یہ خبر انتہائی حوصلہ بخش اور جرات آموز ہے کہ مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کی نفرت انگیز مہم کے دوران سکھ اور ہندو بھائیوں نے تقریباً دو سو مساجد کو واگزار اور ان کے احیاءاور مزید نئی مساجد کی تعمیر کرکے مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور مذہبی دشمنی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی، بھائی چارے اور دوستی کی نئی عبارت لکھ دی۔ دوستی کی یہ نئی عبارت ریاست پنجاب میں لکھی گئی اور یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔
ہندوستان ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک ہے۔ یہاں کے باشندے آپسی پیار محبت کی ڈور میں پہلے بھی بندھے ہوئے تھے اور آج بھی بندھے ہوئے ہیں۔ گوکہ کچھ شرپسند عناصر دوستی کے اس رشتے کو توڑنا اور ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت و کدورت پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن جب بھی اس قسم کی قابل مذمت کوششیں ہوئیں تو عوام کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنے اقدامات سے یہ ثابت کر دیا کہ محبت کی شمع کو گل کرنے کے لیے چاہے کتنی ہی تیز آندھی کیوں نہ آئے یہ شمع بجھی ہے نہ بجھے گی۔ اس وقت پورے ملک میں مسجدوں، مدرسوں، درگاہوں، مزاروں اور قبرستانوں کے خلاف منافرت انگیز مہم جاری ہے۔ لیکن دوسری طرف اس مہم کو ناکام بنانے والے بھی موجود ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان شرپسند عناصر کو شاید یہ نہیں معلوم کہ یہ اقدامات ملک کی ترقی کے پہیے کو پیچھے کی طرف دھکیلتے ہیں آگے کی طرف نہیں۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔
ریاست پنجاب کے ہندو اور سکھ بھائیوں نے اس حقیقت کو پہچانا ہے اور انھوں نے باہمی پیار محبت کی ایک ایسی نئی فضا پیدا کر دی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ پنجاب آزادی سے قبل مسلم اکثریتی صوبہ تھا۔ لیکن تقسیم کی ہولناکیوں نے اس صوبے کو بھی تقسیم کیا اور ہندوستان کی سرحد کے اندر آنے والے حصے کے تقریباً تمام مسلمان سرحد پار کرکے پاکستان چلے گئے۔ بٹوارے نے بالخصوص سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان قتل و خوں ریزی کی ایسی داستان لکھ دی جس سے ایک عرصے تک لہو ٹپکتا رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو تہہ تیغ کرنے اور ان کی خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ایک دوسرے کے خون میں نہا گئے لیکن ان کی خونی پیاس نہیں بجھی۔
لیکن کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا حکیم ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایسا مرہم ہے جو تمام زخموں کے منہ بند کرکے پیار محبت کے پھول کھلا دیتا ہے۔ لہٰذا وقت نے مسلمانوں اور سکھوں کی دشمنی کی دھار کو رفتہ رفتہ کند کیا اور پھر اس کی جگہ پر فرقہ وارانہ یگانگت اور میل جول نے اپنی جگہ بنانی شروع کر دی۔ جب تقسیم ملک کے وقت ہندوستانی پنجاب سے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان منتقل ہو گئی تو وہاں کی مسجدیں اور مذہبی مقامات ویران ہو گئے۔ ان پر لوگوں نے قبضہ کر لیا اور وہاں رہائش اختیار کرلی۔ لیکن رفتہ رفتہ دوسری ریاستوں سے مسلم مزدوروں کی پنجاب میں آمد ہونے لگی۔ ان مسلمانوں نے پنجاب کی دھرتی پر پھر وحدہ لا شریک کی کبریائی اور بڑائی کا گن گان شروع کر دیا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے مساجد کی کمی ہے تو بہت سے مسلمان کھلے میں یا کسی درخت کے سائے میں نماز پڑھنے لگے۔ یہ دیکھ کر وہاں کے سکھ اور ہندو بھائیوں کو ان پر بڑا ترس آیا اور انھوں نے نہ صرف اپنی عبادت گاہوں کے دروازے نمازیوں کے لیے کھول دیے بلکہ آگے بڑھ کر مسجدوں کو واگزار کرانے اور اپنی زمینیں وقف کرکے ان پر مسجدوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔
روہنی سنگھ انگریزی، ہندی، اردو اور پنجابی کی ایک سینئر صحافی ہیں۔ انگریزی اخبار ”دی فرائڈے ٹائمز“میں اس حوالے سے ان کا ایک خوبصورت کالم شائع ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ فرقہ وارانہ منافرت میں روزافزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے پنجاب مذہبی اتحاد و ہم آہنگی کا ایک جزیرہ بن کر ابھرا ہے۔ اس وقت جبکہ مسجدوں کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں پنجاب میں متوازی طور پر ایک دوسری کہانی لکھی جا رہی ہے۔ وہاں ہندووں اور سکھوں نے نہ صرف یہ کہ 1947 میں غیر آباد ہو جانے والی مسجدوں کی بازیابی اور بحالی کی ہے بلکہ ان مواضعات میں جہاں مسلمانوں کی کوئی عبادت گاہ نہیں تھی، مسجدوں اور قبرستانوں کے لیے اپنی زمینیں وقف کر دی ہیں۔ روہنی سنگھ کے مطابق ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے مسلمانوں کے لیے مقامی افراد اور پنچایتوں کی جانب سے بازیاب، بحال اور تعمیر کی جانے والی ایسی مسجدوں کی تعداد دو سو تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن وقف ترمیمی قانون میں شامل اس شق نے کہ کوئی غیر مسلم اور یہاں تک کہ کوئی غیر عامل مسلمان بھی اپنی جائداد وقف نہیں کر سکتا، سیکولرزم کے اس انوکھے پنجابی ماڈل کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ روہنی سنگھ نے چند سال قبل ضلع فتح گڑھ صاحب کے پنجولی گاوں کا دورہ کیا تھا۔ وہاں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ گرو گوبند سنگھ کے جوان فرزندوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب اسی ضلع میں مقامی سکھ بھائی اپنے گوردواروں میں مسجدوں کی تعمیر کر رہے ہیں۔ وہاں بیشتر مسلمان ہماچل پردیش اور بہار کے مزدور ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔
