کافی میں شکر ڈالنے کے لئے منا سا ساشے کھولا تو اس میں معطر خنک ٹشو نکلا، میں اپنی یوکرینین شریک سفر سے باتیں کرنے میں اتنا مگن تھی کہ مہکتے بھیگے ٹشو کے ساشے کو شکر سمجھ بیٹھی- بھینی بھینی لیموں کی خوشبو بچپن کی سہانی وادیوں میں لے گئی جب ایک چار سالہ بچی نے حیدر آباد کی ایک تنگ سی گلی کے ایک وسیع گھر کی بہت وسیع چھت پر گرمیوں کی ایک ٹھنڈی خوش گوار رات، اپنے بہت زیادہ سفر کرنے والے پھپا کے ایک فضائی سفر کی نشانی ایسا ہی ایک ساشے کھولا تھا- افسوس تھا تو صرف اتنا کہ ایک دفعہ کھلنے کے کچھ دیر بعد ٹشوسوکھ گیا تھا اور خوشبو آہستہ آہستہ اڑ گئی تھی مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ خوشبو بھی ذہن کی ہارڈ ڈسک میں کہیں محفوظ ہو گئی تھی-
کل صبح ہیملٹن ائیرپورٹ سے اترنے کے بعد سے چھوٹی بہن حمیرا کے ساتھ بھرپور سولہ گھنٹے گزار کر میں اتنا تھک چکی تھی کہ جہاز کے ٹیک آف سے پہلے ہی تینوں سیٹیں خالی دیکھ کر ٹانگیں لمبی کر کے کمبل تان کر نیند کی وادی میں اتر گئی- پہلے ایئر ہوسٹس نے بیلٹ باندھنے کے لئے اٹھایا، پھر میری ہم سفرنے جو بہت دیر سے آن بورڈ ہوئی، اپنی سیٹ استمعال کرنا چاہی ـ میرے سمٹنے پر اس کا کہنا تھا کہ ہم دونوں شئیر کرسکتے ہیں ـ یعنی اس کا بھی سونے کا موڈ تھا- پھر کیا تھا پتہ نہیں کیسے ہم نے اپنے اپنے کمبل کھول کر تینوں سیٹوں کو بیڈ بنا لیا – گہری نیند میں پتہ ہی نہیں چلا وہ کب جاگی اور کب میں اپنی سیٹ پر سمٹ گئی- اس نے کھانے کے لئے اٹھانا چاہا تو صرف یہ پوچھ کر کہ اس میں گوشت ہے؟ اس کے ہاں کہنے پر پانی پی کر سو گئی-
رمضان کا مہینہ تھا مگر میرا سفر کی رخصت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ تھا- ویسے میں رات بورڈنگ سے پہلے بھانجی کی بنائی ہوئی چکن بریانی ایئرپورٹ پر ہی کھا چکی تھی- آنکھ کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا تو تیز چبھتی ہوئی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ٹی وی اسکرین کے نقشے کے مطابق جہاز سوئیڈن کے مرکز حکومت اسٹاک ہوم پر پرواز کررہا تھا لیکن نیچے زمین گہرے بادلوں میں چھپی ہوئی تھی- یہ بھی خوب تھا ہم تیز دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اسٹاک ہوم کے شہری گہری گھٹا سے- ہماری اگلی منزل یوکرین کا شہر خیو کوئی دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا-
٢٧ سالہ آئرین سے بات چیت شروع ہوئی تو اس نے اگلے ایک گھنٹے میں مجھے یوکرین کی تاریخ، سیاسی معاشی اور سماجی زندگی کا کریش کورس کروا دیا- تاریخ اور سیاست کو پڑھنا اور بات ہوتی ہے اور کسی ایسے فرد کے ذریعے اسے جاننا جس نے اسے خود یا اپنے ماں باپ دادا دادی کے ذریعے اسے بھگتا ہوا ہو ایک با لکل مختلف تجربہ ہوتا ہے- آئرین خیو سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک مضافاتی قصبے میں پلی بڑھی اور اب کینیڈا سے فنانس اور بزنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد ٹورنٹو میں ہی اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک بیس مینٹ میں رہ رہے تھی-
