Home نقدوتبصرہ فنِ خاکہ اور مجتبیٰ حسین-صفدر امام قادری

فنِ خاکہ اور مجتبیٰ حسین-صفدر امام قادری

by قندیل

صدر، شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

۱۸۹۱ء میں مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا پہلا مجموعہ شایع ہواجس کا نام”آدمی نامہ“ تھا۔نظیر اکبر آبادی سے اس کتاب کا عنوان مستعار لینے کی بات قبول کرتے ہوئے انھوں نے پڑھنے وا لوں سے خاص طور سے دو باتیں کہی تھیں۔
۱-جس طرح کے افراد نظیرؔ کے عہد میں پیدا ہوتے تھے،ویسے ہی لوگ آج بھی سامنے آتے ہیں۔مجتبیٰ حسین کے الفاظ کچھ یوں تھے:”نظیر اکبر آبادی نے آج سے سوا سو برس پہلے جس قسم کے آدمی اپنی نظم میں پیش کیے تھے،اسی قماش کے آدمی آ ج بھی پیدا ہوتے ہیں۔“
۲-مجتبیٰ حسین کا یہ بھی خیال ہے کہ انسانیت ابھی نظیر اکبر آبادی کی پیش کردہ زندگی سے اونچی نہیں اٹھ سکی۔
۷۸۹۱ء میں جب مجتبیٰ حسین نے اپنے نئے خا کو ں کی اشاعت کا فیصلہ کیا تو اس کا نام ”سو ہے وہ بھی آدمی“رکھا۔ نظیرؔ سے استفادہ کی غالباً یہ دوسری مثال تھی مگر خاکوں کے آیندہ مجموعوں کے نام نظیرؔ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نہیں رکھے گئے۔”چہرہ در چہرہ“ (۶۹۹۱ء)،”ہوئے ہم دوست جس کے“ (۹۹۹۱ء)،”آپ کی تعریف“(۵۰۰۲ء)اور”مہرباں کیسے کیسے“ (۹۰۰۲ء)مجموعے خاکوں کے لیے ہی مخصوص ہوئے۔غالب اور آتش کے مصرعوں سے یہاں نام تو منتخب ہوئے مگر نظیر والی وہ بات نظر نہیں آئی۔شاید یہ بھی سوال ہو کہ اپنے عہدکا معروف خاکہ نگار آخر کب تک نظیراکبر آبادی کی رہنمائی میں چلتا پھرے۔بعد میں مجتبیٰ حسین کے انتخا بات سے بھی نظیراکبر آبادی غائب ہو گئے مگر ابتدائی دو خاکوں کے مجموعے کچھ ایسا مقبول ہوئے تھے جن کی وجہ سے مجتبیٰ حسین اور نظیراکبر آبادی کا ایک آپسی رشتہ قایم ہو گیا جو اردو کے علمی حلقے میں بے حد پسندیدہ رہا۔اسی سے ترغیب پا کر۷۱۰۲ء میں مجتبیٰ حسین کا ایک ایسا نمایندہ انتخاب تیار کیاگیا: ’دنیا عجیب بازار ہے۔۔۔‘
خاکہ نگاری کو عام طور پر ایک ساتھ آسان اور مشکل فن قرار دیا جا تا ہے۔کسی آشنایا ناآشنا کی زندگی کے چند پسندیدہ یا نا پسندیدہ واقعات کو ترتیب یا عدم ترتیب سے پیش کر دیجیے تو خاکہ تیار ہو جا تا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ زندگی کے کس لمحے کو بر سرِ عوام کیا جائے اور زندگی کے کو ن سے ہزاروں واقعات خاکے کا حصّہ نہ بنیں، اس کی پہچان سب سے مشکل ہے۔مولانا محمد علی جوہر نے اپنے ایک دوست کو ذراطویل خط لکھا اور ان سے آخر میں معذرت کے طور پر یہ جملہ بھی لکھ گئے کہ آج کل مختصر لکھنے کی فرصت نہیں،اس وجہ سے خط طویل ہو گیا۔ظاہری سطح پر سوچیے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر فرصت کم تھی،وقت کی تنگی تھی تو چند الفاظ میں خط کو ختم ہو جانا چاہیے تھامگر ایساہو ا نہیں۔محمد علی جو ہر حقیقت میں اس ذہنی یکسو ئی کے فقدان کی بات کر رہے ہیں جس کے بغیر مختصر نویسی یا بیان میں نَپاتُلا انداز اور ایجازو اختصار کی صفات ہر گز ہر گز پیدا نہیں ہو سکتیں۔ذہن کے بکھر او میں جوہر کا خط انتشار کا نمونہ بن کر طویل تر ہو تا چلا گیا۔اس لیے عین ممکن ہے کہ کبھی خاکہ لکھنا اتنا مشکل ہو جائے جس قدر خود نوشت لکھنا نہ ہو۔
