Home تجزیہ جی۔۲۰: عالمی قیادت کے امکانات یا سیاسی تماشا-صفدر امام قادری

جی۔۲۰: عالمی قیادت کے امکانات یا سیاسی تماشا-صفدر امام قادری

by قندیل

شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پارلیمانی انتخاب کی آمد آمد کے مرحلے میں جی۔۲۰ اجلاس کا انقعاد اور حکومتِ ہند کی پورے ملک بھر میں سر گرمیوں سے ایک عجیب و غریب ماحول بن رہا ہے۔ وزیرِ اعظمِ ہند اور صاحبِ اقتدار پارٹی کے کام کرنے کا ایک خاص انداز ہے ۔ مشہور شاعر عرفان صدیقی نے کیا خوب کہا تھا:
ہوشیاری دلِ نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہت اعلان بہت کرتا ہے
پورے سرکاری اداروں کا گذشتہ کئی مہینوں سے یہ حال ہے کہ اُن کا کوئی بینر، لفافہ یا لیٹر پیڈ ایسا نہیں ہے جس پر جی۔۲۰ کا لوگو نہ لگا ہو۔ ایسے انقعادات دنیا کے ہر علاقے میں ہوتے رہتے ہیں مگر اِس طرح سے تشہیر ہندستان کے علاوہ کہیں دوسری جگہ ہوتے آپ نے نہیں دیکھی ہوگی۔اصل اجلاس سے الگ ہزاروں چھوٹے بڑے انقعادات کا واحد مقصد شاید یہی رہا ہو کہ پوری قوم حکومت کی کار کردگی سے واقف ہو جائے۔
اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ جی۔۲۰ کی قیادت اور اجلاس کا انقعاد ہندستانی حکومت اور ہندستان کی عالمی حیثیت میں ایک ٹھوس اِضافے کی طرح سے تصوّر کیا جا سکتا ہے۔ جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کے زمانے میں کئی ایسی عالمی تنظیمیں اپنا مؤثر کام کر چکی ہیں اور اُن میں ہندستان کی کارکردگی قائدانہ سطح پر سامنے آ چکی ہے۔ دولتِ مشترکہ کی تنظیم جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کے دَور میں دنیا کے طاقت ور تنظیموں میں سے ایک تھیں مگر گذشتہ تین دہائیوں سے اب اُس کی حیثیت ویسی نہیں رہی۔ ایک زمانے میں تیسری دنیا کے ممالک ہندستان کی طرف بے حد اُمّید افزا نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، مارشل ٹیٹو اور جمال عبد الناصر جیسے قائدین نے چھوٹے اور پس ماندہ ممالک کو عالمی سفارت کاری اور سیاسی دخل اندازی کے معاملات میں قائدانہ حیثیت حاصل کر لی تھی۔
اب کی بار نریندر مودی اُس جگہ پر کھڑے ہیں جہاں کبھی جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی عملی اقدام کے لیے متحرک ہوتے تھے۔ وبا کے بعد کے زمانے کی دنیا نئے نئے جیلنجز میں مبتلا ہے۔ امریکا جیسی طاقت ور حکومت کی معیشت دو راہے پر کھڑی ہوگئی۔ چین اور روس رفتہ رفتہ امریکی طاقت کو چیلینج کرکے یہ احساس کرانے میں کامیاب ہیں کہ دنیا یک قطبی نہیں رہی۔ عالمی امن کے پہلو سے ہزروں سوالات تشنۂ جواب ہیں۔ ہندستان کی معاشی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ یوکرین اور روس کی لگاتار چلنے والی جنگ اِس بات کی شاہد ہے کہ عالمی اداروں کا حقیقی رول سوالوں کے دائرے میں قید ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی بڑا سفید ہاتھی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جی۔