مسعود جاوید
فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ صدیوں سے ہوتے آۓ ہیں اور شاید ہوتے رہیں گے بس وقت کے ساتھ ساتھ ان فسادات کی نوعیت اور غرض و غایت بدلتی رہتی ہے۔
ماقبل آزادی کی نوعیت اتنی سنگین تھی کہ ملک کو دو حصوں میں منقسم کردیا اور بہت سارے مسلمان مملکت خداداد پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے یا پاکستان کو ہندوستان پر ترجیح دیتے ہوئے کوچ کر گئے۔
مابعد آزادی ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں ناکردہ گناہ کے احساس جرم کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔ چونکہ ماقبل آزادی کی نفرتوں کے اثرات دونوں فرقوں کے ذہنوں میں باقی رہ گئے تھے اس لیے وقتاً فوقتاً چھوٹی چھوٹی باتوں پر تصادم ہوتے رہتے تھے اور اسے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد کا رنگ دے دیا جاتا تھا۔
١- فسادات ہو جاتے ہیں :
اس کی نوعیت دو بھائیوں کے درمیان جھگڑے کی ہوتی ہے جس میں وقتی طور پر تلخی اور بدمزگی ہوتی ہے اور ظاہر ہے وجہ فساد معمولی اور ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے اس لئے بعض غیر سماجی عناصر کی طرف سے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کے باوجود’ جلد ہی غم و غصہ زائل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مسلم کی دکان کے سامنے کسی غیر مسلم نے گاڑی لگا دی یا کسی غیر مسلم دکاندار کے ساتھ کوئی مسلمان سامان واپس کرنے کو لے کر الجھ گیا یہ دونوں معاملات ذاتی نوعیت کے ہیں لیکن دونوں نے اپنے ذاتی مسئلے کو دو فرقے کا مسئلہ بنا کر فائدہ اٹھانا چاہا اور ” خواہ مخواہ” لوگوں نے حمایت کی کہ چونکہ وہ غیر مسلم ہے اس لئے مسلم دکاندار نے گاڑی لگانے سے روکا یا چونکہ سامان واپس کرنے والا مسلم ہے اس لئے غیر مسلم دکاندار نے واپس لینے سے انکارکردیا۔ ” خواہ مخواہی ہندو ” اور "خواہ مخواہی مسلمان” جمع ہو گئے اور بات دونوں فرقوں کے مابین مار پیٹ میں تبدیل ہوگئی شہر کی دکانیں بند ہو گئیں یا کر دی گئیں۔ جگہ جگہ پتھراؤ ہونے لگے۔ اس طرح کے فسادات میں مدت تصادم بمشکل گھنٹہ بھر ہوتا ہے ، معمولی جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
٢- فسادات ہونے دیۓ جاتے ہیں
یہ فسادات کی وہ قسم ہے جس میں ذاتی یا کسی معمولی مقامی جھگڑے کو دو فرقہ پرست گروہ مافیا یا سیاسی چھوٹ بھیۓ اپنا حساب چکانے کے لئے یا سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور چونکہ ان ” نیتاؤں یا دبنگوں کے "گہرے تعلقات” پولیس افسران سے ہوتے ہیں اس لئے ان کے اشارے پر پولیس فساد کنندگان کے خلاف فوری کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ انتظامیہ ڈپٹی کمشنر/ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی مجرمانہ سرد مہری پولیس کو بروقت مناسب کارروائی نہ کرنے کی غیر تحریری اجازت دیتی ہے۔۔ کانگریس دور حکومت میں زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات میں انتظامیہ اور پولیس کا رویہ اسی نوعیت کا ہوتا تھا اس کا بنیادی غرض و غایت اقلیتوں کا قتل کرانا نہیں ہوتا تھا بس وقتاً فوقتاً اقلیتوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہوتا تھا کہ جن سنگھ/آر ایس ایس تم اقلیتوں کا ازلی دشمن ہے وہی ان فسادات کے پیچھے ہے اور اس دشمن سے تم اقلیتوں کی حفاظت صرف اور صرف کانگریس کر سکتی ہے۔ اقلیتی طبقے بالخصوص مسلمانان ہند کی اول و آخر ترجیح جان و مال کی سلامتی سیکورٹی ہے اس لئے کانگریس کے دامن امان میں پناہ لیتے رہے یا کانگریس کے ہاتھوں استحصال ہوتےرہے۔ مگر وقفہ وقفہ سے کانگریسی سیاست کے فسادات کی شکل میں یاد دہانی کے انجکشن لگائے جاتے رہے تا آنکہ ١٩٧٧ ایمرجنسی ہندوستان کا سیاہ باب وغیرہ کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں نئی تبدیلی نمودار ہوئی جو گرچہ بہت پائیدار ثابت نہیں ہوئی پھر بھی کانگریس بنام جن سنگھ کا خاتمہ ہوا اور جنتا دل پھر اس کا شیرازہ بکھرا اور لالو پرساد یادو مسلم یادو اشتراک کے نتیجے میں ایک مضبوط لیڈر کی حیثیت سے بہار میں اقتدار میں آۓ۔ انہوں نے مسلمانوں کے مزاج کو سمجھا اور ان کی اول و آخر ترجیح سیکورٹی کو یقینی بنانے اور فرقہ وارانہ فسادات پر ذرہ برابر چشم پوشی کو برداشت نہیں کرنے کا عہد کیا اور علی الاعلان فسادات کی بابت پولیس کپتان کی جوابدہی طے کر دی کہ اگر کسی ضلع میں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو فوراً وہاں کے ایس پی کو معطل یا برخواست کیا جاۓگا۔ لوہردگا شہر میں فساد ہوا پولیس کپتان فساد کو قابو کرنے میں تساہلی برتی۔ وزیر اعلی لالو پرساد بنفس نفیس ایک ایس پی کے ساتھ ہیلی کاپٹر سے لوہردگا پہنچے اور اسی وقت پہلے سے موجود ایس پی کی سرزنش کی اور نۓ ایس پی کو چارج دلایا۔ ۔۔۔۔ اس واقعے نے بہار کے ہر پولیس کو ایسا میسیج دیا کہ ان کے دور اقتدار شاذونادر ہی کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوا ہو۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت نہیں چاہے گی تو فسادات نہیں ہوں گے۔ اگر ہوں گے تو بمشکل آدھے گھنٹے میں اس پر قابو پا لیا جائے گا۔
بدقسمتی سے سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں مسلمانوں کا ایک دیرینہ مطالبہ ، ٹارگیٹڈ فرقہ وارانہ فساد کے خلاف ایکٹ، ٢٠٠٨ سے کانگریس کے سامنے رہا مگر اس کا بل کانگریس نے ٢٠١٤ تک پیش کرنے سے کتراتی رہی۔
٣- فسادات کراۓ جاتے ہیں
فرقہ وارانہ فسادات منظم طور پر کرانے کی جو روش موجودہ دور میں عام ہوئی ہے وہ بہت خوفناک ہے اس لئے نہیں کہ اس سے جان و مال کا کافی نقصان ہوتا ہے بلکہ اس لئے ہیبت ناک ہے کہ اس قسم کے فسادات میں مذہبی جنونیت اور مخصوص نظریات کے حامل عناصر اور تنظیموں کے لوگ مذہبی نعرے اور علم بلند کر کے ہندووتوا بنام مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پچھلے چند سالوں میں مذہبی تشدد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ جو غیر مسلم فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتے ہیں ان کی آواز کو میڈیا میں کوئی اسپیس نہیں ملتی یا انتہا پسند لوگ ان کو ٹرول کرنے لگتے ہیں۔
احوال دہلی : چند روز قبل شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوۓ ہونے دیۓ گۓ یا کرواۓ گۓ اس سے قطع نظر یہ فسادات کی وہ قسم تھی جس میں مذہبی منافرت کارفرما تھی۔ اور فسادات پر قابو پانے کے معمول کے مطابق طریقہ کار کا اختیار نہیں کرنے کی وجہ سے دہلی حکومت اور دہلی پولیس سوالات کے گھیرے میں ہے۔ اس لئے کہ مانا کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت کے تحت دہلی پولیس نہیں ہے لیکن دہلی کی سڑکیں تو کیجریوال صاحب کی پہنچ میں ہیں۔ دونوں فرقوں میں ان کی پارٹی کے افراد ان علاقوں میں کثیر تعداد میں ہیں ان کو لے کر اسی روز امن مارچ کر سکتے تھے۔ وزیر داخلہ اور لیفٹینٹ گورنر کے دفاتر کے سامنے اسی شام دھرنا دے کر نیم فوجی دستے بھیجنے پر اصرار کر سکتے تھے۔ ان علاقوں میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر اور ایم ایل اے کو متحرک کر سکتے تھے۔ ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں وزارت داخلہ کی ناک کے نیچے تین دنوں تک شمالی مشرقی دہلی جلتی رہی اور بی جے پی کے منسٹر ایم پی ایم ایل اے نے متاثرہ علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا امن قائم کرنے کی اپیل کرنے سے بھی گریز کیا سواے ایم پی گوتم گمبھیر کے ! بلا تفریق مذہب و برادری مارے گئے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور فسادیوں کی مذمت سیاسی جماعتوں بالخصوص عوام کے منتخب نمائندوں کا اخلاقی فرض ہے اس سے گریز کا کیا کوئی جواز ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)