کا میاب خاکا نویسی واقعتا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے کیوں کہ ایک سو واقعات میں کن تین باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر اُس شخصیت کے کردارو اعمال کی تصویر تیار کی جائے،اسے متعین کرتے ہوئے ہمیشہ کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایک خاکہ نگار سے یہ بات بار بار دریافت کی جائے گی کہ آخر فلاں کے خاکے میں وہ اہم بات کیوں کر تحریر میں آنے سے رہ گئی؟خاکہ نگار سے اُس کے پڑھنے والے یہ بھی سوال کریں گے کہ آخر جو باتیں آپ نے فلاں صاحب کے بارے میں لکھی ہیں، وہ کیوں کر اس قدر اہم تھیں جنھیں لکھے بغیر کا م نہیں چل سکتا تھا؟خاکہ نگار کو عوامی عدالت میں ایسے مقدمات میں روزانہ گزرنا اور جرم وسزا کے پیمانے پر کسا جا نا ایک ایسی حقیقت ہے جس کے آیئنے میں ہی اس کی کا میابی کا انحصار اور نا کامی کے ثبوت ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عوام کی عدالت میں جب تحریر پہنچتی ہے تو کسے کون سی تحریر پسند آئے گی اور کو ن سی تحریر پسند نہیں آئے گی، اس کا فیصلہ متعین نہیں ہے۔جس خا کے کو دل و جا ن ایک کر کے مصنّف نے لکھا اور پیش کیا،اسے لوگوں نے پسند نہیں کیا اور جس تحریر پر عوامی مہر لگی، اسے لکھنے و الے نے پہلے کبھی اہمیت نہیں دی تھی۔خاکہ نگار کے لیے وہ سب سے مشکل گھڑی ہو تی ہے۔اگر اس نے کسی زندہ شخصیت پر خاکہ لکھا تو کئی بار اس کی نگاہ میں خاکہ نگار معتوب ہو جا تا ہے۔کئی با رایسا بھی ہو تا ہے کہ خاکہ نگار نے کسی مردہ شخصیت کو موضوع کے طور پر منتخب کیا اور خاکے کی اشاعت کے بعد مرحوم کے وارثین کو بعض باتیں پسندیدہ نا معلوم ہو ئیں کہ معاملہ شکوہ و شکایت سے بڑھ کر کیس مقدمہ تک پہنچ گیا۔فارسی میں ا سے ہی کہتے ہیں:نہ جا ے رفتن نہ پاے ماندن۔خاکہ ا سی لیے مشکل فن ہے۔لکھیں تو کیا اور چھوڑیں تو کیا۔ہر خاکے میں خاکہ نگار اسی شش و پنج اور جیت ہار میں مبتلا رہتاہے۔فرحت اللہ بیگ نے جو خا کہ لکھا،اس سے کچھ ایسے اصول ابھر کر سامنے آئے جن کی روشنی میں آنے والے ہر خاکہ نگار اور خاکے کے نقاد یا قاری کو نئے سرے سے کسی ادبی نمونے کو دیکھنے کی خواہش ہو تی ہے۔
