شاعروں ادیبوں اور فن کاروں سے ہر غلط آدمی اس لیے گھبراتا ہے کیوں کہ سچ کا سامنا مشکل ہے۔
صفدر امام قادری
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ظلم کا چکّر اور تباہی کتنے دن، کتنے دن۔ ایسے دستور کو مَیں نہیں مانتا ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ وقت اور تاریخ کی نبض پر اُنگلی رکھ کر پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ اور لکیریں نہیں، جمیعتِ انسانی کی آہوں میں شعرا اور ادبا نے بارودبھر کر ظالم اور جابر پر وار کیا ہے۔ ’گیتا‘ میں ہی جب کہہ دیا گیا کہ ’شبد برھم ہے‘۔ اس لیے لفظ نہیں مرتے ۔ شاعر ادیب گزر جاتے ہیں مگر فضائوں میں ان کے لفظ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم بن کر تقاضاے وقت کے تحت ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
حبیب جالب کب کے گزر گئے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوانوں نے جب ہندستانی حکومت کے جبریہ قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو انھیں حبیب جالب کی کئی نظمیں یا د آنے لگیں اور ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔‘ جیسے مصرعے کچھ ایسے موزوں ثابت ہوئے جیسے اُسی دن کے لیے اور اسی تحریک کے لیے یہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر اُتار دیے گئے ہوں۔ حبیب جالب کی آواز سے لے کر درجنوں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور فن کاروں نے اِسے گانا شروع کر دیا۔ اب ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں بنگال سے لے کر کیرل تک یہ نظم گائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کے ایک احتجاجی ظاہرے میں کان پور کے آئی ۔ آئی ۔ ٹی کے طلبا کو فیض کی نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ یاد آ گئی۔ حبیب جالب نے فیض کے نقشِ قدم پر چل کر انقلابی شاعری شروع کی تھی۔ یہاںتو خود بہ نفسِ نفیس فیض نظر آتے ہیں۔ وہ فیض جو انگریزوں سے آزاد ی کو ’داغ داغ اُجالا‘ اور’شب گزیدہ سحر‘ کہہ چکا تھا، اب جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ایک خواب دیکھتا ہے۔ اب سے چالیس برس پہلے جلا وطنی کے دور میں امریکا میں رہتے ہوئے جنوری کی ایک ٹھٹھری صبح میں فیض نے یہ نظم کہی تھی۔ پانچ برس بعد وہ امید اور خوشی کے خواب دیکھتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ فیض، حبیب جالب اور احمد فراز سب کو برِّ صغیر کی آزادی ، خوش حالی، امن و امان اور جمہوری اقدار کی بحالی کے خواب دیکھنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے جیل اور جلا وطنی کا مجرم قرار دیا۔
عجب اتّفاق ہے کہ مذکورہ تینوں شعرا دنیا کے اس خطّے سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے مگر تینوں شعرا جب پیدا ہوئے تو ان کے وطن کا نام ہندستان تھا۔ اڑچن اس بات پر بھی ہے کہ انقلاب کی بات کرنے والے اور اپنی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے بول بولنے والے یہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بھی اُسی پاکستان میں دفن ہوئے ۔ اب ہندستان میں ایک ایسی نسل پل بڑھ کر حکومت کر رہی ہے جسے یہ تمام لکھنے والے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی بات کرنا اور سچ بولنا اس حکومت کو بغاوت کی بات لگتی ہے۔ جب یہ بات پاکستانی شاعر اور نثر نگار کی زبان سے ہو تو حکومتوں کا یا ان کی ہم خیال جماعتوں کا تلملا جانا فطری ہے۔ اسی لیے جانچ کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے نتائج میں آخر آخر یہ بات سامنے آئے گی کہ چوں کہ ان مظاہرین نے ہندستان کے دشمن ملک پاکستان کے شعرا کا کلام پڑھا، ا س لیے ان پر بغاوت کا مقدّمہ چلناچاہیے۔ میرٹھ کے ایس۔ پی۔ نے ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی گالی دیتے ہوئے جو ہدایت پیش کی ، اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان آپ نے کیوں دیا تو انھوںنے ان مظاہرین کے نعروں میں پاکستان کے الفاظ تلاش کیے۔ اس لیے جہاں جہاں ایسی نظمیں پڑھی جائیں گی، موجودہ عہد کے حکمراں اور ان کے انتظام کار ہمیں پاکستانی قرار دے کر ہم پر مقدّمہ چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
