Home اسلامیات فرض نمازوں کے بعد دعا لازمی کیوں سمجھی جاتی‌ ہے ؟ – مسعودجاوید

فرض نمازوں کے بعد دعا لازمی کیوں سمجھی جاتی‌ ہے ؟ – مسعودجاوید

by قندیل

الحمدللہ تعلیمی بیداری دینی اور دنیوی دونوں سطح پر کم و بیش آئی ہے، عام مسلمان بھی اب دین کی باتیں سمجھنے لگے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمت اور ناصحانہ انداز میں قرآن و احادیث سے مزین سادہ انداز میں لوگوں کو سمجھایا جائے۔ حکم نہ کیا جائے ۔ اور ایسا کچھ تاثر نہ دیا جائے کہ العوام کالانعام کہ عوام تو چوپائے کی طرح ہیں۔ بعض اوقات یہ مثل کہہ کر ان کو یہ احساس کرایا جاتا ہے کہ عوام "حضرت” کی بات بغیر سوچے سمجھے تسلیم کرلیں ۔
دعا نماز کا حصہ نہیں ہے لیکن ہندوستان ،پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مساجد میں فرض نمازوں کے بعد دعا کا اہتمام ہوتے ہوتے اسے نماز کا جز بنا دیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص امام صاحب کے ساتھ دعا میں شریک نہ ہو ، کسی ضرورت کے تحت اٹھ کر جاتا ہے یا سنن و نوافل کے لئے اٹھ جاتا ہے تو اسے پسند نہیں کیا جاتا ہے ، مقتدی حضرات گھور کر دیکھتے ہیں جیسے اس نے نماز کا کوئی رکن یا شرط پوری نہ کی ہو۔
عموماً نماز کے بعد ائمہ حضرات دعا کراتے ہیں اور مقتدی حضرات آمین کہتے ہیں۔ دعا کے کلمات عموماً حمد و صلوٰۃ اور بعض ادعیہ ماثورہ ہوتے ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن یہ سب ہم نے نماز میں پڑھ لیا سن لیا یا امام نے ہماری طرف سے ادا کر دیا اب دعا ہر شخص کی اپنی اپنی حاجت روائی کے لئے کی جانی چاہیے اور ضروری نہیں کہ وہ عربی زبان میں ہو ۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ خفی آواز میں کچھ دعا پڑھتے ہیں اور مقتدی بغیر سمجھے آمین کہتا رہتا ہے اور اس طرح وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين پر دعا ختم کی جاتی ہے۔
مقتدی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی بات اللہ سے گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کے سامنے رکھے اس کے گھر میں کوئی مریض ہے اس کی شفا یابی ، کسی کا انتقال ہو گیا اس کی مغفرت ، کوئی مقروض ہے اس کی ادائیگی ، کوئی جائز ناجائز مقدمات میں ماخوذ ہے اس سے خلاصی، کسی کو بیٹے بیٹیوں کے لئے مناسب رشتے میں آسانی ، کسی کو ظالم کے ظلم سے پناہ، کسی کو بیوی کی ہم مزاجی اور بچوں کی فرمانبرداری ، کسی کو گھر والوں کی اقامت صلوٰۃ اور دینی احکام پر گامزنی، کسی کو تجارت میں خیر و برکت ، کسی کو ملازمت اور زراعت میں ترقی اور برکت ،اور عام مسلمانوں کو شہر اور ملک میں امن و امان، یعنی جو جو ضرورتیں ہیں ان کی حاجت روائی کے لئے خود دعا کریں۔
"دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے”

