پروفیسر عتیق اللہ کی اصل شناخت بین العلومی نقاد کے طور پر ہوتی ہے، لیکن وہ اعلیٰ محقق، عمدہ شاعر ، اچھے ڈراما نگار، عمدہ خاکہ نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ بین العلومی نقاد کے لیے فہم و بصیرت، نئی نئی چیزوں کی دریافت و جستجو،کثرتِ مطالعہ کے ساتھ کثیر المضامین (Several Subject) اور کثیراللسانیت (Multy Language) جیسی صفات سے متصف ہونا ناگزیر ہے۔ عتیق اللہ صاحب کے یہاں یہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔ ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ تنقیدی کتابوں میں قدر شناسی (1978)، تنقید کا نیا محاورہ (1984)، ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ (تنقید و تحقیق) ، ترجیحات (2002)، تعصبات(2005)، محمد حسین آزاد ،بیانات (2011)، اسالیب (2015)،مغرب میں تنقید کی روایت (2017)، بین العلومی مطالعات (2018)، بین العلومی تنقید (2019)، شاد عظیم آبادی (2021) ، اردو میں تنقید کی روایت (2024) قابل ذکر ہیں۔ ایک سو غزلیں (1972)، بین کرتا ہوا شہر 1991، عبارت (2011)، تکلم (2016) ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ڈارمے پر ایک کتاب پیچھے کوئی ہے (2001) میں شائع ہوچکی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کئی کتابیں ترتیب بھی دی ہیں جن میں دہلی میں اردو نظم آزادی کے بعد (1990) بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب 2002، 2008، عہد ناتمام کی شاعرہ: پروین شیر (2011)، تنقید کی جمالیات (10 جلدیں، 2013,2014) شامل ہیں۔
’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ پروفیسر عتیق اللہ کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں 38 مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کے تقریباً تمام مضامین میں فکشن کی شعریات اور مبادیات کا جو علمی اور معروضی مطالعہ پروفیسر عتیق اللہ نے پیش کیا ہے وہ ان کا وصف خاص ہے۔ عتیق اللہ صاحب تنقید لکھتے وقت تنقید کے جو بھی شرائط ہیں ان کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ جس پر بھی وہ تنقید لکھتے ہیں اس کے نقص اور خوبیوں کا مدلل انداز میں بیان کرتے ہیں۔ عتیق اللہ کی تنقیدی خوبیوں کی وضاحت کرتے ہوئے عصر حاضر کے مشہور فکشن نگارخالد جاوید لکھتے ہیں:
’’عتیق اللہ ہمارے عہد کے سب سے اہم نقاد ہیں۔ جدید اور کلاسیکل دونوں ادب کے نئے گوشے ان کی ناقدانہ تحریرو ںکے ذریعے لگاتار اجاگر ہوتے رہے ہیں۔ عتیق اللہ کو اپنے آپ میں ایک تنقیدی دبستان کا نام دیا جاسکتا ہے۔ فکشن پر انھوں نے جو تنقید کی ہے اس کا کوئی رول ماڈل ہمارے پاس پہلے سے موجود نہیں تھا۔ عتیق اللہ کیونکہ خود بھی ایک اعلیٰ پائے کے تخلیق کار ہیں، اس لیے ان کی تحریریں تنقید اور تخلیق دونوں کے درمیان کی خلیج کو پاٹتی ہوئی نظر آتی ہیں یعنی جہاں فکشن پر ان کی تنقید فن پارے کی ادبی تفہم کا فریضہ ادا کرتی ہے، وہیں یہ تنقید فکشن لکھنے کے نئے نئے راستے بھی پیدا کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت کے حوالے سے ادبی تھیوری کو جس طرح اردو میں انھوں نے مروج کیا ہے، وہ کوئی اور نہیں کرسکا اور تھیوری کا اطلاق جس ذہانت اور بصیرت کے ساتھ فکشن پر ان کی تحریرو ںکے ذریعے ہوتا ہے آیا ہے، اس کی بھی مثال اردو تنقید میں ان سے پہلے نہیں ملتی۔‘‘ (بیانیہ شناسی کا ایک سبق، بیک کور)