اسی لیے خاکے کو سمجھنا اور اس کی قدر شناسی ایک نہایت مشکل کا م ہے۔کوئی ڈائری لکھے تو واقعات بیان کر دے، افسانے اور ناولوں میں بھی ایک سلسلے سے و اقعات اور تاثرات پیش کر دیے جاتے ہیں۔تنقید اور تحقیق میں مشقت بھلے ہو مگر تسلسل سے گفتگو کر کے آ پ منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں مگر ایک خاکا ہے جس میں ساری ضابطہ بندی خاکا نگار کے صوابِ دید پر منحصر ہے۔اسی لیے ہر خاکے میں خاکہ نگار کا مقد ر کا اک امتحان ہوتارہتا ہے۔ ذرا شاعرانہ رخ اختیار کر لیا تو الزام عاید ہو ا کہ اس شعرکا محل نہ تھا۔ کبھی کسی اہم واقعے تک خاکہ نگار نہ پہنچ سکا تو طنز کیا گیا کہ خاکہ نگار شخصیت ِمذکور کو جانتا ہی نہیں ورنہ کیسے یہ خاص بات وہ چھوڑ سکتا تھا۔مطلب یہ کہ اگر آپ نے خاکہ لکھا ہے تو آپ کی قسمت میں بار بار شکست کے مناظر سامنے آئیں گے۔ہار جیت کے اس کھیل تماشے میں قدم دو قدم بڑھتے ہوئے جو خاکہ نگار منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے، اسے ہی سر فرازی نصیب ہوتی ہے۔
مجتبیٰ حسین نے اپنی زندگی کا پہلا خاکہ ۸۶۹۱ء میں لکھا:’اردو شاعری کا ٹیڈی بوائے حکیم یوسف حسین خاں‘۔اس زمانے میں مجتبیٰ حسین اپنے ہر خاکے کا خاکہ نگار کے نام کے علاوہ عنوان متعین کرتے تھے۔’آ دمی نامہ میں تو اس بات کا التزام رکھا کہ ہر شخص کے نام کے ساتھ آدمی بھی شامل رہے۔ اسی لیے کوئی یادوں میں بسا آدمی ہو گیا تو کوئی لمبا آدمی تو کوئی اپنا آدمی یا کوئی آدمی در آدمی۔بعد میں کتنے نئے نئے عنوان وہ چنتے۔اس لیے انھوں نے اپنے افراد کے نام کو ہی پیش نظر رکھا اور خاکے در خاکے مکمل ہوتے چلے گئے۔۸۶۹۱ء سے جس خاکہ نویسی کا سلسلہ شروع ہوا،اب اس کی نصف صدی مکمل ہو چکی ہے۔ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔
اپنے ابتدائی خاکوں پر نظر ڈالتے ہوئے’آدمی نامہ‘کے پیش ِ لفظ میں مجتبیٰ حسین نے خاکہ نگاری کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انھوں نے کسی کے حق یا مخالفت میں خاکے نہیں لکھے۔انھوں نے بتایا ہے کہ ان کے ذہن پر وہ شخصیات جس طرح سے اثر انداز ہوئیں، اسی انداز سے انھوں نے خاکے اتارے۔مجتبیٰ حسین کا اس دوران یہ اقرار بھی خوب ہے:”خاکہ نگار جب کسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے تو وہ انجانے طور پر خود اپنا خا کہ بھی لکھ ڈالتا ہے۔“اس کی وضاحت میں وہ ایک اور جملہ پیش کرتے ہیں:”یوں سمجھیے کہ مَیں نے سارے خاکے خود اپنا خاکہ لکھنے کی چاٹ میں لکھے۔“اپنی خاکہ نگاری کے سلسلے سے گفتگو کے دوران وہ اس امر کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ جب ان کے خاکے شایع ہوئے تو بعض اصحاب نے لوگوں سے یہ جاننا چاہا کہ مجتبیٰ حسین نے ان کا جو خاکہ لکھا، وہ ان کے خلاف میں ہے یا حق میں۔’سو ہے وہ بھی آدمی‘کے پیش لفظ میں مجتبیٰ حسین نے فرمایشی خا کو ں اور تقریباتی مضامین کا تذکرہ کرتے ہوئے خاکہ نگار کی حیثیت سے اپنے بعض تجربات بیان کیے ہیں۔انھوں نے اپنی پذیرائی کا احتساب کرتے ہوئے یہ پتے کی بات کہی ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا خاکہ لکھا جائے۔ ظاہر ہے، یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کو ئی خاکہ نگار اپنے تمام دوستوں کے خاکے لکھ جائے۔