جس زمانے میں ناخواندگی عام اور بالخصوص دین کے علم حاصل کرنے اور سمجھنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور ذہن میں یہ رہتا تھا کہ دعا عربی میں ہی ہونی چاہیے اس لیے امام صاحب دعا کراتے تھے اور امام صاحب نے جو پڑھا بیچارے مقتدی اس کو سمجھے بغیر ہی آمین کہتے تھے اور ہیں ۔
صدیوں سے رائج یہ طریقہ ایک دن میں ختم نہیں ہوگا اس کے لئے ائمہ حضرات کو مقتدیوں کی تربیت کرنی ہوگی اور اس ” لازمی دعا” میں کبھی کبھی ناغہ کرنا ہوگا اور جس دن ناغہ ہوگا بعض مقتدی چیں بہ جبیں ہوں گے اس وقت ان کو صحیح طریقہ سمجھانا ہوگا۔
دعا اللہ سے گریہ و زاری کر کے یا آہستہ آہستہ رازونیاز میں اللہ سے کہنے کا نام ہے۔ اس کے لئے کسی مخصوص و متعین اوقات اور ہیئت مقرر نہیں ہیں۔ جس وقت اور جس ہیئت میں آپ کا زبردست رابطہ اللہ سے ہوجائے ویسی ہی دعا قبول ہوتی ہے۔ دعا کے لئے اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے اسے اپنے سامنے ہونے کا بھر پور تصور اور یہ یقین کہ وہ میرے سامنے ہے میری باتیں سن رہا ہے اور یہ یقین بھی کہ میری حاجت روائی ضرور کرے گا جو مانگ رہا ہوں اسے اسی وقت دے کر یا میرے لئے جو بہتر ہے اسے ابھی یا اگر مصلحت تاخیر میں ہے تو بعد میں وہی یا اس سے بہتر دے گا۔
ہماری تمام ضروریات کے لئے دعاء ماثورہ یعنی جن دعاؤں کو اللہ نے قرآن مجید میں ذکر کیا اور جن دعاؤں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھایا وہ دنیا اور آخرت کے ہمارے مسائل سے متعلق ہیں اس لئے ہمیں ان دعاؤں کو ترجمہ کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ تاہم دعا اللہ کو پکارنے کا نام ہے جس وقت جتنی پریشانی میں آپ ہوں گے اتنے ہی تضرع سے اور خفیہ، دل سے پکاریں گے۔ اللہ سے اپنی بات کہنے کے لئے ضروری نہیں ہے آپ رٹے رٹائے رسمی طور پر بعض کلمات اپنی زبان سے ادا کریں اللہ ہمارے دل کی آواز سنتا ہے اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ مانگو ہم تمہاری فریاد سنتے ہیں ہم تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ کسی بھی زبان میں مانگو کسی بھی وقت مانگو لیکن یقین کے ساتھ مانگو اور ناممکنات مت مانگو کہ چاند تارے میرے ہاتھ میں دے دے اللہ ! اس لئے کہ اللہ نے اس دنیا کو دارالاسباب کہا ہے اس نے یہ نظام بنایا ہے آگ لگے تو اس پر پانی ڈالو یا آگ بجھانے کے دوسرے ذرائع fire extinguisher استعمال کر کے اس کو بجھاؤ نا کہ دعا کی پھونک مارو ۔ مرض ہے تو علاج کراؤ نہ کہ صرف دعا پڑھ کر دم کرو ۔‌ شفاء دینا اللہ کے اختیار میں ہے لیکن علاج کو اللہ نے ذریعہ بنایا ہے۔ رزق میں کشادگی کے لئے سبب یعنی کام کرنا ہوگا، دنیاوی اسباب پورے کرنے ہوں گے ، کوشش کرتے رہنا ہوگا اور اللہ سے دعاء کرتے رہنا ہوگا ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احرص على ما ينفعك، واستعن بالله ولا تعجز‏.‏ وإن أصابك شيء فلا تقل‏:‏ لو أني فعلت كان كذا وكذا، ولكن قل‏:‏ قدر الله، وما شاء فعل۔
اپنے منفعت کے کاموں کے لئے کوشش کرتے رہو اور اللہ سے دعا بھی کرتے رہو اور کام نہ ہو تو بد دل ہو کر عاجز مت آؤ سرینڈر مت کرو ۔ اور اگر کام نہ ہو تو یہ مت کہو کہ کاش میں ایسا کرتا تو یہ کام ہو جاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ نے میرے حق میں جو فیصلہ کیا ویسا ہی ہوا اور اللہ نے جیسا چاہا ویسا ہوا۔ یہاں سرینڈر کرو۔
افوض امري الى الله.. میں اپنے معاملات اللہ کے حوالے کرتا ہوں ۔

You may also like

Leave a Comment