Home تجزیہ فرض کیجیے ، جو آپ کر سکتے ہیں

فرض کیجیے ، جو آپ کر سکتے ہیں

by قندیل

مشرّف عالم ذوقی
ملک کے نفع نقصان کے درمیاں کبھی کبھی سردار پٹیل کی بات یاد آتی ہے ، پٹیل ہندو تھے مگر انتہا پسند نہیں،انتہا پسند ہوتے تو آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی بات نہ کرتےـ پٹیل اس لئے یاد آئے کہ ہمارے ناگپور سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس بوبڈے نے بھی تسلیم کیا کہ حالات پر تشدد بھی ہیں ، خراب بھی ـ مجھے پٹیل کے بعد پریم چند یادآئے، ان کی کہانی پنچ پرمیشور یاد آئی، پھر یہ خیال آیا کہ عدالتی منصب بھی کم بوجھ نہیں ـ یہاں غلط ہوتے ہوتے کرسی عہدے کی یاد دلا دیتی ہے،مگر بوبڈے کے اس بیان نے یہ تو صاف کر دیا کہ جے این یو میں ٹھیک نہیں ہواـ بوبڈے سمجھتے ہیں کہ دو تاجروں نے ملک کو غلط راہ پر پھینک دیا ہےـ پھر مجھے ریزرو بینک کے سابق سربراہ اور امبانی کے چہیتے کا چہرہ یاد آیاـ وہ اتنا خوفزدہ تھا کہ فسطائی نظام سے نکل کر خود کو گمنامی کے سفر میں ڈالناچاہتا تھاـ فرض کیجئے پریم چند کے پنچ پرمیشور زندہ ہیں اور آر ایس ایس کو قریب سے پہچاننے والے سردار پٹیل جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کیسی تبدیلی لا سکتا ہے ، تو انتظار کیجئے ، ان چڈیوں میں سے بھی انقلاب نکلے گا اور باطل حکمرانوں کی نیند ختم ہو جاےگی ـ
فرض کیجئے خطرہ بڑا ہے اور ان کے ارادے ہلاک کرنے والے( جبکہ ایسا فرض کرنے کی ضرورت نہیں)
اور فرض کیجئے کہ اس بات کا بھی احساس ہو کہ ہماری آبادی برف کی بڑی بڑی سلیوں کے درمیان بدبودار لاش کی طرح ہے،جس کے اندر زندگی کی کوئی رمق، کوئی نشانی باقی نہیں۔( ایسا ہو سکتا ہے)
اور فرض کیجئےایک ایسا منظر سامنے ہو کہ یہ کم ہوتی آبادی کسی لاش کی طرح، ایک جگہ جمع ہو کر ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے موت کی دعا مانگ رہی ہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ودرنگ ہائٹس میں، ہیٹھ کلف کھڑکی کے پاس ، سہما ہوا اپنی محبوبہ کی روح کو آواز دیتا ہے۔ کہاں ہو تم ..آہ جاؤ ..میں منتظر ہوں ..آہ .. اور فرض کیجئے ..یہ آپ اور ہم سب ہوں اور ہمیں نازیوں کے گیس چمبر میں ڈالنے کی تیاری مکمل ہو،مرنے کے لئے اور فرض کیجئے کسی کو انصاف پسند عہدے کی یاد آ جاتی ہےـ ٹھیک بوبڈے کی طرح( اور یاد رکھئے کہ ابھی بھی عدلیہ پر ہمارا بھروسہ قائم ہے )
جب تک بھروسہ قائم ہے ، یقین کے راستے روشن ہیں ، تب تک تبدیلی کا انتظار تو کرنا ہوگاـ الگزنڈر سولسنٹین کا ناول، گلاگ آرکپلا گو کا ایک منظر ہے۔ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جارہا ہو تا ہے۔ ایک دوسرا شخص آواز دیتا ہےاور اس سے کہتا ہے کہ اسے بس دو منٹ چاہیے۔ بیوی کے ساتھ جو شخص ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ دومنٹ، دوبرس بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ دو منٹ کے بعد اسے اس دنیا سے دور کسی موت کے سیارے میں بھیج دیا جائے،کیونکہ اسے حکومت کے خلاف بولنے کے جرم میں سزا سنائی جاچکی ہے۔
پاکستان میں جب ضیاءالحق کی حکومت تھی، تو پاکستانی افسانہ نگار نعیم آروی نے اپنے افسانہ ہجرتوں کی مسافت میں کچھ اسی طرح کی وحشت اور کرب کا اظہار کیا تھا۔ سچ پر پابندی تھی۔ بولنا منع تھا۔
