فقط چراغ نہیں اب چراغشار ملے
سیاہ رُت میں کوئی صبحِ اعتبار ملے
غمِ حیات کی فرسودگی ہے جاں فرسا
جمود ٹوٹے کوئی تو رہِ فرار ملے
مرے نصیب پہ سایہ ہے زرد موسم کا
بہت ہوا، مجھے کچھ تو نئی بہار ملے
عجب ہے طرزِ تمنا، جہاں جہاں دیکھا
امید مردہ مگر زندہ خوابشار ملے
جو جس قبیل کا تھا وہ اسی قبیل میں ہے
میں رہ نورد تھا، مجھ کو سفر شعار ملے
جو محوِ شوق تھے منزل انھیں نصیب ہوئی
جو محوِ خواب تھے ان کو فقط غبار ملے
جب اُس کی ذات سے نکلا تو تیرگی دیکھی
جب اپنی ذات میں اُترا تو خلفشار ملے
کبھی تجھے بھی مکافات دیکھنی ہوں گی
مری دعا ہے تجھے تجھ سا دوستدار ملے
سماج تفرقہ آرائیوں کی زَد پر ہے
قدم قدم پہ تعصب اور انتشار ملے
مجھے یقین تھا یہ وقت بھی نہیں رہنا
میں سنگ زار سے گزرا تو سبزہ زار ملے
اسے کہو کہ تعلق بحال کرتے ہیں
ملے نہ روز مگر وہ کبھی کبھار ملے
یہ زندگی تو فقط خار و گل کا قصہ ہے
کہیں پہ دشت کہیں پر گلاب زار ملے
قدم قدم پہ مزاحم ہے تیرگی ساحر
نہیں چراغ تو، جگنو ملے، شرار ملے