شرد پوار پھر گوتم اڈانی سے مل آئے ! اب کیا کیا جائے ، انہیں گوتم اڈانی سے پیار ہی کچھ ایسا ہے کہ ، ان سے ملے اور بات کیے بغیر انہیں نہ چین آتا ہے اور نہ قرار ! گوتم اڈانی کا جادو ہی کچھ ایسا ہے کہ ، اُن سے ملنے والا ہر کوئی اُن کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ کوئی اگر یہ سوال کرے کہ یہ کاہے کا سحر ہے ، تو اُسے پتہ ہونا چاہیے کہ ، پیسے سے بڑھ کر کسی اور چیز کا سحر نہیں ہوتا ، اور اڈانی دنیا کے امیرترین لوگوں میں سے ایک ہیں ۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ آنے سے قبل یہ دنیا کے امیروں میں سرِ فہرست تھے ، یعنی درجہ بندی میں یہ نمبر ایک پر تھے ، اب ان کا درجہ کبھی اوپر اور کبھی نیچے ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن اس اُتار چڑھاؤ کا اُن کے سحر پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ، جادو برقرار ہے ۔ ہمارے پی ایم نریندر مودی کسی کو گھاس ڈالتے کبھی نہیں دیکھے گئے ، لیکن اڈانی کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو سبزیوں کا لنچ یا ڈنر لیتے ہیں ! ہے نہ جادو ! اور جب کبھی لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں اڈانی کا ذکر چھڑتا ہے ، سوالات اٹھتے ہیں ، تب کیا مجال جو اُن کی زبان سے کوئی جواب نکل جائے ۔ پی ایم مودی تو اڈانی پر سوال پوچھنے کے لیے راہل گاندھی کو پارلیمنٹ بدر تک کروا چکے ہیں ۔ لیکن راہل ہیں بڑے ہٹ دھرم پارلیمنٹ کے پانچ روزہ خصوصی اجلاس میں بھی وہ اڈانی کا نام لینے سے باز نہیں رہے ۔ تو ذکر یہ تھا کہ شرد پوار گجرات جا پہنچے ، اور احمدآباد میں اڈانی سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کے بعد معمول کی طرح سیاسی گلیاروں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ جب ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد گوتم اڈانی ’ مشکلات ‘ میں گھرتے نظر آ رہے تھے ، اور اپوزیشن بالخصوص راہل گاندھی اُن پر زوردار حملے کر رہے تھے ، عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ اُن کے خلاف بول رہے تھے ، اور پارلیمنٹ میں اڈانی پر لگے الزامات کی جانچ کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی آوازیں اٹھ رہی تھیں ، تب شردپوار اور اڈانی میں ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ ۲۰ ، اپریل ۲۰۲۳ء کا دن تھا ، اڈانی خود شردپوار سے ملنے کے لیے اُن کے ممبئی کے گھر پہنچے تھے ۔ ملاقات کے بعد شردپوار نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے مطالبے کو ’ نامناسب ‘ قرار دینے کی کوشش کی تھی ، لیکن جب چاروں طرف سے یہ شور اٹھا کہ شردپوار کا بیان اپوزیشن اتحاد کو متاثر کر سکتا ہے ، تو انہوں اپنی بات پر کوئی زور نہیں دیا ۔ بات آئی گئی ہو گئی ۔ شرد پوار سے قربت رکھنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ دونوں دوست ہیں ، بس ۔ شرد پوار خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اور اڈانی دوست ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ احمدآباد کی ملاقات بھی کسی تقریب کی مناسبت سے ہوئی ہے ۔ لیکن یہ ملاقات آج کے دنوں میں ایک ’ سیاسی موضوع ‘ بن گئی ہے ، کیونکہ شرد پوار اپوزیشن کے اتحاد ’ انڈیا ‘ کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ وہ ’ انڈیا ‘ اتحاد کو کامیاب کرانے کے لیے جنتا سے اپیلیں کرتے رہتے ہیں ، اور اپنے بھتیجے اجیت پوار کے ذریعے اپنی پارٹی این سی پی کو تقسیم کرنے کے بعد سے وہ اس بٹوارے کا الزام بی جے پی کے سَر منڈھتے آ رہے ہیں ۔ حالانکہ بہت سے سیاست دانوں کا ، اور سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ ماننا ہے کہ اجیت پوار اپنے چچا شرد پوار کے اشارے پر ہی بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں تاکہ بی جے پی کی ’ واشنگ مشین ‘ میں دھل کر پاک پوتر ہو جائیں ، لیکن پارٹی دو دھڑوں میں بٹ تو گئی ہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’ انڈیا ‘ اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں پر شردپوار اور اڈانی کی اس ملاقات کا کیا اثر پڑے گا ؟ اثر کی بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ ’ انڈیا ‘ اتحاد کی بی جے پی مخالف مہم کا اڈانی ایک نشانہ ہیں ، انتخابی مہموں میں جب بات پی ایم مودی کی ہوگی تو اڈانی کا ذکر بھی چھڑ سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا شردپوار کو ، جو خود کو اڈانی کا دوست بتاتے ہیں ، یہ قبول ہوگا ؟ اور اگر قبول نہ ہوا تو ’ انڈیا ‘ اتحاد میں ان کی اور ان کی پارٹی این سی پی کی حیثیت کیا ہوگی؟ شردپوار اور اڈانی کی یہ ملاقات ممکن ہے کہ غیر سیاسی ہو ، اور خالص ذاتی نوعیت کی ہو ، لیکن اس ملاقات نے بہرحال بی جے پی ، این ڈی اے اور ’ انڈیا ‘ اتحاد مخالفین کو ایک موقع دے دیا ہے ۔ ایک بات مزید ؛ شرد پوار کو سمجھنا اُن کے قریبی لوگوں کے لیے بھی ہمیشہ مشکل رہا ہے ، اس لیے اس ملاقات کے پس پشت اُن کا مقصد کیا ہے ، یہ بات بھی آسانی سے سمجھ میں نہیں آئے گی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)