اس کا کہنا تھا کہ یوکرین تاریخ میں بہت کم آزاد رہا ہے- بات چیت ١٩٣٠ کی دہائی کے قحط سے شروع ہوئی جب یوکرینی پناہ گزین بڑی تعداد میں کینیڈا منتقل ہوئے- آئرین کا کہنا تھا وہ قحط نہیں تھا جینو سائیڈ یعنی نسل کشی تھی- روس کی کمیونسٹ حکومت نے یوکرین کے کسانوں اور زمینداروں سے زمین چھین کر اسے کمیونل فارمز میں بدل دیا تھا- زمین کے اصل مالکوں کو کمیونل فارمز میں کسان کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا- انکے انکار پر ان سے ہر چیز یہاں تک کے ذاتی استعمال کی غذا کا ذخیرہ اور انکے کپڑے تک چھین لئے گئے- یہ ایک مصنوعی قحط تھا جو اتنا شدید تھا کہ لوگ کتے بلیاں یہاں تک کہ اپنے بچے کھانے پر مجبور ہوگئے- آئرین کا کہنا تھا کہ اسکے دادا دادی اور نانا نانی اس قحط کے زندہ بچ جانے والوں میں سے تھے- اسکے بڑوں نے اسے بتایا کہ قحط کے دوران انہوں نے جنگل میں جا کر جنگلی غذا یہاں تک کہ پائن کے درخت کی کون پر گزارا کیا- آئرین کاکہنا تھا کہ اسکے دادا کمیونزم نامی معاشی نظام کے پیدا کردہ مصنوعی قحط کے نتیجے میں آدم خوری کے چشم دید گواہ تھے اور غذا کی تلاش کے ایسے ہی ایک سفر میں اسکے دادا نے ایک مکان میں پناہ لی جہاں کے کچن میں انہوں نے ایک بڑے برتن میں انسانی اعضا کو ابلتے ہوئے دیکھا- آئرین کا کہنا تھا کہ اس قحط کے نتیجے میں ملینز کی تعداد میں یوکرینین باشندے مارے گئے۔
آئرین یوکرین کے عثمانی سلطنت کا حصہ ہونے کے بارے میں کم جانتی تھی لیکن اس نے بتایا کہ اس کے اسکول کے کورس میں ایک ایسی عثمانی ملکہ کا تذکرہ موجود تھا جس کا تعلق یوکرین سے تھا- یوکرینی عوام اس تاریخی حقیقت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخ کے اس دور پر ایک ٹی وی شو بھی بنا ہے۔ یہ سلیمان کی چہیتی بیگم روسے لانا یا آئرین کے مطابق روخسے لانا کا تذکرہ تھا، جو پاکستان میں بھی ‘میرا سلطان’ نامی ترک سیریل کے بعد بہت مقبول ہو گئی ہیں- (گو جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ان خاتون کا تعلق کریمیا سے تھا جو اب یوکرین کے نہیں، روس کے قبضے تلے زندگی گزار رہا ہے-)
میں نے ان خاتون کا تذکرہ سن 2002 میں ہیرالڈ لیمب کی کتاب سلیمان عالی شان میں پڑھا اور بہت تفصیل سے پڑھا- مغلیہ سلطنت کے اورنگزیب کی طرح سلطان سلیمان کو بھی کوئی قابل وارث نہیں ملا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس نے اپنے ہاتھوں اپنا وارث مار ڈالا- تاریخ کے مطابق سلیمان کے ولی عہد مصطفیٰ کی گردن کو خود سلطاں کے حکم پر اس کے سامنے تیز مانجھے سے جسے غالباً تانت کا دھاگہ کہا جاتا ہے، اس کے تن سے جدا کر دیا گیا تھا-
اور پتہ نہیں اس امر میں کتنی صداقت ہے لیکن ہیرالڈ لیمب کے مطابق مصطفیٰ کے قتل پر سلطان کو راضی کرنے والی اس کی سوتیلی ماں روخسے لانا تھی، جس نے اپنے داماد بہرام کے ساتھ مل کر سلطاں کو یقین دلایا کہ مصطفیٰ فوج کے ذریعے سلطان سے بغاوت کر کے تخت پر قبضہ کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے اور کہنہ سال سلطاں اقتدار چھن جانے کے ڈر سے اولاد کشی کے قبیح فعل پر راضی ہو گیا اور ایسا کر کے سلطنت عثمانیہ کو ایک قابل وارث سے محروم کر گیا- عام طور سے سلیمان کا دور سلطنت عثمانیہ کا عروج سمجھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ عروج نہیں، بلکہ سلطنت کے زوال کا آغاز تھا- اس کے ایک فیصلے سے سلطنت کے مستقبل پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوئے، بلکہ زوال کی مہر ثبت ہو گئی۔ بعد ازاں ایمی نو نو کے قریب کسی جگہ بہرام جو سلطاں کا وزیر بھی رہا، کی بنوائی ہوئی مسجد میں ایک عصر کی نماز بھی پڑھنے کا موقع ملا-
