مزاج میں جو غیر معمولی شرمیلاپن اور بیزارکُن سنجیدگی پائی جاتی تھی اُس کے باعث وہ حسن و رومان اور ہم عمر طلبا و طالبات اور دوستوں کے ساتھ اٹکھیلیوں سے بالکل دور رہتاتھا۔شاید اسی وجہ سے اس کے ساتھی اسے بوڑھا آدمی کہہ کر چھیڑتے اور اس کا تمسخر اڑاتے۔اس کے باوجود یہ حساس ادیب اور مستقبل کا زیرک تخلیق کارنہایت تحمل سے دوستوں کی کج رائی پر مبنی سب باتیں سنتا اور یہ سب باتیں خندۂ استہزا میں اڑ ا دیتا اور کبھی دل برا نہ کرتا۔۷۴۹۱میں اپنے والدین کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے مارکیز نے نیشنل یو نیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں داخلہ لیالیکن بعض نا گزیر حالات کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑ ھ سکی اور اُس نے قانون کے بجائے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔حالاتِ حاضرہ اور صحافت سے اُسے قلبی لگاؤ تھا۔اُس کا خیال تھا کہ زندگی کے مسائل ے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے زندگی بھر حریت ِ فکر و عمل پر اصرار کیا اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔یونیورسٹی آف کارٹاگینا(University of Cartagena)سے فارغ التحصیل ہونے والے اِس یگانہئ روزگار فاضل نے صحافت،افسانہ نگاری،ناول نگاری اور علم بشریات میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی۔ 1958میں اُس کی شاد ی مرسیڈس بارچا(Mercedes Barcha)سے ہوئی جو اُس سے پانچ سال چھوٹی تھی۔باہمی افہام و تفہیم اور پیمان ِ وفا کی اساس پر استوار ہونے والا یہ بندھن نہایت کامیاب رہا اور اُس کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔یہ دونوں بیٹے اب عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔اب بیوگی کی چادر اوڑھے مرسیڈس بارچا اپنے عظیم شوہر کو یاد کر کے اُسے آہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب اور جری صحافی کی حیثیت سے گبریل گارسیا مارکیزنے عالمی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔اُس نے بیسویں صدی کے ادب پر گہری نظر رکھی اوراس کی روشنی میں اپنے لیے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل لائحہئ عمل کا انتخاب کیا۔برطانیہ کی ادیبہ ورجینیا وولف (Virginia Woolf)(پیدائش:15جنوری 1882،وفات 28مارچ 1941) کی تصانیف اُسے پسند تھیں۔نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ولیم فالکر( William Faulker) (پیدائش 25تمبر 1897،وفات 6جولائی1962)کے اسلوب کو بھی اُس نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر اور جدیدیت کے علم بردار جرمن ادیب فرانز کافکا (Franz Kafka)سے اُس نے گہرے اثرات قبول کیے۔ گیبریل گارسیا مارکیز نے جب فرانز کافکا (پیدائش:3مارچ 1883 وفات: 3جون 1924)کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لیا تو اُس کے دل میں رشک کے جذبات پید ہوئے کہ یہی تو ایسا تخلیق کار ہے جس کے جیسا بننے کی تمنا کی جا سکتی ہے۔ گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں تاریخ،تہذیب اور معاشرت کے بارے میں جو مثبت شعور و آگہی موجود ہے اُس کے سوتے ادب کے وسیع مطالعہ سے پھوٹتے ہیں۔اُس کی تخلیقی فعالیت میں کلاسیکی ادب اور جدید ادب کی اقدار و روایات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔تاہم اُس نے اپنا تزکیہئ نفس کرنے کے لیے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہ اُس کی پہچان بن گئی۔اُس کا اسلوب اُس کی ذات کی صورت میں اُس کی بصیرت کا اثبات کرتا ہے۔موضوعات کے اعتبار سے اس میں تانیثیت،استعماری نظام کی مخالفت،دیہی تہذیب و معاشرت اور جسم فروش رذیل طوائفوں کے جنسی جنون کی کہانیاں جن میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری پر توجہ دی گئی ہے قابلِ ذکر ہیں۔ اس کی اہم ترین تصانیف درج ذیل ہیں:
1.One Hundred Years of Solitude,2.The Autumn of Patriarch,3.Love in the Time of Cholera
