مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے پانچویں فقہی سیمینار (20-22 اکتوبر 2023) میں شرکت میرے لیے بڑی سعادت اور شرف کی بات ہے – ذمے داروں نے مزید کرم یہ کیا کہ افتتاحی اجلاس میں جن علماء کرام کو اپنے تاثرات پیش کرنے کی دعوت دی ان میں میرا نام بھی شامل کیا – پھر کرم پر کرم یہ کیا کہ ایک اجلاس میں مجھے مہمانِ خصوصی بنایا اور کچھ اظہارِ خیال کرنے کا موقع دیا – اس موقع پر میں نے جو مختصر خطاب کیا تھا اس کے نکات درج ذیل ہیں :
(1) ندوہ میرا گھر ہے – یہاں میرا بچپن گزرا ہے – کوئی اپنے گھر آئے تو وہ مہمان نہیں ہوتا – جیسے کوئی شخص اپنے گھر آئے ، چاہے چند گھنٹوں کے لیے ، یا کئی دنوں کے لیے ، اسے پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے ، قصر کی اسے اجازت نہیں ہوتی – اسی طرح میں ندوہ آؤں تو یہاں کسی صورت میں ‘مہمانِ خصوصی’ نہیں بن سکتا –
(2) اب جب میرے ‘مہمان’ ہونے کا اعلان کر ہی دیا گیا ہے تو میں اس کا کچھ فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں – وہ یہ کہ میں جو باتیں عرض کروں انہیں گوارا کریں ، چاہے ان سے آپ کو اتفاق نہ ہو ، جیسے مہمان کی عزّت افزائی میں اس کی بعض ہلکی اور سطحی باتیں گوارا کرلی جاتی ہیں –
(3) فقہاء کو نئے مسائل کے حل میں ‘تیسیر’ کو ملحوظ رکھنا چاہیے – اگر کسی مسئلے کے متعدد پہلو ہوں تو اس پہلو کو اختیار کرنا چاہیے جس میں عوام کو آسانی ہو – اسے نفس پرستی کہنا درست نہیں – اب دین پر عمل بہت مشکل ہوگیا ہے – بے دینی عام ہے – ایسے ماحول میں بھی اگر کچھ مسلمان دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مسائل کو دین کی روشنی میں حل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے احکامِ شریعت کو اس طرح نہ پیش کیا جائے کہ انہیں شریعت پر عمل دشوار معلوم ہونے لگے – امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے : ” فقہ یہ نہیں ہے کہ تم چیزوں کو حرام قرار دو – یہ کام تو ہر شخص کرسکتا ہے – فقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے گنجائش پیدا کرو – “
(4) موجودہ دور کے فقہاء میں علامہ یوسف القرضاوی کو عالمی شہرت حاصل ہے – ندوہ میں اپنی طالب علمی کے دور میں ان سے میں نے بارہا استفادہ کیا ہے – وہ ندوہ آتے تو کئی روز قیام کرتے اور قرآن ، حدیث اور فقہ پر ان کے توسیعی لیکچر ہوتے تھے – قرضاوی صاحب ‘تیسیر’ پر بہت زور دیتے تھے – وہ کہا کرتے تھے : ” بعض لوگوں نے اپنی کوتاہ فہمی سے فقہ کو ‘الاحوطیات’ ( احتیاط پر مبنی فیصلوں) کا مجموعہ بنادیا ہے –
(5) فقہاء چاہے موجودہ دور کے ہوں یا سابقہ زمانوں کے ، لازم ہے کہ ان کا اور ان کی آرا کا احترام کیا جائے ، ان کے بارے میں بدکلامی نہ کی جائے ، انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے ، لیکن احترام کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی آرا کو جوں کا توں تسلیم کرلیا جائے ، ان کا تجزیہ نہ کیا جائے اور اگر ان میں کچھ کم زوری اور کمی ہو تو بھی ان پر تنقید نہ کی جائے – اگر اختلاف کرنے کا مطلب بے احترامی ہوتا تو تابعینِ عظام کسی مسئلے میں کبھی صحابۂ کرام سے اختلاف نہ کرتے –
(6) منصوص اور غیر منصوص میں فرق ہے – کوئی حکم منصوص ہے (قرآن و سنت میں اس کا حکم صراحت سے آیا ہے) تو اس میں حکمت ، مصلحت اور علّت کو نہیں دیکھا جائے گا اور اس حکم کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جائے گی – البتہ غیر منصوص معاملات میں غور و تدبّر کیا جائے گا اور حالات و زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ اگر ضرورت ہو تو ان میں تبدیلی کی جاسکے گی –
(7) یہ سوچ درست نہیں ہے کہ کسی معاملے میں اب تک جو فتاویٰ دیے جاچکے ہیں ، آئندہ ان سے ہٹ کر کوئی نئی رائے نہ اختیار نہ کی جائے – بلکہ فقہاء کرام کی ذمے داری ہے کہ اپنے زمانے کے حالات کا گہرا تجزیہ کرکے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے عوام کی رہ نمائی کریں – فتویٰ مفتی کی رائے ہوتی ہے – ایک مفتی کی رائے دوسرے مفتی کی رائے سے مختلف ہوسکتی ہے – اس لیے اگر کوئی اجتماعی رائے سابقہ فتاویٰ سے مختلف ہو تو اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے –