شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
سی اے اے کے خلاف کامیاب عوامی تحریک نے ’ یرقانیوں‘ کے ہو ش اڑادیئے ہیں ۔
اور اب کوشش یہ ہورہی ہے کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف جاری تحریک کو ’کمزور‘ کرنے کے لئے ’ میر جعفروں ‘ اور ’ میر صادقوں‘ کو استعمال کیا جائے ۔ اور اس میں تو کوئی شک وشبہہ ہے ہی نہیں کہ مسلمانوں میں ان ’ منافقوں‘ کی کوئی کمی نہیں ہے جنہیں ’ میر جعفر‘ اور ’میر صادق‘ کہا جاسکتا ہے ۔۔۔ ایسے ہی چند ’ منافقین‘ کے چہرے ۱۶؍ جنوری کے روز دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں نظر آئے ، باریش، صافوں اور پگڑیوں سے سرڈھکے ہوئے اور کرتا پائجاموں میں ملبوس۔ یہ سارے کے سارے ’ مسلم راشٹریہ منچ‘ کے اسٹیج پر ، جو کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ’طفیلی تنظیم‘ ہے ، منچ کے صدر ، سینئر سنگھی لیڈر اندریش کمار کے ساتھ براجمان تھے اور سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں سنگھی ٹولے کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں یہ نہیں پتہ کہ جس سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی وہ حمایت کررہے ہیں اسے مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہے ۔ وہ یہ خوب جانتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ’ ضمیر‘ کو بیچ دیا ہے ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہوگا کہ یہ جس ’ خمیر‘ سے بنے ہوئے ہیں اس کی فطرت ہی میں ’ بے ضمیری‘ شامل ہے ۔ انہیں صرف اپنا عیش عزیز ہے ، نہ ملک ان کے لئے عزیز ہے ، نہ ہی سنگھ اور نہ ہی قوم ، انہیں سب سے زیادہ عزیز اپنا پیٹ ہے اور یہ پیٹ کے لئے ملک اور قوم کیا اپنا ایمان بھی بیچ سکتے ہیں ، بلکہ ایمان بیچ چکے ہیں ۔
کانسٹی ٹیوشن کلب میں اندریش کمار کو قطعی یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ان کی اور ان کے ساتھی ’منافقین ‘ کی کوئی مخالفت بھی کرسکے گا ، پر چند جیالے تھے ، چند ’باضمیر‘ افراد ، قوم اور ملک سے محبت رکھنے والے لوگ ، علمائے حق اور برادرانِ وطن جنہوں نے اندریش کمار کے سامنے ہی سی اے اے، این آرسی اور این پی آر مردہ باد کے نعرے شروع کردیئے ۔ ان کے ہاتھوں میں مردہ باد کے پلے کارڈ تھے ۔ ایسے میں ’ منافقوں‘ نے وہی کیا جو ان کے ’آقا‘ چاہتے تھے وہ ’ حق پرستوں‘ پر پل پڑے مگر ’ مردہ باد‘ کے نعرے رکے نہیں ! انہیں ہم سب کا سلام ہے ۔
سی اے اے کے خلاف جو تحریک چھڑی ہوئی ہے اس نے بہت سارے چہروں کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ تحریک طلباء کی تحریک ہے ، یہ تحریک خواتین کی تحریک ہے ، یہ تحریک ملک کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے پر یقین رکھنے والے بردارانِ وطن کی تحریک ہے اور یہ تحریک چندر شیکھر آزاد جیسے دلتوں کی تحریک ہے ۔۔۔ افسوس کہ اس تحریک کے ساتھ جنہیں چلنا تھا ، وہ جنہیں مسلمان اپنا مذہبی، سیاسی او رملی قائد سمجھتے تھے، وہ یا تو اس تحریک سے غائب ہیں ، یا اس تحریک کو کمزور کرنے کے لئے کوشاں ہیں یا اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی سعی کررہے ہیں ۔
ان سب سے بچنا ہوگا ۔۔۔ جن سے بچنا ہے ان میں ’ باریش یرقانی مسلمان‘ بھی شامل ہیں جن کی باگ ڈور اندریش کمار کے ہاتھ میں ہے اور جنہوں نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کو اپنا مندر بنالیا ہے ۔۔۔
یہ ’ مسلم راشٹریہ منچ‘ کیا ہے ؟
یہ اندریش کمار کون ہیں؟
ان دونوں سوالوں کے جواب پہلے بھی دیئے جاچکے ہیں لیکن اب پھر سے ان سوالوں کے جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ’مسلمانوں کی فلاح‘ کے نام پر کام کرنے والی اس تنظیم، اس کے سربراہ اوراس میں شامل ’ باریش منافقین‘ کی حقیقت پھر اجاگر ہوسکے ۔
آر ایس ایس کے منصوبے کبھی پردے میں نہیں تھے۔ سب کچھ عیاں تھا، جیسے کہ مرکزی وزیر اوما بھارتی نے بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کہا تھا کہ ’’ہم نے جو کچھ کیا وہ کھلے عام کیا‘‘ ۔مگر وہ مسلمان کیسے اندھے او ربہرے ہیں، جو آر ایس ایس او ربی جے پی کا دامن تھامے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے مودی کی بات سننا ہی بہتر ہے۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر پر مودی جو کہہ رہے ہیں اسے ہی وہ عین سچ مان رہے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے طلاق ثلاثہ کے معاملے میں مودی اور یوگی کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ لائوڈ اسپیکروں سے اذان کی بات ہوتی ہے تو یہ اذانیںبند کروانے کے لیے ’یرقانیوں‘ سے بھی دو ہاتھ آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ اگر ان کے بس میں ہو تاتو سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی یہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپ دیتے ۔ انہیں وہ ’زہریلی باتیں‘جو سنگھی لیڈروں کی زبانوں سے نکلتی ہیں سنائی تک نہیں دیتیں۔ یہ بہرے ہیں۔ انہیں وہ سب کچھ جو یرقانی تنظیمیں ’ہندو توا‘ کے نفاذ کے لیے کررہی ہیں نظر تک نہیں آتا۔ یہ اندھے ہوگئے ہیں۔ یہ اندھے اور بہرے سنگھی بھاجپائی مسلمان مختلف نام کی تنظیمیں بنا کر سرگرم ہیں۔ ’ مسلم راشٹریہ منچ ‘ ایسی ہی ایک تنظیم ہے ۔ یہ تنظیم ایسے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر جو ’ننگ ملت، ننگ دین، ننگ وطن‘ کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں اس ملک سے جمہوریت اور سیکولر ازم کے خاتمے اور ’ہندو راشٹر‘ کے قیام کی تحریک چلائے ہوئے ہے، ان سب کے سرپر آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔
’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے سربراہ ا ندریش کمار ہیں، اندریش کمار کا تعارف کیسے کرایا جائے!انہیں آر ایس ایس کا’پرچارک‘کہا جائے یا اجمیر شریف اور’سمجھوتہ ایکسپریس‘کے بم دھماکوں کے ایک ایسے ملزم کے طور پر پیش کیا جائے جس پر قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے)اچانک یوں مہربان ہوئی کہ ہر طرح کی’دہشت گردی ‘کے الزام سے کلین چٹ دے دی۔یاکہ پھر انہیں مفتی ‘مولوی یا علامہ قرار دیاجائے کہ یہ آج اپنے ہم جلیس مسلمانوں کو’ شرعی مسائل‘سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور ’قرآن اوراحادیث کی تشریح اورتفسیر ‘بھی۔ آج یہ انہیں جو سی اے اے کے خلاف ہیں ’شیطان پرست‘ اور جو حامی مسلمان ہیں انہیں ’ امن پرست‘ کہہ رہے ہیں ۔ آیئے ’راشٹریہ مسلم منچ ‘کی تاریخ پر ایک نظرڈال لی جائے۔
بات ۲۴؍دسمبر۲۰۰۴ء کی ہے جب ا سوقت کے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک یعنی سربراہ کے ایس سدرشن کی ایماء پر دہلی میں’عید ملن‘کی ایک تقریب کا اہتمام کیاگیاتھا‘اس تقریب کے انعقاد میں ہندی کے ایک صحافی سیدمظفرحسین اوران کی اہلیہ نفیسہ مظفرحسین نے بڑھ چڑھ کر محنت کی تھی۔یہ بتادیں کہ یہ دونوں بوہرہ سماج کے ہیں اورآرایس ایس سے جڑے رہے ہیں۔مظفر حسین کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوچکا ہے ۔اس تقریب میں سدرشن کے ساتھ آرایس ایس کے نظریہ ساز ایم جی ویدیہ،مدن داس اوراندریش کمار بھی شریک تھے۔مسلمانوں کی کئی اہم سماجی اورمذہبی شخصیات جیسے کہ کل ہند امام کونسل کے صدرمولانا جمیل الیاسی،مولانا وحید الدین خان اورفتحپوری مسجدکے شاہی امام مفتی مکرم بھی اس تقریب میں آئے تھے……اور’صوفی مسلمان‘ بھی تھے۔
بتاتے چلیں کہ سدرشن کے دل میں ان دنوں منجاب اللہ مسلمانوں کے تئیں نرمی اورہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔خبرتویہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی طرح نمازپڑھناشروع کردیاتھا۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے۔واللہ اعلم۔بہرحال سدرشن نے اس موقع پر یہ کہاتھا کہ لوگوں نے ’’اسلام کے انتہا پسندانہ روئیے کو دیکھا ہے اس کے اس چہرے کو نہیں جو امن وامان اورسلامتی کی عملی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘اس طرح’مسلم راشٹریہ منچ‘کی بنیادپڑی تھی۔مقصد یہ تھا کہ ’مسلمانوں اورآر ایس ایس کے درمیان ایسی قربت پیدا کی جائے کہ میل ملاپ ہر طرح کی غلط فہمیوں کو دورکردےاورلوگ اسلامی اخلاق سے واقف ہو سکیں۔‘مگرآج ہو یہ رہاہے کہ’مسلم راشٹریہ منچ‘کا استعمال غلط فہمیوں کو دورکرنے کے لیے نہیں سنگھی نظریات کومسلمانوں پر تھوپنے کے لیے کیا جارہا ہے۔یہ کام ’مسلم راشٹریہ منچ‘کو شاید مشکل اس لیے نہیں لگ رہاہےکہ اس کےپاس’میر جعفروں اورمیرصادقوں ‘کی ایک پوری ٹولی ہے۔وہ ’قوم پرست مسلمانوں‘کواپنے دامن میں پناہ دئیے ہوئے ہے اوراس کی نظرمیں ’قوم پرست مسلمان‘وہی ہے جو اس ملک میں ’ہندوراشٹر‘کے قیام کے لیے سنگھ پریوار کی جدوجہد کو سراہے یا اس کام میں اس کے ساتھ کھڑا ہو جیسے کہ وہ جو سی اے اے کی حمایت کررہے ہیں ۔ اوراب توملک میں بی جے پی کی حکومت ہے‘کئی ریاستوں میں اس کی سرکاریں ہیں اس لیے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کو یہ لگ رہاہے کہ وہ ’میر جعفروں اورمیر صادقوں‘کی مدد سے ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو’قوم پرست مسلمان‘بنالے گا۔سب’ہندوراشٹر‘کے لیے جدوجہد کریں گے۔ ویسے ان ’ منافقین ‘ نے اندریش کمار کے دل کی مرادیں پوری کی بھی ہیں ،ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر میں یہ ساتھ دے رہے ہیں،کشمیر سے آرٹیکل370 کا ہٹنا ان کے نزدیک قوم پرستی ہے اوریہی نہیں قرآن اوراحادیث کی اسی تعلیم کو درست مانتے اور سمجھتےجو اندریش کمار دیتے ہیں ۔ شایداندریش کمار سے ’سیکھنے‘کے بعدان کے ’بھکت مسلمان‘جن میں قاسمی بھی ہیں‘نقوی بھی اورقادری بھی، عام مسلمانوں کو اندریش والی تعلیم دیں گے۔