خاکہ نگارکی حیثیت سے جیسے جیسے مجتبیٰ حسین کی مقبولیت میں اضافہ ہوا،ان سے اس سلسلے کی فرمایشیں بھی بڑھیں۔تقریبات میں صاحب ِتقریب پر خاکہ پیش کیا جائے،یہ ایسی فرمایش ہے جس سے فنّی اعتبار کو گزند پہنچنے سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔مجتبیٰ حسین کے ابتدائی خاکے اور بعد کے دور کی تحریروں میں آمد اور آورد کی متوازی کیفیات اسی وجہ سے سامنے آتی ہیں۔ اس کا سبب ان ہی مسائل میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔کسی بھی خاکہ نگار کی زندگی کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ وہ عوامی توقعات کے ساتھ ساتھ چل کر کہاں تک جائے گا۔یہ نا ممکنات میں سے ہے۔ مجتبیٰ حسین کے پچاس سالہ سرمایہئ ادب کے ابتدائی تیس برس خاکہ نگاری کے باب میں بڑے قیمتی ہیں جس زمانے میں انھوں نے اپنے بعض یادگار خاکے رقم کیے۔ بعد کے دور میں بھی فن کی روشنی اور چمک جگہ جگہ اسی طرح سے عروج پر ہے جیسا ان کا حقیقی معیار ہے مگر تناسب میں معکوسی صورت سامنے آتی ہے۔
کسی خا کے کو شخصیت شناسی کے حوالے سے دیکھتے ہوئے یہ بات قابلِ غور ہوتی ہے کہ خاکے میں شخص اس کے کیسے رنگ ابھارے جاتے ہیں۔کئی بار پڑھنے والے اصل شخصیت اور کاغذ پر منتقل شدہ شخصیت کا موازنہ کرتے ہیں اور خاکہ نگار کا اسی حوالے سے احتساب مکمل کرتے ہیں۔خا کے کوفن کے اعتبار سے اس سے زیادہ کارآمد مشق کہنا چاہیے کیوں کہ ہر خاکہ نگار کو یہ ادبی آزادی حاصل ہوتی ہے کہ اس شخصیت کے خاکے کی تحریر کے دوران اس شخصیت کی ایک تشکیل ِ نو کرے۔مطلب یہ کہ وہ شخصیت اصل میں جیسی بھی ہو مگر جب خاکہ نگار کے سامنے وہ اس مقصد سے آتی ہے کہ اس کا خاکہ لکھا جائے تواب خاکہ نگار کا یہ نئے سرے سے کا م ہو تا ہے کہ وہ کمھار کی طرح چاک پہ شخصِ موجود کو موہوم کر دے اور ایک نئی شخصیت کی تعمیر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔اس لیے اردو میں ’خاکہ اڑانا‘ محاورہ بنا کیوں کہ خاکہ پیش کرنا ایک الگ بات ہے اور خاکہ اڑانا کوئی دوسری شے ہے۔خاکہ اڑانے میں خاکہ نگار کا لہو صرف ہوتا ہے اور فوٹو کھینچنے اور نقل بنا نے کے کا م اس سے کہیں بہت دور چلے جاتے ہیں۔انھی وجوہات سے خاکہ نگاری کو ایک پیچیدہ فنّی اور صنفی عمل قرار دیا جا تاہے۔
مجتبیٰ حسین نے اپنے شہ کار خاکو ں میں شخصیت شناسی کے بنیادی اوصاف پیدا کیے اور کوشش کی کہ ایک ماہرِ نفسیات کی طرح اس شخصیت کے داخل میں وہ اتریں۔اُن گوشوں تک ان کی نظر جائے جہاں کسی کی نگاہ نہیں پہنچی۔کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کا خاکہ لکھا جاتا ہے، اس کی بھی نگاہ وہاں تک نہیں پہنچی ہوتی ہے جہاں تک خاکہ نگار نے دیکھ لیاہوتا ہے۔