’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ پروفیسرعتیق اللہ کی پہلی کتاب ہے جس میں تمام مضامین فکشن کے حوالے سے شامل ہیں۔ بعض قارئین یہ کتاب دیکھ کر حیرت زدہ ہوسکتے ہیں کہ عتیق اللہ صاحب کا ذوق تو شعر و شاعری کی طرف تھا،مگر انھوں نے ایک الگ راستہ اختیار کرکے فکشن کو اپنے ذوق کی تسکین کا وسیلہ بنایا۔ اس بارے میں عتیق اللہ صاحب خود ہی لکھتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میرے عزیز دوست ابن کنول مرحوم نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ ایک شاعر ہونے کے باوصف فکشن سے آپ کی دلچسپی کیسے ہوگئی۔ میرے لیے یہ سوال چونکانے والا تھا کیونکہ میں نے کبھی یہ سوچا نہیں تھا کہ یہ شعرفہمی کا جو مادہ مجھ میں ہے اور مجھے بھی شدبد ہے کہ شعر کہاں جادو کی طرح حواس پر تن جاتا ہے اور ایک ایسا جہان ہمارے سامنے خلق کردیتا ہے جہاں ہر شے اجنبی اور انوکھی محسوس ہوتی ہے۔ حیرت خیزی کا جو چشمہ شاعری میں پھوٹتا ہ وہ ہمیں شارے این و آں سے منقطع کردیتا ہے۔ اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ فکشن میں ہم ایسے جہانوں سے نہیں گزرتے، دراصل فکشن میں جب اس طرح کی شعری قوت مضمر ہوتی ہے تو شاعری اور فکشن میں کوئی تفریق نہیں ہوتی۔‘‘ (بیانیہ شناسی کا ایک سبق، ص 13)
عموماً کوئی بھی تنقید نگار خود کو کسی دائرے میں محصور نہیں رکھنا چاہتا ہے۔ سارے اصناف اس کے لیے یکساں ہیں، یہ اور بات کہ کوئی نہ کوئی صنف اس کے لیے محبوب ہوتی ہے۔ ہر صنف کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کے ذہن و دل پر جادو کی طرح اثر کرتی ہے ، اور ایک ایسی لامتناہی دنیا خلق کرتی ہے جہاں ہر شے اجنبی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فکشن میں جادو اور کشش نہیں ہے۔ فکشن کی بھی بہت ساری خوبیاں ہیں۔ شاعری کی طرح فکشن بھی قاری کو کوئی مثبت علم فراہم نہیں کرتامگر معلومات میں اضافہ ضرور کرتا ہے۔ بیشتر کا ماننا ہے کہ زندگی کی حیرت خیزیوں کو پیش کرنے کی جو عمدہ صلاحیت ناول میں ہے وہ دیگر کسی اور صنف میں نہیں ہے۔
’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ کا پہلا مضمون ’بیانیہ شناسی کا ایک سبق: بیانات‘ بہت اہم مضمون ہے۔ اس مضمون کے ذریعے عتیق اللہ صاحب نے لفظ ’بیانیہ‘ کو بہت واضح اور مدلل اندازمیں پیش کیا ہے۔ بیانیہ کے معانی و مفاہیم اور اس کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے مغربی مفکرین کے آرا کا بھی بالتفصیل ذکر ہے۔ دراصل بیانیہ یا بیانات، ساختیات کی ایک شاخ ہے۔ زمانۂ حال میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہوچکا ہے۔ بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے عتیق اللہ صاحب لکھتے ہیں: ’’بیانات سے متعلق متنوع تھیوریز ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی توثیق کرتی ہوں۔ اختلاف کے بہت سے پہلوؤں کے باوجود بیانیہ فہمی اور بیانیہ شناسی اور ساختیاتی بیانات سے متعلق دائرے کو کسی نہ کسی پہلو سے جن مفکرین نے وسیع کیا ان میں زیوتن تودورف، رولاں بارتھ، ولادیمیر پراپ اور ژرارژینے کی خاص اہمیت ہے۔‘‘
بیانیہ نے ساختیات کے علاوہ لسانی تھیوری سے بہت سی اصطلاحیں اخذ کی ہیں۔ بیانیے میں ایک یا اس سے زائد حقیقی یا افسانوی یا فرضی واقعات کو کبھی اجمال تو کبھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ پرانے صحیفوں جیسے اساطیری، انجیلی قصص اور لوک رزمیوں، رومان پاروں، اطالوی Novellas، جدید ناول اور مختصر افسانوں کا شمار بھی بیانیوں میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کسی بیانیہ میں مصنف بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے خود اپنی آواز میں بولتا ہے تو کبھی کبھار یہ رول کسی فرضی کردار کے ذریعے ادا کرایا جاتا ہے۔بیانیہ میں واقعہ یا واقعات کی پیش کش لازمی ہے ورنہ وہ محض تصویر کشی، لفظی منظرکشی یا روئداد ہوکر رہ جائے گی۔