’مسلم راشٹریہ منچ‘ میں مسلم مردوں اور خواتین کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ’مسلمانوں اورآر ایس ایس کے درمیان ایسی قربت کے لیے بناتھا جو غلط فہمیوں کا ازالہ کرے‘مگر اس کے کام دیکھئے ،اس کے مسلم ممبران ایودھیا اینٹیں لے کر گئے تاکہ شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندربناسکیں،انہوں نے کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کروانے کے لیے آرٹیکل 370کے خاتمے کے لیے مورچہ نکالا،انہوں نے وارانسی کے مدرسے پر قومی پرچم لہرایا حالانکہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر واقع ناگپورپردہائیوں قومی پرچم نہیں لہرایا گیا!انہوں نے ناگپورکے بوہرہ مدرسے پر قومی پرچم لہرایا‘انہوں نے مسلمانوں کے لیے نہیں ،دودھ دینے والے جانوروں کو پالنے پوسنے کےواسطے مسلمانوں کی امداد کا مطالبہ کیا‘سینکڑوں مسلمانوں کو’گئو رکشک‘بننے کی تربیت دی،طلاقِ ثلاثہ کے خلاف انہوں نے ملک گیرتحریک چلائی۔اندریش کمار نے ایسی ہی ایک طلاقِ ثلاثہ مخالف مہم کے دوران مسلمانوں کو یہ مشورہ دیاتھا کہ وہ اس موضوع پر جاگیں۔’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پلیٹ فارم سےکہاگیاتھا کہ’’تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک قومی قانون کی تحریک شروع کریں گے۔‘‘باالفاظ دیگر یہ کہ ’میر جعفروں ومیر صادقوں ‘کو لے کر’یکساں سول کوڈ ‘کی تحریک شروع کی جائے گی!سارے ملک میں ’بیف‘پرپابندی کی حمایت کی۔مسلم نام والی اس سنگھی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ’یوگا‘اور’نماز‘کویکساں قراردیاگیا‘سوریۂ نمسکار کی تعلیم دی گئی۔غرضیکہ ہر اس عمل کو’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پلیٹ فارم سے یاتواجاگرکیاگیا یا اس سلسلے میں تحریک چلائی گئی جو یاتومسلمانوں کی شریعت کے خلاف ہےیا جو خالصتاً’ہندومذہب‘کاجزوہے۔
اور اب اندریش کمار نے سی اے اے کی حمایت میں تحریک شروع کررکھی ہے ۔ جو سی اے اے مخالف ہیں وہ انہیں ’بہکے ہوئے‘ اور ’ اسلام کو بدنام کرنے والے‘ اور ’شیطان پرست‘ قرار دیتے ہیں۔’منچ‘ کی یہ کوشش ہے کہ ملک بھر میںمسلمانوں کے بیچ اپنے ’میر جعفروں‘ اور ’ میر صادقوں‘ یا آسان الفاظ میں ’ منافقین‘ کو بھیج کر مسلمانوں کو سی اے اے کی حمایت کے لئے آمادہ کرے ۔منافق ٹولی سرگرم ہوگئی ہے۔ اس کام میں اس کا ساتھ کئی مذہبی ، سیاسی اور سماجی مقتدر شخصیات بھی دے رہی ہیں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اندریش کمارکا اپنے سرپر ہاتھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے زیادہ اچھا لگ رہا ہے ۔ انہیں لگ رہا ہے کہ اس طرح وہ مودی ، شاہ ، یوگی کے ’منظور نظر‘ ہوجائیں گے ۔ یہ قوم ، ملک ، دین ، ایمان اور مذہب کوبیچ کر دنیا تو کماسکتے ہیں پر انہیں یادرکھنا چاہیئے کہ اللہ رب العزت کی نگاہ سے جوگرجاتا ہے وہ کبھی عزت نہیں پاتا اس کے لئے بس ذلت ہی ذلت ہے ۔