اپنے والدین کی داستانِ محبت کو گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنی تصینف ”Love in the Time of Cholera“میں پیرایہ ئ اظہار عطا کیا ہے۔مصنف کی گل افشانیِ گفتار قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔محبت تو ایک چنگاری ہے جو عمر کے کسی حصے میں بھی بھڑک سکتی ہے۔محبت کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ یہ بڑھاپے میں نہیں ہو سکتی۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ محبت کوئی سرکاری ملازمت تو ہے نہیں کہ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد ریٹائرمنٹ پر منتج ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی بھی ملازم سرکاری ملازمت کرنے کا اہل نہیں رہتا۔گیبریل گارسیا مارکیزاپنے مشاہدات کی بناپر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ دو پیار کرنے والے اپنے جذبات کو حدودِ وقت میں مقید نہیں رکھ سکتے۔گو ہاتھ میں جنبش نہ ہو مگر انسان کی آنکھوں میں تو دم ہوتا ہے،وہ حسن کے جلووں سے فیض یاب کیوں نہ ہوں؟بے شک اعضا مضمحل ہو جائیں اور عناصر میں اعتدال کا بھی فقدان ہو لیکن محبت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گیبریل گارسیا مارکیز کا خیال ہے کہ بعض عشاق تو زندگی کے سنہری دنوں یعنی جب وہ ستر برس کے ہو چکے ہوتے ہیں، میں بھی کسی حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو جاتے ہیں۔اس مرحلہ ئ زیست میں ہر سو بکھرے ہوئے موت کے جال بھی عشق اور اس طرح کی والہانہ محبت کرنے والوں کے لیے سدِ راہ نہیں بن سکتے۔گبریل گارسیا مارکیز نے اسی سال کے معمر جوڑے کی داستانِ محبت کا احوال بیان کیا ہے جس نے خلوص اور چاہت کے رشتے میں منسلک ہو کر عہد ِوفا استوار کیا اور اسے علاجِ گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے گور کنارے پہنچنے کے باوجود اسے پایہ ئ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔
اُس کے اسلوب میں ارتقا کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے اسلوب میں نکھا ر آتا چلا گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی ہر تصنیف میں ایک نیا انداز اپنا یا گیا ہے وہ پامال راہوں اور کلیشے کے سخت خلاف تھا۔نقال،چربہ ساز،سارق اور کفن دزد لفاظ حشرات ِ سخن کے خلاف اس نے زندگی بھر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔خوب سے خوب تر کی جانب اس کا تخلیقی سفر جاری رہا۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے کو ئی بھی تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کوئی اسلوب منتخب نہیں کرتا بل کہ اسلوب تو ایک تخلیق کار کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلوب کی مثال ایک چھلنی کی سی ہے جس میں سے ادبی تخلیق کار کی شخصیت چھن کر باہر نکلتی ہے۔گیبریل گارسیا مارکیزکے اسلوب میں جلوہ گر اُس کی مستحکم شخصیت کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے۔اُس کا اسلوب موضوع،مواد،ذہنی کیفیت اور تخلیقی وجدان کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاشرے اور ماحول میں وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور زندگی کے جتنے موسم اُس کے قلب اور روح کو متاثر کرتے ہیں وہ سب کے سب اُس کے اسلوب میں دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں قاری کی نگاہوں میں رچ بس جاتے ہیں۔طلسمی حقیقت نگاری کے سوتے فکر پرور خیالات ا ور بصیرت افروز تجربات و مشاہدات سے پھوٹتے ہیں۔اسی لیے طلسمی حقیقت نگاری قلبی،روحانی اور وجدانی کیفیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔اُس کی تحریروں میں پریوں کی دھول،فضا میں محوِ پرواز مرحومہ دادی کی آوازیں، جنوں،چڑیلوں،بھوتوں اور دیو زادوں کا عمل اور سحر کے ا ثرات گرچہ ناقابلِ یقین سمجھے جاتے ہیں لیکن دُنیا بھر میں اُس کے اسلوب کی باز گشت اب بھی سنائی دے رہی ہے۔طلسمی حقیقت نگاری کوفنون لطیفہ بالخصوص ادب،فلم اورڈراما میں بہت پذیرائی ملی۔بعض اوقات تخلیق کار یہ تاثر دینے میں کام یاب رہتے ہیں کہ طبعی موت کے بعد بھی بعض کردار ہمارے گرد و نواح میں موجود رہتے ہیں اور نسل در نسل ہماری زندگی کے معمولات میں ناقابلِ یقیں انداز میں دخیل رہتے ہیں۔ امروز کی شورش میں اندیشہئ فردا کا احساس اسی کا ثمر ہے۔
