بظاہر ایسا لگتا ہےکہ فرقہ پرستی کا وہ عفریت جو اپنی پوری خوفناکی کے ساتھ ہمارے سماج کو نگلنے کے لیے چنگھاڑتا ہوا بڑھ رہا تھا کہیں دبک کر بیٹھ گیا ہے۔ اس کی چنگھاڑ پر کسی نے لگام کس دی ہے۔ فاشزم کے کالے بادل جن سے خطرناک آندھیوں اور طوفانوں کی آہٹ آرہی تھی چھٹنے لگے ہیں۔ ظلم و جبر کی کالی اور مہیب رات پر انصاف اور امن کا سورج طلوع ہونے کے قریب ہے۔ وقت بدل رہا ہے، مطلق العنانی پر جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور بہت جلد حالات اس قابل ہوجائیں گے کہ راوی وقت کے کاغذ پر چین ہی چین لکھے گا۔ لیکن کیا سچ میں ایسا ہی ہوا ہے؟
ملک کی رگوں میں گزشتہ ایک صدی سے نفرت و تعصب کا جو زہر دھیرے دھیرے سرایت کرایا گیا تھا اس کا اثر ایک ہی جھٹکے میں تو زائل نہیں ہوسکتا۔ سماج کی نسوں میں خون بن کردوڑتے اس زہر کو باہر نکالنے کے لئے جراحت کا ایک مسلسل عمل درکار ہے۔ جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں مہینوں لگ جاتے ہیں مگر اس کو ڈھانے کے لئے صرف چند لمحے کافی ہوتے ہیں، اسی طرح دہائیوں پر محیط تخریب پر تعمیر کے لئے صدیوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ دو چار فاشستوں کو شکست دے کر یا کچھ سیاسی نعرے بازی کرکے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے فرقہ پرستی کے دیو کو قابو میں کرلیا ہے تو وہ در حقیقیت بے وقوفوں کی جنت میں رہتا ہے۔ نفرت کے زہر سے متاثر ذہنی مریضوں کے لیے صرف محبت کا تریاق ہی نہیں خلوص کے لمس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس وافر مقدار میں محبت کا تریاق دستیاب ہے نہ خلوص کا لمس، بس کچھ زبانی جمع خرچ کرنے والے نام نہاد طبیب موجود ہیں جن کی نیم حکیمی سے مریض جہاں دو چار لمحے کے لیے شفا یاب ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو وہیں گھنٹوں مرض کی شدت سے مغلوب ہوکر اور بھی زیادہ مقدار میں زہر چھننے لگتا ہے۔
شدت پسندی کے دیو کے پاس دولت اور اقتدار کا ایسا طلسم موجود ہے کہ جس کے سحر میں وہ اچھے اچھوں کو گرفتار کرکے اپنے بس میں کرسکتا ہے اور جو ایک بار اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے وہ بہت کم اس سے آزاد ہونے کی سعی کرتا ہے۔ اگر کوئی نادان اس نادانی پر اتر آئے تو پھر اس دیو کے پاس ایسے کئی چھلاوے موجود ہیں جن کی ہیبت دکھا کر وہ اُسے آسانی سے قابو میں کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہےکہ شدت پسندی کے اس دیو کو اگر کبھی لگتا ہے کہ اس کی اقتدار کی پالکی اٹھانے والے کہاروں کی تعداد کم ہورہی ہے تو وہ اپنی جادو کی چھڑی گھما کر اس تعداد میں آسانی سے اضافہ کرلیتا ہے، ماضی میں ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ اس لیے اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کہ پالکی اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی کراکر ہم نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ دیو حالات کی نزاکت کی وجہ سے فی الوقت خاموش ہے، جس دن اسے اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اس کی اقتدار کی پالکی کے لئے اور کہار چاہئیں تو وہ اپنی جادو کی چھڑی بلند کرے گا اور بس سب دیکھتے رہ جائیں گے، محبت کے تریاق پلانے کے دعویدار، نام نہاد طبیبوں کا ایک پورا گروہ اس کے کہاروں کے صف اول میں نظر آئے گا۔
حالات کو اگر سچ میں سدھارنا ہے تو پہلے ہمیں سدھرنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں یکتا پیدا کرکے ہی ہم شدت پسندوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر بکھرا ہوا ہجوم بن کر ہم نے نفرت کے سانپ کو کچلنے کی کوشش کی تو وہ بآسانی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے نشانے پر لے کر اس شدت سے ڈسے گا کہ ہم پانی بھی نہیں مانگ سکیں گے۔ یہ لڑائی ایک دو دن میں ختم ہونے والی نہیں ہے۔ فاشزم کے خلاف یہ جنگ صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں جاری رہے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں شدت پسندی کے دیو کے جبر سے محفوظ رہیں، سماج میں سرایت نفرت کے زہر کا اثر پوری طرح زائل ہوجائے اور معاشرہ انصاف اور امن کی فضا میں سانس لینے لگے، تخریب پر تعمیرکی حکمرانی قائم ہوجائے تو ہمیں سیاسی نعرے بازی اور وقتی سد باب سے بلند ہو کر ایسی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جس سے شدت پسندی، فاشزم، مطلق العنانی، ظلم و جبر اور نفرت و تعصب کے دیو اور ناگ ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہوجائیں۔ خدا ہمیں سمجھ دے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)