اسی مضمون میں ’بیانیہ‘ اور ’راوی‘ کے مفاہیم اور ان کے مابین فرق کو انھو ںنے بہت واضح اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔ مثلاً ’راوی‘ کا کردار ڈرامے میں کچھ اور ہوگا اور فکشن میں کچھ ۔ ’کہانی‘ اور ’پلاٹ‘ کے بارے میں بھی قارئین کو مدلل طریقے سے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ ’پس باز کشی‘ (Analepsis) او رپیش باز کشی (Prolepsis) سے بھی قارئین کو روشناس کرایا گیا ہے۔ فکشن نگار کے لیے ’حذف و محذوف‘ (Ellipsis)جیسی اصطلاح سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ’نقطۂ نظر‘ (Point of View)، ’ماسکہ سازی/ نقۂ ارتکاز سازی‘ (Focalization)، ’مہابیانیہ/ بیانیہ اندر بیانیہ‘ (Metanarative/Grand Narrative)، جیسی اصطلاحات پر بھی عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ آج کے بیشتر فکشن نگار فکشن کے ضروری لوازمات سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے ان سے کبھی کبھار فاش غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ اس مضمون میں عتیق اللہ صاحب نے فکشن لکھنے والوں کے جن ضروری اصطلاحات کا ذکر کیا ہے، اس کا علم فکشن نگار کے لیے واقعی بہت اہم ہے۔
دوسرا مضمون ’بیانیہ میں مفروضہ آواز‘ ہے۔ اس مضمون میں اظہار عمل میں لہجہ یا صوتی زیر و بم کے مفاہیم کو بیان کیا گیا ہے۔ بالعموم شاعری اوربالخصوص بیانیہ میں مصنف اپنی آواز کے لیے سوا کسی اور مفروضے کا استعمال کرتا ہے، اس کی عمدہ مثال ’ناٹک‘ ہے جس میں مکھوٹے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بیانیہ میں راوی صیغہ واحد میں ہونے کے باوجود لازمی نہیں کہ وہ مصنف ہی ہو۔ہاں خود نوشت اور ذاتی بیاض اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس بابت عتیق اللہ نے کچھ ناول اور ناول نگاروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’امراؤ جان ادا‘ میں ’رسوا ‘ یعنی بیان کنندہ نے اپنا نام صحیح بتایا ہے اور کسی میں وہ فرضی ہوتا ہے مثلاً انیس اشفاق کے ناول ’خواب سراب‘۔ بہرحال یہ مضمون بھی فکشن کے تعلق سے بہت عمدہ مضمون ہے۔
تیسرا مضمون ’ناول کا فن‘ ہے۔ یہ ایک طویل مضمون ہے جس میں پروفیسر عتیق اللہ نے ناول کے فن اور اس کے جملہ مبادیات کے حوالے سے قرائن و شواہد کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ چوتھا مضمون ’اردو ناول: تکنیک اور ہیئت کے تجربے‘ ہے۔ ناول نگاروں کے لیے ’تکنیک‘ اور ’ہیئت ‘ کیوں اور کس حد تک ضروری ہے، اس پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ ’ناول‘ ، ’طویل افسانے‘ اور ’ناولٹ‘ کے فرق کو بھی واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کچھ ناول نگاروں کے نام اور ان کے ناولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’پانچواں مضمون ’کہانی کا قصہ‘ ہے۔ اس میں قصہ اور کہانی کی ابتدا کے سلسلے میں بات کی گئی ہے۔ اس بابت مورخین کے مابین اختلافات بھی ہیں۔عتیق اللہ صاحب نے قصہ اور کہانی کے درمیان جو فرق و امتیاز ہے اسے مع دلائل و شواہد بہت عمدہ انداز میں پیشکیا ہے۔ ساتھ ہی قصہ، کہانی اور سامع کے آپسی رشتے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ’کردار: تشخص اور تشکیل‘، ’داستان میں بیانیہ کے تشکیلی مضمرات‘، ’اردو افسانے میں میجک ریلزم اور اس کے آثار کا پس منظر‘ بہت اعلیٰ اور معیاری مضامین ہیں۔ اردو سے دلچسپی رکھنے والے کو اس طرح کے مضامین کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
’پریم چند: اردو فکشن کا ایک مستقل حوالہ‘ میں عتیق اللہ صاحب نے پریم چند کو اپنے انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کے انبوہِ کثیر کو دیکھتے ہوئے ان کی طرف سنجیدگی اور تمام تعصبات سے بلند ہوکر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ پریم چند اردو فکشن کے اہم ترین ستون ہیں۔‘‘ مضمون ’احمد علی اور ان کا افسانہ: موت سے پہلے‘ میں افسانے کے تجزیے کے ساتھ افسانے کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ میں سعادت حسن منٹو پر چھ مضامین شامل ہیں، جن میں سیاہ حاشیے جو سرخی مائل زیادہ ہیں، منٹو کو کیوں نہ اس طرح دیکھا جائے، مظفر علی سید کا منٹو، مادھو- منٹو کا ایک کردار، متشدد مشابہت ساز منٹو، منٹو شناسی کا باب کھلا ہے کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ فکشن کے باب میں سعادت حسن منٹو کے مقام و مرتبے سے شاید ہی کوئی منکر ہو۔ بڑا ادیب محترم اور محبوب ہونے کے ساتھ نزاع انگیزبھی ہوتا ہے، آئے دن کوئی نہ کوئی متنازعہ مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال منٹو تھے۔ ان پر فحش نگاری کا الزام لگا، مقدمات درج کرائے گئے، یہاں تک انھیں جیل بھی جانا پڑا، کیونکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں سماج کے ان پوشیدہ حقائق کو بھی بیان کیا، جس سے بہت سے سفید پوش بے نقاب ہوگئے۔ ایک بار تو جج نے بھی یہ فیصلہ سنا دیا کہ ’’منٹو کو اپنی کہانیوں میں سماج کی اصل حقیقت کو پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کچھ سرپھرے ان پر لعن طعن کرنے سے بھی پیچھے نہیں رہے۔ مگر منٹو کے بیانیے کا انداز اس قدر عمدہ ہے کہ قاری ان کے افسانوں کو پڑھ کر عش عش کرنے کے ساتھ غور و فکر کرنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔
’سیاہ حاشیے جو سرخی مائل زیادہ ہیں‘ منٹو کے حوالے سے اس کتاب کا پہلا مضمون ہے ۔ ’سیاہ حاشیے‘ منٹو کے افسانچوں کا مجموعہ ہے جو پہلی بار 1948 میں شائع ہوا۔ سعادت حسن منٹو کے اس مجموعے کا انتساب ایک بے نام قاتل کے نام ہے، جس سے اچانک ایک دن ملاقات ہوجاتی ہے، دوران گفتگو وہ کہتا ہے ’’جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔‘‘ یہاں خیالی واقعے کوبروئے کار لایا گیا ہے۔ حقیقی صداقت بھی ایک بھرم ہی ہے۔ اسی لیے فکشن نگار نے صیغۂ ماضی میں اس واقعے کو بیانیہ پیرائے میں کہانی کا روپ دیا ہے۔ اس مجموعے کی زیادہ تر کہانیوں میں منٹو کے فن کا آرٹ نمایاں ہے۔ کئی کہانیاں ایسی ہیں جنھیں ایک بار نہیں کئی کئی بار پڑھنے پر بھی مسئلہ صاف نہیں ہوپاتا۔ منٹو کے افسانوں میں جو ابہام پیدا ہوتا ہے وہ محض اس بنا پر کہ قاری زمان و مکاں کا تعین نہیں کرپاتا۔ اسی لیے منٹو کی کہانیوں کو سمجھنے کے لیے قاری کا حساس ہونا ضروری ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر عتیق اللہ منٹو کے کچھ ایسے ناقدین پر نے سوالات کھڑے کیے ہیں جنھوں نے ان کے فن کی گہرائیوں تک پہنچے بغیر اچھے یا برے کا فیصلہ کرلیا۔ جلدبازی میں کوئی فیصلہ کسی بھی فنکار اور ان کی تخلیقات کے لیے بہت مضر ثابت ہوتا ہے۔
دوسرا مضمون ہے ’منٹو کو کیوں نہ اس طرح دیکھا جائے‘ یہ بہت اہم مضمون ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے منٹو کو اپنے انداز سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون میں منٹو کے معاصرین اور کچھ ان سے پہلے یا بعد کے افسانہ نگاروں کا آپسی تقابل کو بھی پیش کیا ہے اور کچھ منٹو کے ناقدین پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے کہ انھوں نے بغیر منٹو کو پڑھے اور سمجھے ہی ان پر اپنی رائے پیش کردی۔ یہ سچ ہے کہ اچھے ناقدین سبھوں کو نصیب نہیں ہوتے ہیں۔ بعض کو تو ان کی زندگی میں ہی اچھے ناقدین مل جاتے ہیں مگر بعض کو ان کی موت کے کئی برسوں بعد تک نہیں مل پاتے۔ شاید منٹو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ بہرحال پروفیسر عتیق اللہ نے اس مضمون میںمنٹو کی کہانیوں کے مرکزی خیال، واقعات، پلاٹ، کردار، تکنیک وغیرہ کے بارے میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ انھوں نے منٹو کے افسانوں کے کئی کرداروں کو بہت اچھے انداز میں قاری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے منٹو کے بیانیہ اور کرداروں کے تعلق سے لکھا ہے کہ:
’’منٹو کے بیانیہ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ مقبول عام فنی اوضاع یا فنی تدابیر کو فنی تدابیر کے طور پر وہ کہیں نہیں آزماتا اور نہ ان سے وہ کہیں پیش روی کاکام لیتا ہے۔ زندگی خود اس کے یہاں ایک مستقل آئرنی، ایک مستقل استبعادی حقیقت Paradoxical reality کا تاثر فراہم کرتی ہے جس کا سارا پیش و پس تضادات و تناقضات سے معمور ہے (موذیل، ممدبھائی، باپو گوپی ناتھ، فرشتہ، ٹیٹوال کا کتا، ٹوٹو) کوئی ایک تاثر، کوئی ایک واقعہ، کوئی ایک کیفیت، کوئی ایک صدمہ، کوئی ایک واردات اس کے افسانے کے مرکز میں ہوتی ہے اور جو ہمیں افسانے کے نفسیاتی تجزیے کے لیے بھی اکساتی ہے۔ (باسط، ہتک، نعرہ، خالی بوتلیں خالی ڈبّے، بلاؤز، دھواں، میرا نام رادھا ہے، مسٹر معین الرحمن، کتے کی دعا) اکثر واقعہ اور کردار میں سے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کہانی کی بساط میں بیان کنندہ کا قصد کسے ایک خاص شناخت یا مرکزی جو ہر طور پر نمایاں کرنا تھا (موذیل، بو، دوداپہلوان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، دس روپے، خوشیا،)۔ واقعے یا واقعے کو اس بساط میں رونما کرنے کی وہ شکل جو نعرہ یا ’ہتک‘ یا ’کالی شلوار‘ میں نظر آتی ہے۔ بابو گوپی ناتھ، نیا قانون، ٹیٹوال کا کتا یا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ حتیٰ کہ ’کھول دو‘ میں بھی افسانے کا بیش تر حصہ فضابندی کا تاثر فراہم کرتا ہے۔ منٹو واقعے کے بیان ہی کو اہمیت نہیں دیتا۔ اس کا موقف اسے ہوتے ہوئے دکھانا بھی ہوتا ہے۔ ‘‘(بیانیہ شناسی کا ایک سبق، ص 193)
آگے مزید لکھتے ہیں:
’’منٹو کی بہترین کہانیوں کی ایک سطح وہ ہے جو کسی ایک خاص Reader communityکے لیے نہیں ہے۔ وہ سب کے لیے ہے۔ دوسری سطح وہ ہے جو گہری سوجھ بوجھ کا تقاضہ کرتی ہے اور ہمارے ذہنوں کو ان سیاسی، اقتصادی، اخلاقی، نفسیاتی اور سیاسی اجبار اور محرکات کی طرف متوجہ کرتی ہے جنھیں منٹو نے ’ان کہا‘ Unsaid چھوڑ دیا تھا۔ فرشتہ، خالی بوتلیں خالی ڈبّے، ننگی آوازیں، سرکنڈوں کے پیچھے، جانکی، بو، دھواں، ہتک، نعرہ، بابو گوپی ناتھ کے علاوہ ایسی کئی کہانیاں ہیں جنھیں جتنی بار پڑھا جائے ہر بار کسی ایک نئے معنی کی گرہ ہم پر کھُلتی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 200)
تیسرا مضمون ہے ’مظفر علی سید کا منٹو‘۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس مضمون میں منٹو کو سمجھنے کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اکثر ناقدین نے منٹو کے افسانوں میںابہام کی جو بات کہی ہے، اس سے ممتاز شیریں اختلاف کرتے ہوئی کہتی ہیں:
’’منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں، نہ کوئی پوشیدہ اشارے ہیں۔ نہ کوئی پوشیدہ گتھیاں ہیں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیر یں ہوں، تہہ در تہہ معانی نکالے جائیں۔ یہ صاف کھلی سیدھی اور براہِ راست نوعیت کی تحریریں ہیں ، جن کا پیغام واضح ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 204)
مگر مظفر علی سید ممتاز شیریں سے اختلاف کرتے ہوئے نظرا ٓتے ہیں۔ اس بابت وہ لکھتے ہیں:
’’منٹو اتنا واضح اور اتنا دو ٹوک نہیں ہے کہ آن کی آن میں اپنے آپ کو دوسروں پر عیاں کر کے طمانیت کے نشے میں سرشار ہو جائے۔ منٹو تو مستقل ڈسڑب کرنے کا نام ہے…منٹو نے نام نہاد مہذب و مقطع حضرات سے لے کر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور عدلیہ کے اربابِ حل و عقد کو جس طور پر ڈسڑب کیا ، اس کی نوعیت اور فکشن کے قاری میں Disturbanceکی نوعیت میں بڑا فرق ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 205)
پروفیسر عتیق اللہ نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ آج وقت ہے منٹو کو صحیح طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کئی ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جہاں منٹو کے چند افسانوں کو چھوڑ کر نصاب میں بھی شامل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، محض اس بنا پر کہ ان کی فحش نگاری عام ہے۔ اس ضمن میں عتیق اللہ لکھتے ہیں:
