Home خاص کالم فیفا ورلڈ کپ کے بہانے – شکیل رشید

فیفا ورلڈ کپ کے بہانے – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

کیا آپ جانتے ہیں کہ یوروپی ممالک قطر پر انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات لگاتے رہے ہیں ، وہی قطر جہاں ان دنوں فٹ بال کا عالمی کپ کھیلا جا رہا ہے ؟ اسی لیےقطر کے خلاف ، عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی کےاعلان کے بعد ہی سے ، تنقید کا ایک سلسلہ شروع تھا ، جس میں حال کے دنوں میں مزید شدت آئی ہے ، اتنی شدت کہ بعض حلقے تو باقاعدہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ قطر سے عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی چھین لی جائے ، اور اسی لیے کئی غیر متعصب خبر رساں اداروں نے بھی عالمی فٹ بال کپ کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا تھا ، جس کی فٹبال کی عالمی تنظیم ’ فیفا ‘ کے صدر گیانی انفانٹینو نے ’ یوروپ کی منافقت ‘ قرار دیتے ہوئے ، شدید نکتہ چینی کی ہے ۔ اسے منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ، کیونکہ یوروپی ممالک حقوق انسانی کی پامالیوں کے جتنے بڑے مجرم ہیں ، قطراتنا بڑا مجرم نہیں ہے ۔ یوروپ کی تاریخ انسانی حقوق کی پامالیوں سے بھری ہوئی ہے ، اس کی مثال پہلی اور دوسری جنگِ عظیم ، اور اِن جنگوں کے نتیجہ میں ، لاکھوں انسانی جانوں کا اتلاف ہے ، جاپان پر ایٹم بموں کا گرانا ہے ، اورفلسطینوں کا بے رحمی کے ساتھ کیا جانے والا قتلِ عام ، اور اسے حاصل کئی ایسے یوروپی ممالک کی حمایت ہے ، جو عالمی پیمانہ کے مقابلے بھی منعقد کراتے رہے ہیں ، اور خود کو امن و امان کے پیامبر کے طور پر بھی پیش کرتے رہے ہیں ، جیسے کہ فرانس ، جو افریقی ممالک پر قبضہ کر کے انہیں نوچتا رہا ہے ۔ بات انسانی حقوق کی اس لیے کی جا رہی ہے کہ قطر نے ایک ایسے انسان غانمالمفاتح سے ، جو صحیح معنوں میں معذور اور اپاہج ہے ، جس کا صرف اوپری دھڑ ہے ، وہ نچلے دھڑ سے محروم ہے ، ’ فیفا ورلڈ کپ ‘ کا آغاز کروا کر ، معذوروں کو ایک باعزت مقام دینے کا عملی ثبوت دیا ہے ۔ یوروپ کے کہنے اور کرنے میں جو فرق ہے اُسے قطر نے اپنے ’ کرنے ‘ سے عیاں کر دیا ہے ۔ قطر کے عالمی فٹ بال کپ کو نشانے پر لینے کی جو وجوہ ہیں ، ان میں قطر کا اپنی تہذیب اور اپنی روایات سے ، نہ ہٹنا ہے ۔ اس نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ قطر اس ورلڈ کپ کے دوران’ مغربی رنگ ‘ میں رنگ جائے ۔ قطر نے اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو پیش کرنے پر زور دیا ، جو اسلامی ثفاقت ہے ۔ قطر نے شراب پر پابندی عائد کی ہے ، یہ بات یوروپ کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ قطر پر غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ بد سلوکی کا الزام ہے ، ہم جنس پرستوں کے حقوق کی پامالی کا الزام ہے ، جسم فروشوں پر قدغن لگانے پر تشویش ہے ، یہ الزامات ممکن ہے درست ہوں لیکن اگر یہ قطر کی ثفاقت اور وہاں کی اسلامی اقدار کے خلاف عمل ہیں ، تو قطر کو ان پر پابندی عائد کرنے کا اسی قدر حق ہے ، جس قدر حق یوروپی ممالک کو ان مکروہات کو اپنے اپنے ’ کھیل میلوں ‘ یا دیگر تقریبات میں ’ فروغ ‘ دینے کا ہے ۔ رہی بات مزدوروں سے بدسلوکی کی تو گیانی انفانٹینو پہلے ہی اس الزام کو مسترد کر چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یوروپ میں جو مہاجر آئے ہیں اُن سے کہیں بہتر حالت میں یہ مزدور ہیں ۔ اور جہاں تک بات ہم جنسی کی ہے تو قطر میں اس پر قانوناً پابندی ہے ۔ یوروپی ممالک کو سب سے زیادہ طیش اس بات پر ہے کہ عالمی فٹ بال کے اِ س کھیل کو قطر نے ’ دعوتِ اسلام ‘ کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے ۔ یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں ہو رہا ہے ، جن ممالک میں کھیل کود کے بڑے مقابلے ہوتے ہیں ، بالخصوص فٹ بال کے مقابلے ، وہاں اپنے اپنے مذاہب کی دعوت دینے والے مبلغ موجود ہوتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ قطر نے تمام تر مخالفت کے باوجود فٹ بال کے عالمی مقابلوں کا اہتمام کرنے میں ایسی کامیابی حاصل کی جو اس سے قبل کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہو سکی تھی ۔ یہ مقابلے قطر کو علمی پس منظر پر لے آئے ہیں ، اور اس کا وہ رخ سامنے آیا ہے جس سے ایک دنیا اب تک ناواقف تھی ۔ یہ انسانی رخ ہے ، مہمانوں کا بڑھ چڑھ کر استقبال کرنے اور عزت افزائی کرنے والا ، فٹ بال کے عالمی کپ کے مقابلوں کے انعقاد کے ذریعے ساری دنیا کی قومیتوں اور عقیدوں کو ایک جگہ جمع کرکے دنیا کو امن اور یکجہتی کا پیغام دینے والا رخ ۔ یہ مقابلے قطر کے لیے کئی طرح سے نفع بخش ثابت ہو رہے ہیں ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے بائیکاٹ کے باوجود قطر نے ، نہ صرف اس ایونٹ کا انعقاد کر کے اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل کیا ، بلکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ، بشمول مصر اور ترکی ، پھر سے اپنے قریب کیا ، اس طرح عرب اتحاد کی بنیاد کو کمزور ہونے سے بچایا ، اسی لیے جب سعودی عرب کی ٹیم نے دو دفعہ کی عالمی فٹ بال فاتح ارجنٹائینا کو شکست دی ، تو اس فتح میں شریک ہوکر عرب اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا ۔ اس ایونٹ کی بنیاد پر قطر نے اپنے وژن 2023 ء کی بنیاد رکھی ہے ، جس کا مقصد اپنے شہریوں کو بہتر سے بہتر زندگی کی فراہمی ہے ۔ اس ایونٹ کو سارے عربوں اور سارے مسلمانوں کا ایونٹ قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ ایونٹ اس سچ کو بھی سامنے لے آیا ہے کہ قطر ، روس کے بعد قدرتی گیس کے سب سے زیادہ ذخائر کا مالک ہے ، اور آج دنیا کے ممالک ، یوکرین جنگ کے باعث قطری گیس کے محتاج ہیں ۔ قطر نے اس ایونٹ کے ذریعے فلسطین کے کاژ کو پھر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے ۔ ہندوستان میں قطر کے اس ایونٹ کو اس لیے نکتہ چینی کا سامنا ہے کہ اس نے ذاکر نائک کو ، جنہیں ہندوستان ’ مفرور ‘ قرار دیتا ہے ، مدعو کیا ہے ، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بجائے ذاکر نائک کے خلاف پختہ ثبوت پیش کرنے کے ، ہندوستانی میڈیا قطر کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ ہندوستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ ذاکر نائک کے بہانےاسلام اور مسلمانوں کو ، جن میں ہندوستانی مسلمان بھی شامل ہیں ، نشانہ بنانا بند کرے ، اس سے قطر کا کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن یہاں لوگوں کے درمیان حائل خلیج مزید چوڑی ہوگی ۔

You may also like

Leave a Comment