۲۰ اجلاس اور اُس کے اثرات پر غور کرتے ہوئے اِن تمام پہلوؤں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعظمِ ہند نے جی۔۲۰ کی قیادت کو ایک جشن کی طرح برپا کیا ہے۔ نریندر مودی کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ ہر کام میں جشن کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ شور شرابا اور بھیڑ کے مظاہر سے اُنھوں نے ہر کام کے لیے جشن کا معاملہ پیدا کر دیا ہے۔ لوگوں کے حافظوں سے یہ بات ابھی محو نہیں ہوئی ہوگی کہ وزیرِ اعظمِ ہند نے کورونا کے ہر دور میں جشن در جشن کی مہم جاری رکھی۔ مرض کی تشخیص ہو جائے تو جشن، مرض کا پتا نہ چل سکے تب بھی جشن، کچھ نہیں تو تھالی پٹوا دینا بھی جشن کی ہی ایک صورت تھی۔ اُسی طرح جی۔۲۰ اجلاس کی قیادت اور انقعاد کو لے کر جو شور و شر اور ہنگامہ آرائیاں نظر آتی ہیں، اُن میں بھی نریند رمودی کا وہ خاص انداز اُبھرتا ہے۔
جواہر لعل نہرو کے زمانے میں انگلینڈ کی مہارانی ہندستان تشریف لا رہی تھیں۔ ہندی کے بڑے مشہور شاعر بابا ناگارجن نے ایک نظم میں اپنے تاثرات اِن لفظوں میں پیش کیے تھے:

آؤ رانی آؤ رانی ہم اُٹھائیں گے پالکی
یہی ہوئی رائے جواہر لعل کی
وہ طنزیہ نظم اب بھی ہزاروں کے حافظے میں محفوظ ہے اور ناگارجُن کی جو فکر مندی تھی، وہ بھی سب لوگوں تک بہ آسانہ پہنچ گئی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا جی۔۲۰ کی قیادت ہندستان میں حقیقتاًایسے سوالوں کو پھر سے قائم کر رہی ہے؟ کیا ہندستان عالمی سیاست کے کسی ایک دریچے کے لیے بھی ذمّہ دار ہے؟ کیا ہندستان کی کہی ہوئی کوئی بات دنیا کے طاقت ور ممالک غور سے سنتے ہیں اور اُس پر کوئی عمل پیرا ہوتا بھی ہے؟ کیا امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس، جاپان اور چین جیسے ملکوں سے معاملات میں ہندستان کی کوئی واضح حیثیت یا تفوق کا کوئی ایک مرحلہ بھی ثابت ہو پاتا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اِن ملکوں کے سامنے ہمارے ملک اور ہمارے ملک کے قائد کی ایک بھی نہیں چلتی ہے۔ اپنے طور پر خوش ہو لینا اور اُسے اشتہار کی شکل میں اپنے ملک میں پھیلا دینا، یہ مقامی سیاست کا ایک طریقۂ کار تو ہو سکتا ہے لیکن عالمی سیاست میں ایسے کسی معاملے کی کوئی اہمیت نہیں۔
ہندستان کے حقیقی معاملات پر ذرا ایک نگاہ ڈال لیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے چین سے ہمارے رشتے نا ہموار ہیں۔ مختلف ذرائع سے یہ بات بار بار اُٹھتی رہی ہے کہ چین ہندستان کی زمین کا ایک بڑا حصّہ اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ ایک دو مہینے کے بعد ہمیشہ شیر کی طرح دہاڑتے پائے جاتے ہیں اور ہمیشہ چین کے خلاف آگ اُگلتے ہیں اور دھمکی دیتے پائے جاتے ہیں کہ ہندستان کی دھرتی کا ایک انچ بھی اگر کسی نے لے لیا تو ہندستان بہت سخت برتاؤ کرے گا۔ دو چار مہینوں کے بعد وہ ہند چین سر حد کے بعض علاقوں کا دَورہ کرکے آ جاتے ہیں مگر نتیجہ کچھ بر آمد نہیں ہوتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ وزیرِ اعظمِ ہند نے اشاروں میں کبھی کبھار چین کو دھمکی دی ہو مگر کھُل کر چین کا نام لے کر کبھی وہ شکوہ سنج نہیں ہوتے۔ یہ حقیقی طاقت کے فقدان کا ایک مظہر ہے۔ ورنہ کوئی ملک اپنی سرحد پر پڑوسی ملک کے لوگوں کے ذریعے قبضہ کیے جانے کے معاملات کو اتنے سر سری انداز میں مصنوعی طریقے سے پیش کرکے چپ نہ بیٹھ جاتا۔ پریشانی تو یہ ہے کہ جی۔۲۰ اجلاس میں چین بہ وجوہ شریک نہیں ہو رہا ہے۔ اب عالمی مذاکرے میں اُس سے دو بہ دو گفتگو ممکن نہیں۔قرائن یہ کہتے ہیں وزیرِ اعظم چین کی غیر حاضری میں بھی اپنے حقیقی مسائل اور باہمی تنازعات کو اُٹھانے سے گریز ہی کریں گے۔
جی۔۲۰ میں روس کی ناموجودگی کے سبب روس یوکرین کی جنگ کے مسائل کے حل کی صورت شاید ہی سامنے آ سکے۔ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی ہندستان کی طرف سے جو کوشش رہی ہے، اُس میں آدھی ادھوری کامیابی ہی ہندستان کو مل پاتی ہے۔ عالمی منچ پر پاکستان کے بھی طرف دار کم نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اِس مذاکرے میں ہند۔پاک امور بھی زیرِ بحث آئیں مگر اِس سے ہندستانی سیاست کو کوئی بہت بڑی طاقت نصیب ہو جائے گی، یہ کہنا مشکل ہے۔
ہندستانی سیاست گھریلو سطح پر دو راہے پر کھڑی ہے۔ فرقہ واریت کی اتنی شکلیں اُبھر کر سامنے آئی ہیں کہ دانش مند طبقہ، عقلیت آبادی اور نا بستہ افراد عدم اطمینان کا شکار ہے۔بڑے صنعت کاروں کے ہاتھ میں رفتہ رفتہ ملک گروی رکھا جا چکا ہے۔ معیشت کے معاملے میں عام آدمی ہزاروں الجھنوں میں مبتلا ہے۔ وبا کے بعد کی مندی سب سے بھاری چوٹ ہے۔ ہندستانی حکومت نے دکھاوے کے کام اور شور شرابے سے تو اپنی مرکزیت ثابت کر رکھی ہے مگر آنے والے وقت میں قومی انتخابات میں اُسے پھر سے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے، یہ لازمی طور پر ٹیڑھی کھیر ہے۔ ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کا مادّہ وزیرِ اعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں بہت کم ہے۔ منی پور جیسے چھوٹے صوبے کو جس طرح تشدد کے دہانے پر چھوڑ دیا گیا ہے، یہ الگ طرح کی ناکامی اور حکومت کی مشنری کا ہر سطح پر ناکام ہونا ہے۔
ایسے میں نریندر مودی کے پاس واحد یہ راستہ تھا کہ وہ اِس عالمی اجتماع کو اتنے بڑے اہتمام اور جشن میں بدل دیں جس سے داخلی اور قومی مسائل پسِ پشت ہو جائیں اور دکھاوے کی چیزیں عالمی ٹیگ اور تماشا گیری سامنے آ جائیں مگر جی۔۲۰ کے غبار اور شور شرابے کے بعد وزیرِ اعظم کو پھر اُنھی سوالوں سے مقابلہ کرنا ہے جو ابھی وقتی طور سے اُنھوں نے پسِ پشت ڈال دیے ہیں۔اُمّید ہے کہ بہت جلد جی۔۲۰ کی دھما چوکری کے بعد حکومتِ ہند کو ملک کے حقیقی مسئلوں اور عوامی سوالات سے آنکھیں ملانا ہی پڑے گا کیوں کہ اِس کے بغیر ۲۰۲۴ء کا انتخاب جیتنا آسان نہیں ہوگا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like