’’… یہ ضرور ہے کہ ہمارے اکثر فکشن کے سیمیناروں میں منٹو کا نام بڑے افتخار سے لیا جاتا ہے بلکہ اردو معاشرے کے لیے وہ ایک Status symbol کا حکم رکھتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں تواب یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی بھی زبان نہ تو غالب جیسا شاعر پید ا کر سکی ہے اور نہ منٹو جیسا کہانی کا ر۔ لیکن آئرنی (Irony) یہ کہ یہ آوازیں جامعات کے اس تعلیمی ماحول میں بھی بلند ہوتی ہیں جہاں منٹو کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر کسی دباؤ کے تحت اسے شامل کر بھی لیا جاتا ہے تو بات نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آگے نہیں بڑھتی۔ ‘‘ (ایضاً، ص 205-206)
چوتھا مضمون ہے ’مادھو— منٹو کا ایک کردار‘۔ منٹو کے افسانوں کے کرداروں میں مادھو اور سوگندھی کا نمایاں طور پر نام لیا جاتا ہے۔ سماج میں ’سوگندھی ‘ ایک طوائف ہوتے ہوئے بھی اپنے اصول و نظریات، ایمانداری اور ایثار و قربانی کے لیے مشہور ہے۔ اس کے برعکس مادھو پولس محکمے میں ملازم ہوتے ہوئے بھی اپنی ریاکاری، عیاری، مکاری، جھوٹ، فریب وغیرہ کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مادھو نے اپنی حوالداری میں بڑے داؤ بیچ سیکھ رکھے تھے۔ اس نے اپنے ماحول میں جھوٹ اور سچ کے مابین محض باریک سے فصل کو محسوس کیا تھا۔ آن کی آن میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے رنگ ڈھنگ دیکھے تھے۔ وہ بھی جانتا تھا کہ ان مہذب غاصبوں اور جرائم منٹو کے کردار محض کردار نہیں ایسے افراد ہیں جو اپنی فطرت کے اسیر ہیں۔ وہ انسان ہیں اور حقیقی انسان ہیں۔ ماحول کا دباؤ ان پر شدید ہے لیکن ان سب سے جدا وہ زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک مختلف اندازِ نظر بھی رکھتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 218-219)
بہرحال پروفیسر عتیق اللہ نے اس مضمون میں جس طرح سے ان دونوں کرداروں کو مختلف اوقات و حالات میں ان کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
آخری مضمون ہے ’متشدد مشابہت ساز منٹو‘۔ اس مضمون میں عتیق اللہ صاحب نے منٹو کے افسانوں کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ منٹو سے زیادہ متشدد تشبیہات کسی اور کے یہاں نہیں ملتیں۔ منٹو نے تقریباً ہر افسانے میں نئی نئی تشبیہات ایجاد کی ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانے کا کوئی بھی منظر حقیقت سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی منٹو سماج کی پوشیدہ حقیقتوں کے اظہار کے لیے تلخیِ زبان سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک جگہ منٹو لکھتے ہیں:
’’ایک دن اسی کی سہیلی آئی— پاکستان میل موٹر نمبر 9612 پی ایل۔ بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں— پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنا بلاؤز اتارا اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہوگئی…‘‘ (افسانہ پھندے، ص 225-226)
مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، منٹو کے افسانوں کی تفہیم کا سلسلہ مزید آگے بڑھے گا اور اس سے منٹو اور اس کے افسانوں کو سمجھنے کے نئے نئے راستے وا ہوں گے۔
ان مضامین کے علاوہ عتیق اللہ صاحب نے راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں نامانوس علاحدگیوں اور رفاقتوں کا تناؤ، ستیارتھی کی یادوں سے ایک مکالمہ، قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی دنیائے حیرت خیز، جوگندرپال، کے ناول ’خواب رو‘ میں آئرنی کی نوعیت، ’نادید‘ ایک علامتی رزمیہ، نیر مسعود،کی افسانوی واہمہ سازی، انور سجاد کا ’خوشیوں کا باغ‘، ’موجِ ہوا پیچاں‘ ناول یا ناول کا محض امکان، فکشن کی تنقید اور ’کئی چاند تھے سرآسماں‘، آخری سواریاں: جس کی اپنی سریت