ادبی تحریکیں فروغ ِ علم و ادب میں کلیدی کردا ر ادا کرتی ہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز کا تعلق بھی ایک ادبی تحریک سے تھا۔یہ تحریک لاطینی امریکہ بُوم (Latin America Boom)کے نام سے جانی جاتی ہے۔اُس کے رفقائے کار میں مابعد جدیدیت پر دسترس رکھنے والے جولیو کارٹزار (Julio Cartazar)اورنوبل انعام یافتہ ادیب ماریو ورگاس للوسا(Mario Vargas Llosa)کے نام قابلِ ذکر ہیں۔بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادبیات میں فکشن میں جس رجحان کو پذیرائی ملی اُسے طلسماتی حقیقت نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔گبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب میں طلسماتی حقیقت نگاری کی کیفیت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہامنو الیتی ہے۔طلسماتی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب کی اساس بنا کر جب ایک تخلیق کار مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ منطق و توجیہ سے قطع نظر فکشن میں کردار نگاری کو ایسی منفرد بیانیہ جہت عطا کرتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اسلوب کی غیر معمولی دل کشی،حقیقی تناظر، موہوم تصورات،مافوق الفطرت عناصر کی حیران کن کرشمہ سازیاں اور اسلوب کی بے ساختگی قاری کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور دل سے نکلنے والی بات جب سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے تو قاری اش اش کر اُٹھتا ہے۔گیبریل گارسیا مارکیزنے اپنے متنوع تخلیقی تجربات کے اعجاز سے عالمی ادبیات میں تخلیقِ ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا۔اُس کے نئے،منفرد اور فکرپرور تجربات گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھے۔ان تجربات کے معجز نما اثر سے جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیقی فعالیت کو بے کراں وسعت اور ہمہ گیری نصیب ہوئی۔اُس نے حقیقت نگاری کے مروجہ روایتی اندازِ فکر کے بجائے طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر ایک نئے جہان کی تخلیق پرتوجہ مرکوز رکھی۔اُس کے اسلوب میں حیرت کا عنصر نمایاں ہے۔اُس کے ناول اور افسانے دِل دہلا دینے والے مناظر،لرزہ خیز اعصاب شکن سانحات کی لفظی مرقع نگاری،خوف ناک کرداروں کی مہم جوئی اور جہد للبقا جیسے موضوعات سے لبریز ہیں۔اُس نے غیر معمولی انداز میں زندگی کے معمولی واقعات کو بیان کر کے پتھروں سے بھی اپنے اسلوب کی ا ثر آفرینی کا لوہا منوایا ہے۔زندگی اور موت کے مو ضوعات ہی کو لے لیں انھیں گیبریل گارسیا مارکیز نے جس دل کش انداز میں زیبِ قرطاس کیا ہے وہ اُس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اس سے آگے کا سفر تھوڑا سا دم لے کر شروع کیا جاتا ہے۔موت کے بعد کی روداد کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اس موضوع پر بھی اپنے تخیل کی جو لانیاں دکھائی ہیں۔اپنے لا زوال اسلوب سے گیبریل گارسیا مارسیا نے گلشنِ ادب کو جس طرح نکھارا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُس نے اپنی بے مثال ادبی کا مرانیوں سے لاطینی امریکہ کے ادب کو ثروت مند بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اُس نے تخلیق ادب،تنقید و تحقیق اور اظہار و ابلاغ کے مروجہ معائر کو یکسر بد ل دیا اور واضح کیا کہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع تخلیقی فعالیت کو کسی معیار یا طریقِ کار کی تقلید کی احتیاج نہیں، اور نہ ہی اُسے کسی کی تصدیق اور تائید کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے لیے خود ہی لائحہئ عمل کا انتخاب کرتی ہے اور آنے ولا وقت اُس کے معیار اور مقام کے بارے میں فیصلہ صادر کرتا ہے:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
اُردو زبان کے جن ممتاز ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کے تخلیقی شہ پاروں کے ترجمے پر توجہ دی اُن میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی،غفار بابر،ارشاد گرامی، آفتاب نقوی،محمد فیروز شاہ،محمد طحہٰ خان،آفاق صدیقی،بشیر سیفی،ذکیہ بدر،شبیر احمد اختر،صابر آفاقی، اسحاق ساقی،رانا عزیز احمد،صابر کلوروی اور محسن بھوپالی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان دانش وروں کے تراجم ابھی ابتدائی مراحل میں تھے کہ فرشتہئ اجل نے ان سے قلم چھین لیا۔گیبریل گارسیا مارکیز کی اہم تصانیف کے اُردو زبان میں جو تراجم شائع ہو چکے ہیں اُنھیں بہت پذیرائی ملی۔اس کے ناول ”تنہائی کے ایک سو سال“کا اُردو ترجمہ ڈاکٹر نعیم احمد کلاسرا نے کیا۔یہ ترجمہ تخلیق کی چاشنی لیے ہوئے ہے اور قاری کو مصنف کے اسلوب کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔اس ترجمے کے دیباچے میں ڈاکٹر آشو لال نے مصنف کے اسلوب اور تخلیقی عمل کے لا شعوری محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔اُس کے ناول ”Chronicle of a Death Foretold“کا اُردو ترجمہ معروف ادیب افضال احمد سید نے کیا۔