مذکورہ گاوں کے ایک بزرگ نے روہنی سنگھ کو بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ مسلمان کھیتوں میں سایہ دار جگہوں پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پر گوردواروں نے ان کو اپنے احاطے میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ پھر برادری نے فیصلہ کیا کہ گوردوارے کے اندر ہی زمین کا ایک ٹکڑا مسجد کی تعمیر کے لیے دے دیا جائے۔ قابل ذکر ہے کہ جب گوڑگاو¿ں میں پارکوں میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روکا گیا تھا تو کئی گوردواروں نے نمازیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔ یاد رہے کہ فتح گڑھ صاحب مغلوں اور سکھوں کے درمیان تنازعات اور تقسیم کے تشدد کا تاریخی گواہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج ایک گوردوارہ اور ایک روضہ شریف محض دو سو میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ وہاں کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کے مذہبی مقام کی زیارت کی پوری آزادی ہے جو کہ باہمی احترام کا ثبوت ہے۔
روہنی سنگھ لکھتی ہیں کہ آج پنجاب کے غیر مسلم افراد مسجدوں کو زمینیں دینے اور ان کی تعمیر کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مقامی آبادی کی طرف سے انھیں اپنی عبادتوں کے لیے سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ لیکن اب وقف ترمیمی قانون اس معاملے میں ایک بڑے رخنے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کے باوجود جس روز پارلیمنٹ سے مذکورہ بل کو منظوری ملی اسی روز سے ریاست میں مذہبی ہم آہنگی کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں اور سکھوں نے متحد ہو کر اس قانون کے خلاف احتجاج کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی ادارے ”شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی“ کی جانب سے مسلمانوں کی پرزور حمایت کی جا رہی ہے۔ کمیٹی کے صدر ہرجندر سنگھ نے اس قانون کی شدید مخالفت کی ہے۔ اگر چہ حکومت کی جانب سے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ قانون وقف املاک کو منضبط کرنے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون سیکولر نظریے پر حملہ ہے۔ چنڈی گڑھ کے پولیٹیکل سائنس کے ایک ریٹائرڈ استاد پروفیسر گورمیل سنگھ کے مطابق بٹوارے کے وقت ہونے والے خون خرابے نے پنجاب کو ایک سخت سبق دیا ہے۔ اب ہم ماضی کی اس غلطی کا اعادہ نہیں کریں گے۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ اگر چہ مذکورہ قانون نے غیر مسلموں کو مسجدوں، درگاہوں، قبرستانوں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے جائداد وقف کرنے پر پابندی لگا دی ہے لیکن بہت سے پنجابیوں نے اس کا متبادل راستہ تلاش کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جس جائداد کو مسلمانوں کے لیے وقف کرنا چاہیں گے وہ پہلے کسی انفرادی مسلمان کے نام اس کے مالکانہ حقوق منتقل کر دیں گے اور پھر وہ شخص اس جائداد کو وقف کر دے گا۔ مالیرکوٹلہ ضلع کے عمر پورا گاوں کے سابق مکھیہ سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائیوں نے اس سال کے شروع میں ساڑھے پانچ ہیکٹیئر زرعی زمین مسجد کے لیے وقف کر دی۔ ان کے مطابق اس گاؤں میں تیس فیصد مسلمان ہیں اور ایک بھی مسجد نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد کا انتظام کریں۔ اسی طرح جیتوال کلاں میں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے مقامی سکھ بھائیوں نے 90 فیصد فنڈ دیا ہے۔ ایک مقامی مسلمان نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پہلے ہمیں زمین دی اور پھر مسجد بنانے کے لیے پیسہ بھی دیا۔ ادارہ تعمیر مساجد کے شہزاد احمد ظہور کے مطابق پورے پنجاب میں دو سو مقامات پر سکھوں اور ہندو بھائیوں نے اس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً100 نئی مسجدیں تعمیر ہوئی ہیں۔
گویا پنجاب کے سکھ اور ہندو برادران نے وقف ترمیمی قانون کی منشا کو اپنی ریاست میں شکست دے دی ہے۔ انھوں نے مسجدوں اور قبرستانوں کی تعمیر کے لیے فراخ دلی کے ساتھ زمینیں اور پیسے دے کر پورے ملک کے سامنے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے بھائیوں کا نہ صرف شکریہ ادا کریں بلکہ اس احسان کے بدلے میں اس سے بہتر انداز میں اقدامات کرکے فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی اور میل ملاپ کی روایت کو مزید مضبوط بنائیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)