بہت سے تعلیمی اداروں بالخصوص مدرسوں کی تاریخ – یہاں تاریخ سے میری مراد ان اداروں اور مدرسوں کے فارغین کے تصنیفی کارنامے ہیں – تاریکی میں چھپے ہوتے ہیں ، کیونکہ ان کارناموں کو ان اداروں اور مدرسوں سے ، جہاں سے کارنامے انجام دینے والے فارغین نے علم کی روشنی حاصل کی ہے ، وابستہ نہیں کیا جاتا ، کارنامے ذاتی قرار دے دیے جاتے ہیں یا فراغت کے بعد جن تعلیمی اداروں سے فارغین وابستہ ہوجاتے ہیں ان کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔ کچھ قصور اگر ان تعلیمی اداروں اور مدرسوں کا ہے کہ وہ اپنے فارغین کے رابطے میں نہیں رہتے تو کہیں زیادہ قصور ، استثنات کے ساتھ ، فارغین کا ہے کہ وہ فراغت کے بعد اپنے اداروں اور مدرسوں کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ ’ اشاریہ فارغینِ جامعۃ الفلاح کی ادبی خدمات ‘ کے مطالعے نے مجھے چونکایا ہے ، حیرت میں ڈالا ہے ۔ ایک انجمن ہے ادیبوں کی ، شعراء اور محققین و مترجمین کی ، جن میں سے اکثر عالمی سطح پر معروف ہیں ، ملکی سطح پر تو اُنہیں پڑھے لکھے لوگ جانتے ہی ہیں ۔ بہت سے ناموں کو دیکھ کر مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ ان کا تعلق جامعۃ الفلاح ، اعظم گڑھ سے ہے ۔ مثال امتیاز وحید اور عمیر منظر کی ہی لے لیں ، جنہوں نے بڑی محنت سے اس اشاریے کو مرتب کیا ہے ، میں بس یہ جانتا تھا کہ ان کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے اور یہ کسی اسکول و کالج کے فارغین ہیں ۔ لیکن اشاریہ میں کتنے ہی نام ایسے بھی ہیں جن کا جامعۃ الفلاح سے رشتہ جَگ ظاہر ہے ، آج یہ کسی اور تعلیمی ادارے یا کسی اور میدان میں اعلیٰ عہدے پر ہیں ، لیکن اپنی مادرِ علمی کو ، جہاں سے انہوں نے سب کچھ سیکھا ہے ، بھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ عبید اللہ فہد فلاحی کی مثال لے لیں جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں پروفیسر ہیں ۔ میرے کہنے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ فلاحی کا لاحقہ لگانا ضروری ہے ، نہیں ، ضروری ہے اپنی مادرِ علمی کو ، جہاں سے شعر و ادب ، تحقیق و تنقید اور تصنیف و تالیف اور تراجم کی دنیا میں قدم رکھنے کی خواہش پروان چڑھی ، یاد رکھنے اور اس پر فخر کرنے کی ۔
یہ کتاب ایک کارنامہ ہے ، اور یہ کارنامہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ جامعۃ الفلاح اور اس کے تحت کام کرنے والے ’ ادارۂ علمیہ ‘ کے ذمے داران اور اس کتاب کے مرتبین کو اپنے ادارے سے محبت ہے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ، اشاریہ سازی کا کام آسان ہوتا بھی نہیں ہے ۔ اگر کسی ایک رسالے کا اشاریہ ترتیب دینا ہو تو چوٹی کا پسینہ ایڑی میں آتا ہے ، یہ تو ایک ایسے ادارے ، جامعۃ الفلاح کے فارغین کی ، ادبی خدمات کے اشاریے کا کام تھا جس کے قیام کو 62 برس ہو رہے ہیں ! اندازہ کریں کہ اس طویل مدت میں کتنے اہلِ علم فارغ ہوئے ہوں گے اور علم و ادب کی دنیا میں اپنا اور اپنے ادارے کا نام بلند کیا ہوگا ، ان سب کے کارناموں کو جمع کرنا یقیناً آسان نہیں رہا ہوگا ۔
اگر عرض ناشر ، پیغام ناظم جامعہ ، پیغام مہتمم جامعہ ، سپاس نامہ ، پیش لفظ اور آخری ڈیڑھ صفحات کے حاصل مطالعہ کو چھوڑ دیا جائے تو کتاب کے کچھ مختصر اور کچھ قدرے طویل 25 ابواب میں فارغین جامعہ کا تعارف اور ان کی ادبی خدمات ، بہترین انداز میں پیش کی گئی ہیں ۔ کتاب کے ناشر ’ ادارۂ علمیہ ‘ کے سکریٹری انیس احمد مدنی نے عرض ناشر میں اس کتاب کی اشاعت کی غرض پر مختصراً مگر جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ موضوعات اور مؤلفین یا کسی ادارے کے فارغین کی خدمات کے اعتبار سے اشاریے مطالعہ و تحقیق اور معلومات کے اہم ذرائع ہیں ۔ اس سے دوسرے محققین کو کافی سہولت ملتی ہے … فارغین جامعۃ الفلاح کی خدمات متنوع اور ہمہ جہتی ہیں ۔ تفسیرِ و حدیث ، دعوت و تبلیغ ، صحافت ، سماجی علوم ، ادب ، آرٹ ، غرض کوئی فن ایسا نہیں ، جس پر فارغین کی مؤلفات نہ ہوں ۔ بہی خواہانِ جامعہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ فارغین کی خدمات کا ہمہ جہتی تعارف منظر عام پر آئے ، اسی خواہش کی تکمیل اور جامعہ کی محققانہ حیثیت کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے مختلف پہلوؤں سے فارغین کی خدمات کا اشاریہ تیار کرایا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے کی (یہ کتاب) سب سے پہلی کڑی ہے ۔