خاکوں کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے یہ کہ آشنائی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔آشنائی کے لیے جس قدر گہری ہوگی یا طویل عرصہئ حیات پر پھیلی ہوگی،اسی قدر اس میں گہرائی آئے گی۔خاکہ نگار کو بہ طورِ فن سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہ کسی کُلیے سے کم نہیں ہے۔ اسے لازم حقیقت ماننااس وجہ سے مشکل ہے کہ کسی کو جاننے کا عمل ہمیشہ وقت کے پیمانے سے تولا جا سکتا ہے مگرمیر نے الگ اصول پیش کیا ہے: عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے۔ اس لیے بنیادی اصول یہی ہونی چاہیے کہ رشتے کی شدت کہاں پیدا ہو رہی ہے؟ کبھی ایک چھوٹی سی ملا قات یا ملاقات کا ایک تصّوراپنے گہرے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔بہ قولِ میر ؔ:معلوم یہ ہو اکہ بہت میں بھی دور تھا۔اس لیے مجتبیٰ حسین کے خاکوں پر گفتگو کرتے ہوئے یہ سوچنا آسان نہیں ہے کہ جس سے سب سے زیادہ ان کی قربت رہی، اسی کے خا کے گہرے رہے اور ان سے ان کی سرسری ملاقاتیں رہیں،ان پر ان کے تاثرت ہلکے پھلکے سامنے آئے کیوں کہ ان کے خا کوں کے انتخاب میں یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے۔
خاکہ نگار محقق تو نہیں ہو تا مگر اس کی صنف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس میں تحقیقی شان موجود ہو۔خراب خا کہ لکھنے والایا خاکوں کی کیفیت سے نا بلدشخص کبھی کبھی خا کے کو تحقیقی مضمون بنا دیتا ہے۔خاکہ تنقید سے براہِ راست ہم رشتہ تو نہیں مگر خاکہ نگار کا ذہن واضح طور پرتنقیدی ہونا چاہیے ورنہ ہزاروں باتوں میں چند کا انتخاب وہ کس بنیاد پر کرے گا مگر خاکہ نگار تنقید نگار کا کام کرنے لگے تو وہ خاکے کے فن کو غارت کر دے گا۔خاکہ نگار افسانہ نگار تو نہیں مگر خاکے میں افسانویت کی شمولیت سے چار چاند لگ سکتے ہیں لیکن غلطی سے خاکہ نگار نے خا کے کو افسانہ بنانے کی کوشش کر دی توبگاڑ پیدا ہو جائے گا۔خاکہ شاعری نہیں مگر خاکہ نگار کب تک شعری ی کیفیت سے دور رہ پائے گا لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ شعر گوئی کی محفل میں نہیں،اسے خاکہ نگاری کی ذمہ داری ملی ہے۔خاکہ نگاری ڈرامہ نویسی تو نہیں مگر اس میں ڈراما ہونا ہی چاہیے۔خاکہ نگار خاکے میں ڈراما پیدا کرنے کی کوشش کرے گاتو ڈرامہ اور خاکا دونوں دنیا سے راندہئ درگاہ ہوں گے۔خاکے کو اگر ظرافت کا تمام و کمال حصّہ مان لیا جائے،اور تو بالعموم یہ مانا بھی جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ خاکہ ظریفانہ مضمون کا بدل کیسے ہوگا؟خاکہ کوئی صحافیانہ تحریر نہیں اور نہ ہی اصلاح نامہ ہے۔حالاں کے ہزاروں خاکے اسی انداز سے لکھے جاتے ہیں۔خاکہ مرقع کشی نہیں مگر ایک عالم یہ سمجھتا ہے کہ لفظوں سے تصویریں تیار کر دو اور خاکا نگاری کا کام پورا ہو گیا۔
