مشہور شاعر و ادیب اور سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ و ماہنامہ ’اردو دنیا‘ کے مدیر مخمور سعیدی مرحوم اپنی کسی بات یا خیال کی وضاحت کے لیے اختصار کو ہنر سمجھتےتھے۔ بلا ضرورت طول کو وہ نثر کی صحت کے لیے مضر قرار دیتے تھے۔ قومی اردو کونسل میں اپنی ادارتی ذمے داریوں کے دوران انھوں نے اس پر عمل بھی کیا اور اپنے ساتھیوں کو اس کی تلقین بھی کرتے رہے۔ موجودہ دور میں شاید مخمور سعیدی کی رائے پر عمل بہت ضروری ہے۔ جس طرح قاری کا رشتہ کتابوں سے دور ہوتا جارہا ہے، ایسے میں اختصار، ایجاز اور جامعیت کو اپنا کر قاری اور کتاب کے رشتے کو دوبارہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ بھاری بھرکم اور ضخیم کتابیں اپنے موضوع کی نادر و نایاب کتاب ہونے کے باجود قاری کے ذہن و دماغ پر گہرے اثرات مرتب نہیں کرپاتیں۔ فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ موضوع کی وضاحت کے لیے قلمکار موزوں اور مناسب الفاظ کا استعمال کریں تاکہ طوالت سے حتی الامکان بچاجا سکے۔ بہت سے قلم کار ایسا کرتے بھی ہیں، مگر ان کی تعداد اقل ہے۔ اس چلن کو عام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور فکشن نگار، صحافی اور رسالہ’آہنگ‘ کے نائب مدیر عشرت ظہیر مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے نثر میں اسے برت کردکھایا ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے: ابھرتی ڈوبتی لہریں(اکتوبر، 1979)، متوازی خطوط(1989)، خوشبوؤں کاجال (جون 2016)، خوابوںکاقیدی (2019) اور دو مضامین کے مجموعے ’نمود حرف‘ (2024) اور ’فکشن زاویے‘ کے مطالعے سے ان کے اختصار و ایجاز کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
زیرنظر کتاب’فکشن زاویے‘ عشرت ظہیر (سیدشاہ محمدعشرت) کی تازہ ترین تصنیف ہے جو عرشیہ پبلی کیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ اس مجموعے میں ناول، ناولٹ، افسانے اور افسانچے پر کل 27 مضامین شامل ہیں ۔
ناول میں: ’انارکلی‘ کی چیختی روح کا پُنرجنم، عبدالصمدکے ناولوں کا فنی اختصاص،ناول روحزن: جنس اور محبت کا تضاد، ’پری ناز اور پرندے‘:عظمتِ رفتہ اور محبتوں کا قصہ، ’اماوس میں خواب‘ زندگی کی روشنی کا استعارہ، نئے دھان کا رنگ: زندگی کی تفسیر و تقدیر، ناول ’شہرذات‘ کا تنہا آدمی، ہجورآما:نوری بھی ناری بھی، تخم خوں:کہانی ابھی ختم نہیںہوئی ہے، ’شب ہجراں‘: مختصر ناول، لمبی کہانی جب کہ ناولٹ میں ’سرپٹ گھوڑا:امکانیت پسندی کامینارۂ نور‘ جیسے مضامین شامل ہیں۔
اسی طرح افسانے میں عبدالمتین ’رنگوں کے تعاقب‘ میں، حسین الحق کے چندمقبول افسانے، سید محمد اشرف کا افسانہ ’یک بیاباں‘: ایک نوٹ، مشرف عالم ذوقی کاافسانہ ’پانی‘ :تجزیاتی مطالعہ، منظرکاظمی:’لکشمن ریکھا‘کی روشنی میں ، شفق کاداستانی لہجہ اور امتیازِ فن، علی امام کے افسانے: نفی سے اثبات تک، فخرالدین عارفی کے افسانے، شفیع جاوید: رمز حیات کی تلاش میں، ’رات کی بات‘: ذہنی گرداب کا نگارخانہ، ڈاکٹر شاہد جمیل کے افسانوں میں عورت، اسلم سلازار کے افسانے کی پرواز:’اسنوفال‘، تنویراختر رومانی،سنہری قدروںکاامین، افسانوی مجموعہ ’کربِ ناتمام‘ ایک تاثر جب کہ افسانچے میں تنویر اختر رومانی کے افسانچے اور مجموعۂ افسانچہ ’ہارا ہوا ملاح‘ کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
208 صفحات کی کتاب میں 27 مضمون کی شمولیت سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کسی موضوع کی وضاحت کے لیے کس قدر محنت کی ہوگی۔ کچھ مضامین ایسے ہیں جس میں فکشن نگار کی ایک ہی کتاب پر روشنی ڈالی گئی ہے مگر کئی ایسے مضامین ہیں جن میں فکشن نگار کی کئی کتابوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ان کے علاوہ فکشن نگار کے حالاتِ زندگی اور اس کی تحریروں کے محاسن و معائب پر بھی جامع گفتگو کی گئی ہے۔ ایسا عشرت ظہیر اس لیے کرپاتے ہیں کہ وہ کسی کتاب پر اپنی رائے یا مضمون لکھتے وقت کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ جب کہ اس وقت پوری کتاب کا مطالعہ کرکے مضمون لکھنے والے شاذ و نادر ہی ہیں۔ اب تو بیشتر مضمون نگار کتاب کے پیش لفظ اور چند سطور پڑھ کر ہی مضمون تیار کرلیتے ہیں۔ یہ چلن اب عام بھی ہوتا جارہا ہے۔ ایسے مضمون سے نہ تو مضمون نگار کا بھلا ہوگا اور نہ ہی فن پارے کے ساتھ انصاف ۔ ایسا کرنے والے تنقید کے بنیادی اصول سے بھی انحراف کرتے ہیں۔ عشرت ظہیر کے ذوق مطالعہ اور ارتکازیت کی ستائش بہرحال کرنی چاہے۔ مگر ان کے اندر انکسار اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو تنقید نگار کے زمرے میں نہیں رکھنا چاہتے۔ اس بابت وہ ایک صفحے کے اعتراف میں لکھتے ہیں:
’’میں تنقید نگار نہیں ہوں۔ لہٰذا اس مجموعۂ مضامین فکشن زاویے‘ میں شامل تحریریں یقینا تنقیدی زمرے میں نہیں آتیں۔ اس لیے ان میں تنقیدی ادب کی نوعیت کے لحاظ سے تخلیقی بصیرت اور کیفیت کی تلاش فعل عبث ہوگا۔
یہاں بڑے بڑے، مستند نقادوں کی طرح، غیرملکی زبان و ادب کے ممتاز فنکاروں اور ان کی کتابوں کے اقتباسات کے توسط سے تخلیقات کو پرکھنے کی سعی بھی نہیں ہے۔ میں نے قلم کاروں اور ان کی کاوشوں کی انفرادیت، موضوعات کی ندرت، اظہار بیان کے تنوع کو عہد حاضر کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(فکشن زاویے، ص 6)
عشرت ظہیر کی نثر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مضمون لکھتے وقت لمبی چوڑی تمہید سے گریز کرتے ہیں۔ بارہا یہ دیکھا جاتا ہے کہ کچھ قلم کار مضمون لکھتے وقت اتنی لمبی تمہید باندھتے ہیں کہ قاری کو اس سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ وہ اصل مضمون تک پہنچے پہنچتے تھک ہار کر کتاب بند کردیتا ہے۔ یہ بھی نثر کا بڑا عیب ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین میں لمبی تمہید سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر کسی مضمون میں تمہید ہے بھی تو بہت ہی مختصر۔ بعض مضامین تو بغیر تمہید کے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ اس بابت ان کے ایک آدھ مضامین سے اقتباس پیش کرنا بہت ضروری ہے تاکہ قارئین صحیح معنوں میں ان کے اس ہنر سے واقف ہوسکیں۔ عشرت ظہیررحمن عباس کے ناول ’ناول روحزن: جنس اور محبت کا تضاد‘ میں ان کا تعارف صرف ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے طور پر کراتے ہیں، پھر وہ سیدھے ناول پر آجاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’رحمن عباس کا ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ ناول ’روحزن‘ زندگی کی تپش اور حرارت کے مد و جزر اور زندگی کے رہسیہ کے اندھیرے اجالے سے عبارت ہے۔ ناول کی کہانی میں بارش، جنس اور محبت کے اظہار کا دلکش، حیران کن اور فکر انگیز استعاراتی نظام ہے۔ (ص 29)
شبیرا حمد کے ناول’ہجور آما: نوری بھی ناری بھی‘ میں وہ پہلا طریقہ اپناتے ہیں۔ شبیر صاحب کا تعارف چند الفاظ میں کرکے ناول پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
شبیر احمد گمبھیر اور روادار انسان ہیں۔ ان کے ناول ’ہجور آما‘ کی کائنات بھی گمبھیر مظاہر اور روادار پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، لیکن اس امر کے باوجود، اپنے ناول ’ہجور آما‘ میں شبیر احمد کہیں نہیں دِکھتے…‘‘(ایضاً، ص 70)
شاہد اختر کے ناول ’شہرذات‘ میں تو وہ بغیر کسی تمہید کے ناول پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ موضوع کی شروعات اس طرح ہوتی ہے:
شاہد اختر کا ناول ’شہرذات‘ عہد حاضر کے منفی انداز فکراور صورت حال کو اپنے جلو میں لیے آج کی معاشرتی اور سماجی زندگی، رشتوں، قدروں اور موجودہ صورت حال اور اس کے اسٹکچر کے ٹوٹتے بکھرتے اور پائمال ہوتے ہوئے سلسلوں میں ایک تنہا آدمی (خرم) کی کہانی ہے… ‘‘(ایضاً، ص 63)
طوالت سے بچنے کے لیے ناتمام اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ ناول کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے کتاب کا مطالعہ بہت مفیدا ور کارآمد ہوگا۔ ’فکشن زاویے‘ عرشیہ پبلی کیشنز کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے۔ 208صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 450 روپے ہے۔ صفحات کے اعتبار سے کتاب کی قیمت کچھ زیادہ ہے، پھر بھی مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فکشن کی کتابوں کا علم حاصل کرسکیں گے اور عشرت ظہیر کی تحریروں کی سادگی و پرکاری سے محظوظ ہوں گے۔