‘‘ ناظم جامعہ محمد طاہر مدنی اپنے پیغام میں ، فلاحیوں کی ادبی خدمات کا تعارف کرانے کی ضرورت کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ جناب امتیاز وحید اور جناب عمیر منظر قابلِ مبارک باد ہیں کہ انہوں نے بڑی محنت سے فارغینِ فلاح کی علمی اور ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے ۔‘‘ مہتمم جامعہ ڈاکٹر جاوید سلطان فلاحی نے بھی اپنے پیغام میں اس تحقیقی کام کی تحسین کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ برادرم عمیر منظر اور برادرم امتیاز وحید کو اس علمی کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ علمی اور ادبی ترقی کے ساتھ ساتھ مادرِ علمی سے ہمارا سرگرم ربط اور تعلق جاری رہے گا ۔‘‘ مؤلفین نے سپاس نامہ میں ان افراد اور اداروں کے ذمے داران کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس کتاب کی تکمیل میں اپنا تعاون دیا ہے ۔ مؤلفین نے ایک جگہ برطانیہ مقیم جناب رضوان فلاحی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ ان کی محبت کی انتہا یہ ہے کہ ڈائلیسس کرواتے ہوئے بھی اس کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔‘‘ اللہ رب العزت جناب رضوان فلاحی کو شفائے کاملہ عطا فرمائے ، آمین ۔ مؤلفین نے پیش لفظ میں فلاح کے ادبی ماحول اور فلاحیوں کی ادبی خدمات کے حوالے سے کتاب کا مفصل تعارف پیش کیا ہے اور ان دشواریوں اور اڑچنوں کا ذکر کیا ہے جن سے انہیں نبرد آزما ہونا پڑا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ادب میں فلاحیوں کی ’’ خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ مدرسہ کے قدیم طلباء کی ان خدمات سے اہلِ فکر و نظر کو واقف کرایا جائے ۔‘‘ اور یہ کام انہوں نے خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچایا ۔
کتاب میں ایک باب ’ جامعۃ الفلاح : ایک اجمالی تعارف ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں جامعہ کی ، قیام سے لے کر اب تک کی ، بلکہ جامعہ کے 1962 میں قیام سے قبل اس کے لیے جو جدوجہد ہوئی ، اس کی بھی ، تاریخ آ گئی ہے ۔ ایک باب ’ فارغینِ جامعۃ الفلاح کا تعارف ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں 142 ایسے فارغین کا تعارف پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب ، تراجم و صحافت سے متعلق کام کیا ہے اور جن کے کسی نہ کسی علمی و ادبی کارنامے کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے ۔ تعارف اس طرح کرایا گیا ہے کہ تقریباً سب کے رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریس بھی دیے گیے ہیں ، اس طرح یہ تعارف ان فارغین جامعہ کی ، جن کی ادبی خدمات ہیں ، ڈائریکڑی بن گئی ہے ۔ بعد کے ابواب میں ان فلاحیوں کا ، جنہوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نگراں کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائی ہیں ، تعارف ہے ۔ آگے ان فلاحیوں کا تعارف ہے جنہوں نے فیلوشپ ، پروجیکٹ ، پی ایچ ڈی مقالات لکھ کر اپنے نام روشن کیے ۔ اس کتاب کی ایک خاص بات ’ پی ایچ ڈی مقالات کی تلخیص ‘ ہے ۔ کل 45 مقالات کی تلخیص کی گئی ہے ، یقیناً یہ مشکل ترین کام رہا ہوگا ، اس کے لیے مؤلفین کی محنت کو سراہنا لازمی ہے ۔ آگے کے صفحات میں مختلف شعبوں اور ادبی اصناف میں فارغین کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، جیسے کہ ادارتی خدمات ، بچوں کا ادب ، تاریخ ، تحقیق و تنقید ، تدوین و ترتیب ، تراجم ، جغرافیہ ، سفرنامہ ، خود نوشت ، سیرت و سوانح ، شعر و سخن ، صحافت ، فرہنگ سازی ، فکشن ( افسانہ ، ناول) ، لائبریری سائنس ، معاشیات ، مونوگراف اور نصابی کتب ۔ حاصلِ مطالعہ میں پوری کتاب کا نچوڑ ہے ۔ یہ ایک شاندار کام ہے ، دیگر بڑے مدرسوں کو اس کام کی اتباع کرنی چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگ سکے اور لوگوں کو پتا چلے کہ مدرسوں کے فارغین نے مختلف شعبوں اور میدانوں میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ کتاب کا انتساب ’ جامعۃ الفلاح کے طلبہ میں ادبی ذوق پروان چڑھانے والے اساتذۂ کرام مفتی عبدالروؤف قاسمی ، مولانا محبوب عالم فلاحی ، مولانا افتخار الحسن محشر اور ڈاکٹر تابش مہدی کے نام ‘ ہے ۔ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 200 روپے ہے ۔ کتاب کے حصول کے لیے عمیر منظر ( 9818191340) اور امتیاز وحید ( 8583870891) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