وہ دن گئے جب ہندستان کا وزیرِ اعظم برِّ صغیر ہی نہیں تیسری دنیا کی قیادت کی بات کرتا تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کی شناخت عالمی سطح کی سیاست اور ہندستان کی ناوابستگی سے جانی جاتی تھی۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص ساری کمیونسٹ حکومتوں کے لیے ہندستان ایک محبوب جگہ تھی۔ عالمی سیاست اور حکومت سازی کا یہ سبق، جنگِ آزادی کی یہ تحریک اور خاص طور سے ہندستان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے ہندستان کے عوام اور خواص کے لیے ماٹن لوٗ تھر کنگ بھی اپنے تھے اور نیلس منڈیلا تو صد فی صد ہندستانی ہی معلوم ہوتے تھے۔ انقلاب کے مغنّیوں کے طور پر ہمیں ناظم حکمت اور پابلو رنرودا اور مایا کونسکی ، سب کے سب اپنے معلوم ہوتے تھے۔ پِکاسو اور مونے ویسے ہی لگتے تھے جیسے رضا اور حسین۔ ششدر شرما اور پاش، زلفیہ بِن جا مِن مولایس___سب ایک ہی مزاج کے فرد تھے اور ایک ہی کارواں کے مسافر۔ سب ہمیں ظلم سے بچا نے اورانصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہواہوتا تو ہندستانی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے اندھی سرنگ میں بند ہوتے اور سب ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجدوں میں دم گھٹنے سے مر چکے ہوتے مگرایسا نہیں ہوا۔تیلگووالا اردوکو پسندکرتا ہے اورہندی کا شاعر فارسی کا دیوانہ ہے۔ رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے لے کر فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید اور پروین شاکر تک آزادیِ اظہار پر مرمٹنے والی خواتین کے راگ اور بول پر کئی نسلوں نے اپنی زندگی بدلی۔
آج کے وزیرِ اعظم تو سیاست دانوں میںسب سے بڑے سیلانی ہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن ایک نئے ملک کی سیر کرکے لوٹتے ہیں مگر بین الاقوامی پالسی کا یہ حال ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان و نیپال سے بھی ہم وار رشتے قایم نہیں رکھ سکتے ۔ عالمی سیاست اور مریکا روٗس پر اُن کے کہے کا کیا اثر ہوگا، وہ سری لنکا اور برما سے بھی توازن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط نہیں کر سکتے۔ وہ ایسے نقطۂ نظر کے پروردہ ہیں جسے اپنے ملک کو بھی ایک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنانے میں دل چسپی نہیں ۔ عافیت اور شانتی، امن و امان اور محبت و خیر سگالی کے الفاظ اور جذبات ان کی سیاست کے موافق نہیں، اس لیے وہ کوئی بڑا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
آج کی حکومت کو بڑے بول بولنے اور اپنی بات سنانے میں زیادہ دل چسپی ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کو جمہوریت میں اس لیے وقار حاصل ہوا کیوں کہ یہاں مختلف نقطۂ ہاے نظر کے افراد تبادلۂ خیال کرکے کوئی روشن اور زیادہ معقول راستہ تلاش کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو اپنے نقطۂ نظر پر اتنا بھروسا ہے کہ وہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کے سارے سیاست دان بھی یک رائے ہو جائیں تب بھی وہ ایک اِنچ اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہندستان کی سرحد کا معاملہ نہیں ہے، قانون بنانے اور ملک کے باشندوں پر قانون کے نفاذ کا سوال ہے۔ جس کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور آئینی نہ جانے کتنے پہلو ہیں مگر بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی اور کسی ترمیم کی گنجایش نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بغیر کسی گفتگو کے قانون شب خونی انداز میں منظور کر لیے جاتے ہیں۔
حبیب جالب اور فیض سے خوف آخر کیوں کر آیا؟ بھگت سنگھ سے انگریز حکومت کیوں ڈرتی تھی۔ اشفاق اللہ اور کھدی رام بوس کی عمر ہی کیا تھی مگر اُن کے سچ بولنے سے سب کو خوف آتا تھا۔ آج کی حکومت ہر سچے آدمی سے ڈرتی ہے۔ ہر حقیقت پسند سے بھاگتی ہے۔ ہر سچے مسئلے کو دوٗر سے ہی سلام کرتی ہے۔ کاہے کو غریبی اور بے کاری سے رشتہ رہے۔ بے روزگاروں کو ہی ختم کر دینے کا منصوبہ ہے۔ دلِت اور اقلیت آبادی کو وہاں پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں عزّتِ نفس کے ساتھ جینے سے بہتر مر جانا معلوم ہوتاہے۔
اب نوجوانوں کی باری ہے۔ پہلے یونی ورسٹیاں دنیا میں نئے خواب دیکھنے کے لیے گھر آنگن ہوتی تھیں۔ ہماری تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے چہکتے ہوئے نغمہ ریز پرندے تھے۔ زندگی اُڑتی گاتی اور مسکراتی ہوئی ایک نئی دنیا پیدا کرتی تھی مگر یہاں پانچ ٹرلین معیشت پانے میں ہمارے نوجوان جیلوں کی سلاخوں میںبند ہو جائیں یا بحرِ ہند میں غرقاب ہو جائیں، کسی کو کیا پڑی ہے۔ سڑکوں پر گلیوں میں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ کتب خانوں میںطلبا کو لاٹھیاں اور گولیاں لگ رہی ہیں۔ ٹھٹھری ہوئی راتوں میں سڑکوں پر معصوم عورتیں اپنی بے زبان اولادوں کے ساتھ نئی زندگی کا خواب لے کر اُتر رہی ہیں۔ فیض اور جالب ہی نہیں ان کے ہزاروں مردہ اور زندہ ساتھی ہم رکاب ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد مردہ فیض ظالموں کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تو جو زندگیاں سڑکوں پر ہیں ان کی طاقت کا ابھی ظالموں کو اندازہ نہیں ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم کے مصرعے یا دآتے ہیں:
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ میرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ میں شعبۂ اردوکے صدر ہیں
Email: [email protected]