خاکہ مختلف صنفوں کاملغوبہ نہیں اور نہ ہی ان صنفوں کا کو لاژہے۔وہ خاکے جو فنّی حکمت اور جوڑ توڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں،وہ عوامی حافظے کا حصّے نہیں ہوتے۔’نذیر احمد کی کہانی‘بہت طویل ہے مگردوزخی ایک مختصر سی تحریر ہے۔اب کوئی بتا دے کہ ان خاکوں کی حیثیت طول طویل مضامین اور تنقیدی اور تحقیقی کتابوں سے بڑھ کر ہے یا نہیں۔اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ خاکہ نگار صاحب خاکہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے جن پیمانوں کو مقرر کرنا چاہے،اس میں وہ کتنا ٹھوس نپا تلا اور صاحبِ دانش ہے۔فرحت اللہ بیگ نے مولوی نذیر احمد کی بنیاد ظرافت میں تلاش کی اور عصمت چغتائی نے ظرافت نگارعظیم بیگ چغتائی کی زندگی کے سوز کو اصل قرار دیا ہے۔خاکہ قلم اور روشنائی سے بعد میں صفحہئ قرطاس پر اترتا ہے؛ اچھا خاکہ واقعات اور تفصیلات میں بکھر جانے کا جوکھم نہیں اٹھاتا بلکہ وہ واقعات، تاثرات کے بہانے روحانی سطح پر زندگی کو پہچاننے اور اسے انگیز کرنے کی کوشش کا نام ہے۔
مجتبیٰ حسین کے ان خاکو ں کو پڑھتے ہوئے ایک ساتھ کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔وہ اشخاص کو نیکی کے ساتھ پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں مگر جذبہئ عقیدت کو زیادہ دور تک رہنمائی کے لیے لے کر نہیں چلتے۔شخصیت شناسی کے پیچیدہ عمل میں انھیں بعض ایسی باتیں بھی پیش کر دینی ہیں جنھیں بے لگام اور دوٹوک طور پر بیان کا حصّہ بننا چاہیے۔ایسے موقعے سے مجتبیٰ حسین کی ظرافت نگاری انھیں بہت فائدہ پہنچاتی ہے۔ظرافت کے پیرائے میں سچ کی پوٹلی کھولنا مجتبیٰ حسین کا وہ ہنر ہے جس سے انھوں نے چلتے پھرتے کسی کردار کے سلسلے سے ان تمام باتوں کو بھی بر ملا کہہ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کے ساتھ محض جذبہئ نیکی سے آگے بڑھ پانا ممکن نہیں تھا۔
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں ان کی وسیع المشربی انھیں بہت فائدہ پہنچاتی ہے۔ان کے حلقہئ ارادت میں اتنے بھانت بھانت کے چہرے نظر آتے ہیں جن کے تذکرے سے رنگا رنگی میں اضا فہ ہوتاہے۔یہاں کافر اور دین دار، نمازی اور شرابی،حاکم اور محکوم سب طرح کے ایسے چہرے جمع ہو گئے ہیں جنھیں آپ کسی ایک گلدان میں سجا پانے میں ہزار طرح کی مشکلات سے دوچار ہوں گے۔حیدر آباد اور دہلی کے کثیرالجہت ماحول نے انھیں ایسے مزید مواقع عنایت کیے جس سے ان کے تعلقات کے دائرے میں وسعت آئی۔مجتبیٰ حسین نے اپنے خاکوں کے لیے اسی حلقے سے اشخاص منتخب کیے۔حیدر آباد کی جس مٹّی اور ماحول سے وہ ابھرے،اس نے انھیں ذہنی اور فکری طور پر روشن خیال بنایاجس میں عمر کے اضافے اور تجربات ومشاہدات سے مزید چمک اور روشنی پیدا ہوئی۔ ان کے خاکو ں میں اشخاص،ان کے ماحول، سیاست اور سماج کی سانسیں اور دھڑکنیں کچھ اس انداز سے سما گئی ہیں جن سے مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں دانشورانہ کیف اور درد و سوز کے اشارے ان کے ظریفانہ انداز کے اندر داخل ہو گئے۔ ان کی خاکہ نگاری کا یہ بنیادی وصف ہے جس سے بعض اوقات ان خاکوں کے بہانے دنیا کو اور اس کی ہزار شیوگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