خیر ہم بات کر رہے تھے یوکرینین ہم سفر کی۔ آئرین کا کہنا تھا کہ یوکرین سے کینیڈا بڑے پیمانے پر ہجرت انیسویں صدی میں ہی شروع ہو گئی تھی- یہ بات صحیح ہے کیونکہ میری اپنی رہائش ایڈمنٹن کی یوکرینین کمیونٹی کا شمار شہر کی قدیم ترین کمیونٹیز میں ہوتا ہے- یہاں تک کہ ١٩٣٨ میں جب شام اور لبنان سے آئے ہوئے کچھ امیگرنٹس نے ایڈمنٹن میں کینیڈا کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے فنڈ جمع کیا تو مسجد کے ڈیزائن کے لئے انہیں ایک یوکرینی آرکیٹکٹ کی خدمات حاصل کرنا پڑیں، جس نے اس سے قبل کوئی مسجد نہیں دیکھی تھی اور یوں مسجد الرشید کا طرز تعمیر ایک آرتھو ڈوکس چرچ جیسا ہے- ١٩٣٨ کی تعمیر شدہ یہ مسجد اب فورٹ ایڈمنٹن پارک نامی اوپن ایئر میوزیم میں منتقل کر دی گی ہے، مگر حکومت نے الرشید انتظامیہ کو متبادل جگہ فراہم کر دی ہے، جہاں اب شہر کی سب سے بڑی ایکٹیو مسجد موجود ہے۔
اس سوال پر کہ یوکرین میں مسلمان موجود ہیں؟ اس کا کہنا تھا کہ کریمیا کے تاتار باشندے مسلمان ہی ہیں، جنھیں کمیونسٹ روس نے جبری سائبیریا ہجرت پر مجبور کیا اور یوں وہاں بھی ملینز کی تعداد میں لوگ مارے گئے- کریمیا بھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، روخسے لانا کا تعلق دراصل کریمیا ہی سے تھا اور وہ اسی جنگ میں ترک سپاہیوں کے ہاتھ لگ کر سلطاں کے حرم کا حصہ بنی تھی-
استنبول کے تاریخی مرکز سلطاں احمت میں سنان پاشا مدرسہ میں لبنان کے ایک آئی ٹی ڈویلپر کا کہنا تھا کہ کریمیا سلطنت کا وہ حصہ ہے جو سب سے پہلے عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکلا۔ بعد ازاں کچھ عرصے یہ پولینڈ کا حصہ رہا۔ روس نے وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی بہت ستم ڈھائے۔ داغستان، کازقستان، کرغزستان، چچنیا اور دیگر علاقوں سے ملینز کو اسی طرح جبری منتقلی کروا کر ان کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کا روز گار، پیٹ پالنے کا ذریعہ ان سے چھین کر انہیں بھوک اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا-
گزشتہ سال ایڈمنٹن آرٹس کونسل کے لٹریری ایوارڈز میں مجھے جیوری ممبر کی حیثیت سے چنا گیا تو ایوارڈ کے پروپوزلس میں ایک ڈاکیومنٹری ایک سابق یوکرینین سولجر کی ایک یادگار کے خلاف بنائی گئی تھی۔ ڈاکیومنٹری بنانے والے کا اصرار تھا کہ اس یادگار کو گرا دینا چاہئے، کیونکہ اس سپاہی نے ہٹلر کی فوج میں کام کیا ہے، جبکہ یادگار خود یوکرینین کمیونٹی نے اپنے خرچ پر تعمیر کروائی تھی۔ آئرین کا کہنا تھا کہ یوکرینین عوام نے ہٹلر کا ساتھ اس لئے نہیں دیا تھا کہ وہ ہٹلر کو پسند کرتے تھے؛ بلکہ اس لئے کہ وہ روس کے جبر سے آزاد ہونا چاہتے تھے- خیر اس سب بات چیت میں جہاز کیو پر ٹیک آف کے لئے تیار ہو گیا۔
1 comment
کتابی ریفرنس اور خود نمای.. بس