زندگی کے مختلف مسائل ہیں، اور ان مسائل کو پیش کرنے کے متعدد وسائل بھی۔ درحقیقت زندگی کے مختلف شعبوں کی شناخت ان کے مخصوص مسائل و معاملات سے ہی قائم ہوتی ہے۔ صحافت، طبابت، سیاست، معیشت اور ان جیسے دیگر شعبوں کا قیام بھی مخصوص مسائل کے پیش نظر عمل میں آیا۔ لیکن موجودہ وقت میں یہ شعبے کتنی ایمانداری سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ادب اور آرٹ کی گہرائی کو سمجھنے کے بجائے اس کو تفریح طبع اور غیر حقیقی مسائل کا عکاس قرار دیتے ہوئے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ادب اور آرٹ کی قدیم روایت ہے کہ جب جب ہمارے معاشرے کے دیگر شعبے اپنا فرض انجام دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،ادب اور آرٹ نے اپنی شجاعت اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی حکومت ان وسائل کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی نظر آتی ہے۔
ادب اور آرٹ کی دنیا مشکل ترین مسائل کو بہت آسانی سے پیش کرنے پر قادر ہے۔ اس کی تازہ مثال 7 ستمبر کو ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی فلم "جوان” ہے، جسے دیکھ کر فلم، ڈراما اور تھیٹر کی بے پناہ قوت کا نیا تجربہ ہوا۔ یہ فلم موجودہ ہندوستان کے مختلف سنجیدہ مسائل کو اس خوبی سے پیش کرتی ہے کہ آرٹ پر حرف نہ آتے ہوئے بھی مختلف مسائل اجاگر ہو جاتے ہیں۔ قرض سے پریشان کسانوں کی خودکشی کا واقعہ ہو یا کارپوریٹ سیکٹر کے بالمقابل کسانوں کے ساتھ دوہرا سلوک۔ سرکاری ہسپتال اور پرائیوٹ ہسپتال کے مابین امتیاز ہو یا سیاسی رہنماؤں کے کھوکھلے وعدے۔ ماحولیاتی نظام سے بے پرواہ حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کی نئی پالیسیاں ہوں یا ووٹ بینک کی سیاست، فلم میں ان تمام مسائل پر بہت سلیقے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ فلم کا پلاٹ اتنی خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ مختلف مسائل ایک کہانی کا حصہ بن گئے ہیں۔ مظلوم قیدی خواتین کا اجتماع اور ظلم کے خلاف ان کی بغاوت عوام کو بیدار ہونے اور ہوش کے ناخن لینے کا پیغام دیتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار جیلر ہوتے ہوئے بھی ایک ذمہ دار شہری کا حق ادا کرتا ہے۔ وہ انسانی معاشرے کا ہمدرد ہے اور ملک کے تمام اہم مسائل پر اس کی نظر ہے۔ کہانی میں شاہ رخ خان باپ اور بیٹے کی شکل میں دو مختلف کرداد نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ان دونوں کرداروں کو جس طرح کہانی میں جوڑ کر پیش کیا گیا ہے، اس سے تجسس بھی پیدا ہوتا ہے اور کہانی کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ اختتام سے قبل ووٹ دینے سے متعلق شاہ رخ خان نے شہریوں کو جس طرح خطاب کیا ہے، وہ آرٹ کے پیرائے میں اپنی بات کہنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس پیغام کے لیے کہانی میں جس طرح گنجائش پیدا کی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے۔
فلم کی کامیابی اور ناکامی ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ موجودہ وقت میں جو کام صحافت اور دیگر شعبے انجام دینے سے خائف نظر آتے ہیں، وہ کام شاہ رخ خان نے آرٹ کا سہارا لیتے ہوئے فلم "جوان” کے ذریعے انجام دینے کی کوشش کی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)