مجتبیٰ حسین بھلے مختلف اشخاص کے الگ الگ زمانے میں خا کے لکھ رہے ہوں مگر ان کی آنکھیں اس مثالی کردار کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور جس کی تلاش میں وہ جس تس کا منھ تکا کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنا وفاتہہ تو لکھا ہی مگر اس کے باوجودجس مثالی کردار کے بارے میں جگہ جگہ الگ الگ خاکوں میں جملے اور تاثرات رقم کرتے چلتے ہیں،ابھی اس تلاش میں انھیں کوئی کنارا نہیں ملا ہے۔یہی خاکہ نگا ر کے اندر مفکر،مبلغ اور مصلح سب کے اجزا صف بستہ نظر آتے ہیں۔خاکہ نگار کی ذمہ داریاں یہاں بڑھ جاتی ہیں۔مجتبیٰ حسین کی عظمت یہ ہے کہ جہاں سینکڑوں افراد کے انھوں نے خاکے اڑاے مگر ان میں آپ بیس جملے تلاش کر کے نہیں دکھا سکتے کہ وہ تعصبات اور مغلظات حربوں سے لیس ہوکر میدانِ کارزار میں اترے ہیں۔چھ دہائیوں کے علمی سفر کی یہ معصومیت اور پاکی خاکہ نگار کے حصے میں ہی آسکتی تھی ورنہ کون سی صنف ہے جس کے دامن پر یار لوگوں نے کچھ داغ نہ چھوڑے ہوں۔
مجتبیٰ حسین نے خاکے پہلے لکھے او ر سفر نامے کی طرف بعد میں آئے۔آدمی کو سمجھنا اور ماحول کے مطابق چیزوں کا تجزیہ کرنا انھوں نے ان دونوں صنفوں کی خدمت کے دوران سیکھا ہے۔مشاہدہئ حق کی گفتگو میں بادہ وساغر کا طور، تحریر پیشگی کے مرحلے میں ظرافت اور معیشت کے اعتبار سے غیر ادبی پیشہ انھیں توازن بخش رہا تھا۔تجربے کی بھٹّی میں انھوں نے اپنے تعصبات غضب ناکیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔اس لیے مجتبیٰ حسین کے خاکے رفتہ رفتہ مقبول ہوئے اور سب نے انھیں پسند کیا اور داد دی۔کمال تو یہ ہے بعض بے حد سرسری انداز میں اور محض چند امور کی پیش کش کے لیے جو خاکے لکھے گئے،ان پر بھی صدے تحسین بلند ہوئی۔علمی طور پر پاکستان میں مشتاق احمدیوسفی اور ہندستان میں مجتبیٰ حسین سرگرمِ عمل رہے۔ یوسفی کو اکثر حقیقی اشخاص سے مطلب نہیں ہوتااور مجتبیٰ حسین کو سامنے کی شخصیات میں سب سے زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔اردو ظرافت کا یہ عجب پُرلطف معاملہ ہے کہ یہ دونوں ظرافت نگار اشخاص کو ظاہر اور پردے میں مختلف انداز سے دیکھنے کے خوگر ہیں۔یہ بھی کیا خوب ہے کہ انسان اور انسانیت کے سلسلے سے جس سنجیدگی سے یہ ظریفانہ لوگ اپنی تحریریں پیش کر رہے ہیں، کاش شاعری،افسانہ،ناول یا تنقیدو تحقیق جیسی صنفوں میں جمیعت انسانی کے بارے میں ایسی سنجیدہ غور و فکر کا دور دورہ ہوتا۔

You may also like

Leave a Comment