ہندوستان میں اندرا گاندھی نے1975 میں ایمرجنسی لگائی تو خوف کا ماحول تھا لیکن احتجاج کرنے والے بھی تھے اور احتجاج کرنے والوں میں میڈیا کا بڑا رول تھا۔
بھوپال انکاﺅنٹر پر لکھنؤ میں رہائی منچ سے وابستہ ذمہ دار رکن کو احتجاج کرنے پر پولیس بے دردی سے پیٹ ڈالتی ہےاور یہ حادثہ رکا نہیں ، ٢٠٢٠ میں بھی جاری ہے، رہائی منچ کے ساتھ اس وقت ایک بڑی دنیا ہمارے ساتھ ہے، شاہین باغ سے احتجاج کرنے والوں کو نکالنے کی پٹیشن بھی عدالت نے خارج کر دی ہےـ فرض کیجئے ہماری عدالتیں بے خواب کواڑوں کو کھول کر بیدار ہو جاتی ہیں، مکمل طور پرـ فرض کیجئے میڈیا کے پیٹ پیسوں سے بھر چکے ہوں اور میڈیا اظہار رائے کی آزادی پر لوٹ آئی ہو ـ ایک جزیرہ نما ہے پانیوں کے درمیان ،اس جزیرے میں خوفناک مگرمچھ رہتے ہیں، فرض کیجئے سابق جج لویا کا بھوت زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہےـ
فرض کیجئے ، کیونکہ آپ ہندوستان میں ہیں،یہاں جمہوریت کے افسانے مجروح ہوتے ہیں تو ہر شاخ سے شاہین باغ پیدا ہوتا ہےـ
یہاں قدم قدم پر کنہیا ، رویش کمار ، ابھیسار اور لاکھوں لوگ ہیں جو کہتے ہیں خوشگوار دنوں کے لئے ، روشن مستقبل کے لئے فرض کیجئے، فرض کیجئے کہ ہندوستان باقی رہے گا،کیونکہ اچھے دنوں کے نام پر جزیرہ نما تری پار میں رہنے والے نفرت کے سوداگر ملک کا امن و سکون غارت کر چکے ہیں ـ
ہٹلر سے ایدی امین تک ظالم و جابر حکمرانوں کی تفصیلات سامنے ہیں،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خوف کی حکومت قائم کرنے کے لئے ہر اصول ہر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا،ہر ناجائز کو جائز بنا دیا،آج ہم میں سے ایک نجیب گم ہوا ہے،کل ہزاروں گم ہوں گے،آج احتجاج کرنے والے مارے جا رہے ہیں،کل ہزاروں پر آفت آئ گی اور کوئی آواز نہیں بلند ہوگی،ظلم کی طاقت اور بربریت کی چھاؤں میں آواز بلند کرنے والے بھی خوف زدہ اپنے گھروں میں بند ہوں گے کہ کوئی نا گہانی حادثہ ان کے ساتھ نہ پیش آ جائےـ آج اظہاررائے کی آزادی پر بندش لگائی جا رہی ہے،کل حکومت کے عتاب کا شکارہوکر بہت سے دروازے بند ہوں گےـ کیا اسکے بعد کوئی سچ بولنے کا حوصلہ کرےگا ؟ جبکہ ملک میں آتش بیانی اور زہر پھیلانے والی آر ایس ایس جیسی جماعتوں پر کویی پابندی نہیں ہےـ
فرض کیجئے کہ ہم پچیس کروڑ نہیں ، ایک سو پچیس کروڑ سڑکوں پر آ گئے، تب ان فسطائی جزیروں کا کیا ہوگا ؟ اور ہم آئیں گےاور ہم نے شروعات کر دی ہےـ
مجھے آخر میں رام ناتھ گوئنکا کی یاد آ رہی ہے ـ ایک صحافی کی ایک منسٹر نے تعریف کی ، تو گوینکا نے اس صحافی کو نکال دیا، عمدہ صحافت کی ایک مثال چار برس قبل سامنے آئی،جب ٹائمز آف انڈیا کے صحافی اکشے مکل نے مودی کے ہاتھ سے ایوارڈ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے ساتھ ایک فریم میں ہونے کا خیال ہی میری زندگی کو جہنم بنا دے گاـ
اظہار رائے کی آخری کھڑکی بند ہوئی تو زندگی موت سے بدتر ہو جائےگی ـ
فرض کیجئے جزیرہ نما تباہ ہو چکا ہے، آپ ایک نئے ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں ـ

You may also like

Leave a Comment