یہ ترجمہ ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“کے نام سے شائع ہوا اور قارئین ِ ادب نے اس میں گہری دلچسپی لی۔پنجابی زبان کے نامور ادیب افضل احسن رندھاوا نے اسی عظیم ناول کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا جو ”پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ“کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔پنجابی زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ ترجمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس ترجمے کی اشاعت سے پنجابی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔ پنجابی زبان میں عالمی ادبیات کے تراجم کے سلسلے میں یہ ترجمہ لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے۔گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک اور مشہور تصنیف ”No One Writes to the Colonel“کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہو چُکا ہے۔یہ ترجہ جو ”کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“کے نام سے شائع ہوا ہے،ممتاز ادیب فاروق حسن کی بصیرت افروز ترجمہ نگاری کا ثمر ہے۔اردو کے جن ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف کے نا مکمل تراجم کیے ان میں زینت حسام کا نام قابلِ ذکر ہے جنھوں نے سب سے پہلے ”تنہائی کے ایک سو سال“کے ابتدائی چند ابواب اُردو کے قالب میں ڈھالے جو کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے ”آج“کی زینت بنے۔اُرد وزبان میں تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مساعی جاری ہیں۔اس سلسلے میں گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف ”Autumn of the Patriarch“ اور ”Love in the Time of Cholera“کا اُردو ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے۔
اگرچہ گیبریل گارسیا مارکیز نے اس عالمِ آب و گل سے اپنا ناتا توڑ کر عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا ہے لیکن اُس کی حسین یادوں سے دامنِ دل ہمیشہ معطر رہے گا۔ دنیائے دنی کو نقشِ فانی سمجھنا چاہیے لیکن گیبریل گارسیا مارکیز کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ حیرت اور حقیقت کو تخیل کی آمیزش سے ابد آشنا بنانے والے اس لافانی تخلیق کار کے اسلوب پر دنیا بھر میں ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ غیر مختتم ہے۔اُس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اُس کا نام اُفقِ ادب پر ِمثلِ آفتاب ضو فشاں رہے گا۔وہ ایک ایسی دُنیا کا مکین ہے جہاں فکر و خیال کے گل ہائے رنگا رنگ اپنی سدا بہارعطر بیزی سے قریہئ جاں کو معطر کرتے رہتے ہیں۔اس دنیا کی فصلِ گل کو اندیشہئ زوال نہیں۔اُس نے فکر و خیال کی انجمن آرائی ا ور خوابوں کی خیاباں سازیوں سے جو سماں باندھا ہے وہ رہتی دنیا تک قارئینِ ادب کے دلوں کو ایک ولولہئ تازہ عطا کرتا رہے گا۔اس نے طلسمی حقیقت نگاری کی جس دنیا میں اپنا مسکن بنایاہے وہ سیل ِ زماں کے تھپیڑوں سے بالکل محفوظ رہے گا۔ایک زیرک تخلیق کار اپنے ذہن و ذکاوت کے اعجاز سے طلسمی حقیقت نگاری کی جو دنیا آباد کرتا ہے وہ قارئینِ ادب کے فکر و خیال میں رچ بس جاتی ہے۔طلسمی حقیقت نگاری کی دنیا کی اقدار و روایات تہذیبی ارتقا کے مانندنسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔اسی لیے سمے کے سم سے بھی اس کی رعنائی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔گیبریل گارسیا مارکیز ناول اور افسانے کی طلسمی حقیقت نگاری کی اقلیم کا بے تاج بادشاہ تھا۔اس اقلیم میں اُس کی عظمت فکر کا ڈنکا بجتا رہے گا اور اس کے اسلوب کا سکہ چلتا رہے گا۔قارئینِ ادب اُس کی کتابوں کا مطالعہ کر کے اُس فکر و خیال کی جولانیوں،اشہب ِ قلم کی روانیوں اور بصیرت و وجدان کی بے کرانیوں میں کھو جائیں گے۔اُس کے مداح خوابوں میں بھی اُس کے ابد آشنا تصورات، روح پرور خیالات اور یادوں کے طلسمات سے دلوں کو آباد رکھیں گے۔عقیدتوں،محبتوں اور خلوص کا یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا۔فضاؤں میں ہر سو اُس کی عطر بیز یادیں پھیلی ہیں جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے اُس کی یہ مانوس آواز نہاں خانۂ دل پر دستک دیتی ہے:
مجھے لمحے نہیں صدیاں سنیں گی
مری آواز کو محفوظ رکھنا
Post Views: 200