عبدالعزیز / معصوم مراد آبادی
دہلی میں 23، 24 اور25 فروری کو وہی سب کچھ ہوا جو جرمنی میں 80 سال پہلے ہوا تھا۔ یہودیوں کی نسل کشی یا قتل عام ہٹلر نے کرایا تھا۔ پولس بلوائیوں کی مدد کر رہی تھی یا تماش بیں بنی ہوئی تھی۔ بالکل یہی منظر تین چار دنوں تک دہلی میں بھی تھا۔ ایک مخصوص فرقہ کو انسان نہیں بلکہ مسلمان سمجھ کر درندہ صفت انسان نسل کشی یا قتل عام کر رہے تھے۔ اس کیلئے 23 فروری سے پہلے یہاں کی فضا کو زہر آلود اور نفرت انگیز بنایا گیا تھا۔ کسی نے گولی مارنے کا نعرہ بلند کیا تھا، کسی نے ہندو بھائیوں کو خوفزدہ کیا تھا کہ الیکشن بعد شاہین باغ کے مسلمان ہندوؤں کے گھروں میں داخل ہوکر بہنوں اور بیٹیوں کا بلتکار اور قتل کریں گے۔ کسی نے شاہین باغ کو پاکستان سے تشبیہ دی تھی اور انتخابی مقابلہ کو ہندستان اور پاکستان جیسا بتایا تھا۔ ان سب کے گرو نے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سلیم پور میں دھرنے اور احتجاج کو ’سنجوگ‘ (اتفاقیہ) نہیں ’پریوگ‘ (تجربہ) بتایا تھا، کہاکہ ایسے لوگوں کا ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ ہے۔ دوسرے گرو جن کو چانکیہ بھی کہتے ہیں انھوں نے ووٹروں سے اپیل کی تھی کہ ووٹ دیتے وقت ای وی ایم کے بٹن کو اس قدر زور سے دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ گیارہ بارہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی دہلی اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران بلا روک ٹوک زہر اگلتے رہے۔ جس سے ماحول بالکل نفرت انگیز اور فساد انگیز ہوگیا۔ 23فروری کو جعفر آباد میں دھرنے پر بیٹھی خواتین سے محاذ آرائی کیلئے بدنام زمانہ کپل مشرا اپنے پیادہ سپاہیوں کے ساتھ پہنچے۔ دہلی کے شمالی علاقے کے ڈی سی پی کی موجودگی میں انھوں نے دھمکی دی کہ اگر تین دنوں کے اندر دھرنا ختم نہیں کیا گیا تو وہ بزور بازو ہٹا دیں گے۔
معصوم مرادی کے قلم سے:تین دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہنے والی اس قتل وغارت گری میں 50 سے زائد بے گناہ اور بے قصور لوگ دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں۔سینکڑوں اسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں اور ہزاروں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اربوں روپے کی املاک جلا کر خاک کردی گئیں ہیں۔تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل مشرقی دہلی کی آبادیوں مصطفی آباد، کھجوری، چاند باغ، کراول نگر اور موج پورمیں تباہی وبربادی کے دلخراش مناظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں دشمن کی فوج نے بمباری کی ہے اور زندہ رہنے کے تمام اسباب فنا کردئیے گئے ہیں۔ زندگی بھر کی محنت ومشقت کے بعد جمع کئے گئے اپنے مال واسباب کو کہیں راکھ اور کہیں کھنڈروں کی شکل میں دیکھ کر مجبور ولاچار لوگ دھاڑیں مار مار کر رورہے ہیں۔ان میں بے شمارغریب ایسے ہیں جودوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوپائیں گے۔ جس وقت تباہی اور بربادی کی یہ داستان راجدھانی دہلی کی غریب آبادیوں میں قلم بند کی جارہی تھی تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ راجدھانی میں ہی موجود تھے۔کہا جاتا ہے کہ پولس ان کو تحفظ دینے میں مصروف تھی‘اسی لئے وہ دہلی کے فساد زدہ علاقوں پر توجہ نہیں دے سکی۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو پولس والے فساد زدہ علاقوں میں موجود تھے‘ وہ لاچار اور مظلوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے فسادیوں کی مدد کررہے تھے۔ملک کی سب سے زیادہ پیشہ ور قرار دی جانے والی دہلی پولس کا فرقہ وارانہ کردار تو اسی وقت بے نقاب ہوگیا تھا جب اس نے جامعہ ملیہ کے طلبا پر قہر ڈھایا تھا۔پولس اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے میں مشغول تھی۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ یہ ملک کا پہلا فساد ہے جس کی تیاری اعلانیہ طور پر کی گئی تھی۔
گزشتہ دو ماہ سے حکمراں جماعت کے لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی اور دھمکی آمیز زبان استعما ل کررہے تھے۔پولس خاموش تماشائی کے کردار میں نظر آرہی تھی۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ نفرت کی جو فصل بوئی جارہی ہے‘ اس کا نتیجہ کتنا بھیانک برآمد ہوگا۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ تھا اورشرپسندوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ میدان میں اتارا گیاتھا کہ وہ کچھ بھی کرلیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر نے دہلی پولس سے اس کی بے عملی پر سوال کیا اورزہر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔جن دوسرے ججوں کو اس مقدمے کی ذمہ داری سونپی گئی،انھوں نے اٹارنی جنرل کی منشا کے مطابق اس معاملے کی سماعت ایک ماہ کیلئے ٹال دی۔ اس طرح ان بی جے پی لیڈروں کو کسی قانونی کارروائی کا کوئی خوف نہیں رہا‘جنھوں نے حملہ آور وحشی درندوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بھرا تھا اور جس کے نتیجہ میں انھوں نے بلا خوف وخطر شمال مشرقی دہلی میں جہنم کی تخلیق کی ہے۔ دہلی پولس ابھی تک ان لوگو ں کی شناخت نہیں کرپائی ہے جنھوں نے درندگی اور بربریت کی انتہائی وحشت ناک داستانیں قلم بند کی ہیں۔ ہاں پولس نے قربانی کے بکروں کی تلاش شروع کردی ہے۔