اپنی مابعدالطبیعیات ہے، چینی کوٹھی اور ا سکی مخاطباتی منصوبہ بندی، ’دھمک‘ طاقت کے جبر کا اعلامیہ، موت یا زندگی کی کتاب، خواب، سراب، خواب، ایک پاگل تخلیقی فنکار کا پاگل بنانے والا ناول ’اس نے کہا تھا‘، شیموئل احمد کا گزرگاہ ’گرداب’، اللہ میاں کا کارحانہ ساخت اندر ساخت مطالعہ، ناول میں مضمناتی ساخت کے تقاضے اور ’چاند ہم سے باتیں کرتا ہے‘، خالد جاوید جو بار بار مرتا ہے بار بار پیدا ہوتا ہے ،اشعر نجمی آخر کیا چیز ہے، فلسفی، شاعر یا ناول نگار، ہیمنگ وے کا افسانہ بارش اور بلی، کہانی نامہ: بعد از آزادی بھی بہت اہم مضامین ہیں جنھیں قارئین کو اپنے مطالعے کا حصہ ضرور بنانا چاہیے۔
مشہور ناقد، محقق، شاعر، مترجمہ اور ناول نگار شمس الرحمن فاروقی کے ناول’فکشن کی تنقید اور کئی چاند تھے سر آسماں‘ پر گفتگو اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا بیانیہ مروجہ ناول سے الگ ہے۔ یہاں تک کہ ناول کی زبان، تکنیک اور پلاٹ میں بھی مروجہ اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ البتہ اس ناول کے کردار اور واقعات قاری کو ’آگ کا دریا‘ کی دوسری کڑی ماننے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس ناول کے مطالعے کے دوران قاضی عبدالستار کے ناولوں کے کردار بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔ فاروقی صاحب ایک جینوئن تخلیق کار ہیں۔ اس ناول میں انھوں نے اپنے کمال ہنر کا خوبصورت نمونہ پیش کیا ہے۔ بعض ناقدین اسے ناول کے بجائے داستان اور تاریخی واقعہ کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ناقدین شاید ناول کی قرأت کے بجائے فاروقی صاحب کے اس جملے پر ہی عمل کرنے لگ جاتے ہیں کہ ’’یہ تاریخی ناول‘ نہیں ہے۔ اسے اٹھارویں، انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘
شاید فاروقی صاحب قاری یا تنقید نگار کو اس جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں، کہ قرأت کے دوران ہوش مند رہنا بہت ضروری ہے، بغیر اس کے وہ تنقید لکھتے وقت گمراہ ہوسکتا ہے۔ بعض کتابوں کے متن میں اتنی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے کہ ایک یا دو بار کے مطالعے سے سمجھ میں نہیں آتیں، بار بار مطالعے کا تقاضا کرتی ہیں۔ عتیق اللہ صاحب کی رائے بھی اس ناول کے بارے میں یہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کو میں نے قریب دو برس پہلے پڑھا تھا اور ایک بک لیٹ میں نوٹس لے لیے تھے۔ ناول میں بھی پینسل سے جگہ جگہ نشاندہی کی تھی اور تھوڑی بہت حاشیہ آرائی بھی۔ لیکن اب یہ تمام چیزیں کتابوں کے انبار میں اس طرح دبی ہوئی ہیں کہ تلاش کرنے میں کافی وقت ضائع ہوگیا۔ عزیزی سرورالہدیٰ کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اسے فوراً فراہم کردیا اور میری مشکل آسان کردی۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ پہلی قرأت کا تجربہ کیا تھا۔ بس اتنا یاد رہا کہ پڑھنے سے پہلے (کہ یہ فاروقی کا ناول ہے) پڑھنے کے دوران (کہ ناول مجھے چھوڑ نہیں رہا تھا) اورپڑھنے کے بعد میں گہرے استغراق میں چلا گیا تھا۔ پورے دس دنوں میں ناول پورا ہوا… اس دوران میں انجانی اور انہونی کیفیتوں سے باہر نہیں نکل سکا… اب جبکہ دوسری بار اسے پڑھنے کی ضرورت پیش آئی تو چیزیں آہستہ آہستہ دوبارہ منکشف ہونے لگیں۔ اس ناول کے قاری کو اسے محض فکشن کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ وہ اگر فکشن کا باقاعدہ قاری نہیں ہے اور ناول نگار کی تنقید کی مرعوبیت کا نقش اس پر گہرا ہے تو دوچار صفحات پڑھنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کرکے پرے ہٹ جائے گا کہ یہ فکشن کہاں، سچے واقعات اور کرداروں کی بنیاد پر گڑھا ہوا پلاٹ ہے… ‘‘
(ایضاً، ص 318-319)