آنے والے دنوں میں بلی کے مزید بکروں کو تلاش کرکے انھیں فساد پھیلانے کا مجرم گردانا جائے گا اور اس بات کی پورا امکان ہے کہ باقاعدہ پولس کے تحفظ میں فساد پھیلانے کی دھمکی دینے والے کپل مشرا سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ نہ ہی بی جے پی کے انتخابی جلسہ میں دیش کے غداروں پر گولیاں برسانے کے نعرے لگوانے والے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی دہلی کی مسجدوں پر بلڈوزر چلوانے کی کھلے عام دھمکیاں دینے والے پرویش ورما کو کوئی گزند پہنچے گی۔ کیونکہ ان تمام لوگوں کو حکومت اور وزیرداخلہ امت شاہ کا تحفظ حاصل ہے جو دہلی پولس کو کنٹرول کرتے ہیں۔فسادیوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت تھی کہ انھوں نے کئی مسجدوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ان کی میناروں پر بھگوا جھنڈا پھیرا دیا گیاہے۔ظلم وبربریت کی داستانیں اتنی ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب بھی کم ہوگی۔ اپنی تباہی اور بربادی، درندگی اور سفاکی کے اعتبار سے یہ حالیہ تاریخ کا سب سے خوفناک فساد ہے۔امید کی کرن صرف اتنی ہے کہ کئی ہندوؤں نے اپنے مسلمان پڑوسیوں کی اور کئی مسلمانوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی جانیں اپنی جانوں پر کھیل کر بچائی ہیں۔
شمال مشرقی دہلی کے جن علاقوں میں تباہی وبربادی کی داستانیں رقم ہوئی ہیں انھیں عرف عام میں جمنا پار کہا جاتا ہے۔یہاں غریب لوگوں کی انتہائی گھنی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے بیشتر یومیہ مزدور ہیں اور باقی لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں۔ تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل جمنا پار کی ان آبادیوں میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، لیکن ان آبادیوں کی خوبی یہ رہی ہے کہ یہاں کے ہندو مسلم باشندوں نے ہمیشہ بنیادی ضرورتوں سے سروکار رکھا ہے اور وہ فرقہ وارانہ موضوعات سے دور رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جگہوں پرمسلمان، ہندوؤں کے مکانوں میں اور کچھ ہندو مسلمانوں کے کرایہ دار ہیں۔ملی جلی آبادیوں میں لوگوں کے مذہب کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ لوگ زندگی کے جن مسائل سے ہرروز جوجھتے ہیں، ان میں انھیں اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ ان موضوعات پر سوچ سکیں۔ لیکن گذشتہ ایک ہفتہ کے واقعات نے ان سب لوگوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ گذشتہ پیر، منگل اور بدھ کے روز ان علاقوں میں جس طرح چن چن کر مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور کارخانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس نے تمام لوگوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ دہلی میں وہی سب کچھ دہرایا گیا ہے جو2002ء میں گجرات کی سرزمیں پر مسلمانوں کے ساتھ ہواتھا۔ وہاں بھی پولس اور سرکاری مشنری کی مدد سے وحشی درندوں کو مسلمانوں کے قتل وغارت گری کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی اور یہاں دہلی میں بھی تین روزتک جمنا پار میں فسادیوں کو پوری آزادی کے ساتھ سب کچھ کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ تین روزبعد اس وقت کرفیو نافذ کرنے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دئیے گئے جب سب کچھ تباہ وبرباد ہوچکا تھا۔ گجرات کی نسل کشی کے دوران بھی یہی سب کچھ ہواتھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کون تھا۔ کیونکہ سبھی لوگ ان کے نام اور کردار سے واقف ہیں۔
گولی مارنے کا نعرہ امیت شاہ کے دورہ کے موقع پر کلکتہ میں بھی لگایا گیا۔ 20 لوگوں میں سے اب تک 6 کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ گولی مارنے والوں کے یا انسانیت کے دشمنوں کے خلاف عوامی تحریک سے ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحریک جاری رہنی چاہئے جب تک انسانیت کے دشمنوں یا گولی مارنے والوں کی آواز بند نہ ہوجائے۔ ملک کی عدلیہ کا رویہ مایوس کن ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ کے اندر بیداری آئے گی اور دستور ی مشنری کے بریک ڈاؤن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)