فکشن میں سچے یا جھوٹے واقعے کو ازسرِ نو خلق کرنے میں ہی فکشن نگار کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ اچھے فکشن نگار اپنے تخلیقی جوہر کا عمدہ ثبوت پیش کرتے ہوئے قاری کو قرأت کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ بھی ایک عمدہ ناول ہے، جس میں ناول کے تقریباً تمام اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ بس ضرورت ہے قاری کو ہوش و خرد سے مطالعہ کرنے کی۔ وہ ناقدین جنھوں نے اس ناول کو ’آگ کا دریا‘ کے مماثل یا قریب سمجھا ہے شاید انھوں نے اس ناول کا ایک نہیں کئی کئی بار مطالعہ کیا ہوگا۔ اس ناول کے بعض کردار تو ایسے ہیں جو قاری کے ذہن و دماغ میں طویل عرصے تک رہیں گے۔ بھلا ’وزیر خانم‘ کا نام کون بھول سکتا ہے۔ عتیق اللہ صاحب اس کردار کے ضمن لکھتے ہیں:
’’وزیرخانم یا من موہنی واقعتاً جیسی تھیں فاروقی کے ماہرانہ لفظی شبیہ سازی کے ہنر سے انھیں ازسر نو خلق کیا ہے بلکہ گڑھا ہے، اسی معنی میں ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کو بھی گڑھا گیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ Novelsare made اور فاروقی کا ناول بلاشبہ اپنے طرز و تکنیک کے اعتبار سے ایک منفرد ترین گڑھا ہوا اور ایک عہد ساز مہابیانیہ meta narrative ہے، جو چھوٹے چھوٹے بیانیوں کے درمیان اپنی ایک الگ ہی ڈھب دکھا رہا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 349)
کسی ناول کی محبوبیت اور مقبولیت کے مختلف زاویے ہوتے ہیں۔اس لیے بہتر ہوگا کہ کسی ناول کے مطالعے کے وقت دوسرے ناول سے موازنہ نہ کیا جائے۔ ہر ناول نگار کا اپنا طرز و اسلوب ہوتا ہے، جسے وہ اپنے انداز سے برتنے کی کوشش کرتا ہے۔
کتاب میں شامل تمام مضامین پر بحث نا ممکن نہیں ہے۔ عتیق اللہ صاحب نے ان مضامین میں تنقید کا جو معیاری اور عمدہ نمونہ پیش کیا ہے، ان پر الگ سے ایک ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ میں نے شروعات کے کچھ مضامین، ایک آدھ درمیان سے اور منٹو پر شامل سبھی مضامین کے تعلق سے تعارف پیش کیا ہے تاکہ قارئین کو اس کتاب میں شامل مضامین کی اہمیت و افادیت کے ساتھ انفرادیت کا بھی اندازہ ہوسکے۔ منٹو کے تعلق سے مضامین پر لکھنے کا خیال اس کتاب کے مرتب مشہور فکشن نگار، ڈراما نگار اور منٹو شناس محمد اسلم پرویز کی وجہ سے آیا۔ منٹو کے اہم نقادوں میں ان کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ منٹو کے ڈراموں کو اسلم صاحب نے اسٹیج پر پیش کیا ہے۔ سعادت حسن منٹو پر ان کی سعادت حسن منٹو- منٹو کے خطوط،سیاہ حاشیے اور حاشیہ آرائیاں جیسی کتابیں بھی منظرعام پر آچکی ہیں۔
محمد اسلم پرویز مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس اہم کتاب کو قاری سے روبرو کرانے کی پہل کی۔ اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر محمد اسلم پرویز صاحب رقمطراز ہیں:
’’عتیق اللہ نے فکشن کی تنقید میں کارنامے انجام دیے ہیں، یہ مضامین کیفیتی اور کمیتی اعتبار سے ان کی انفرایت کو ٹھوس صورت میں قائم کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے آنے والے ایام میںاردو افسانے پر تنقیدی و تحقیقی کام کرنے والو ںکے لیے ’بیانیہ کا ایک سبق: بیانات‘ یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی۔‘‘(ایضاً، ص 12)
’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ میں عتیق اللہ صاحب نے تنقید کا ایسا عمدہ اور اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے جو نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ کتاب کا مطالعہ سرسری کے بجائے گہرائی سے کرنا زیادہ کارآمد ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ فکشن کی تنقید سے دلچسپی رکھنے والے طلبا/طالبات کے علاوہ دیگر قارئین بھی اس سے بھرپور مستفید ہوں گے۔
فکشن شناسی میں عتیق اللہ کا فکری انفراد( ’بیانیہ شناسی کا ایک سبق‘ کے حوالے سے)-محمد اکرام
previous post