Home ستاروں کےدرمیاں انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ: فن و شخصیت

انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ: فن و شخصیت

by قندیل

فیض احمد فیض کے یومِ پیدائش 13فروری کے ضمن میں خصوصی مضمون

محمد عبّاس دھالیوال
اردومیں جب بڑے شعراء کی بات چلتی ہے تو غالبؔ اور اقبال کے بعد بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر کے طورپر فیض احمد فیضؔ کا نام سرِ فہرست ابھر کرسامنے آتا ہے۔فیض کی پیدائش ہندوستان کی تقسیم سے قبل سیالکوٹ موجودہ پاکستان کے معزز گھرانے میں 13 فروری 1911ء کو ہوئی ،آپ کے والدچودھری سلطان محمد خان اپنے وقت کے ایک نامی بیرسٹر تھے۔فیض نے ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔اسکے بعد 1921ء میں آپ نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں ایڈمیشن لیا اور 1927ء میں میٹرک کا امتحان پہلے درجہ میں نمایاں پوزییشن کے ساتھ پاس کیا ،ساتھ ہی آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی اور ایف ۔اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔یہاں قابل ذکر ہے کہ شمس الحق جنھوں نے کبھی علامہ اقبال کو پڑھایا تھا ،اسی قابل استاد کی ذات سے فیض احمد فیض بھی مستفیض ہوئے .۔بی ۔اے اور ایم ۔اے انگلش کا امتحان اس وقت نے نامی ادارہ گورمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا ۔اسکے بعد فیض نے اورینٹل کالج لاہور سے 1932ء میں فارسی میں ایم ۔اے کی۔اسی بیچ آپ کی ملاقا ت ڈاکٹردین محمد تاثیر کی لندن نزاد بہن ایلسا سے ہوئی ،ایلساجو کہ کیمونسٹ پارٹی کی سرگرم رکن تھیں ۔انھیں سے 1941میںآپ کی شادی ہو گئی اور دو بیٹیاں سلیمہ اورمنیزہ ہاشمی پیدا ہوئیں۔ 1942.ء میں فیض احمد فیض کی بطور کیپٹن فوج میں تقرری ہوئی اور اس فیلڈ میں بھی اپنی قابل قدر خدمات دیتے ہوئے آپ نے لیفیٹینٹ کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔1947ء میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہو ر تشر یف لے آئے ۔فیض نے ایک مدت تک جلاوطنی کی زندگی گزاری، 9 مارچ 1951 ء کو آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومتِ پاکستان نے گرفتار کر لیا۔اِس دوران فیض نے اپنی زندگی کے چار سال سرگودھا ،ساہیوال،حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں کاٹے زنداں نامہ کی بیشتر نظمیں فیض کی جیل کے دنوں کی ہی سر گزشت بیان کرتی ہیں اسکے بعد آخر کار انھیں 12اپریل 1955 ء کو جیل سے رہا کر دیا گیا ۔
1959ء سے 1962تک فیض نے پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکریٹری اپنی خدمات دیں ۔پھر لندن چلے گئے اور واپسی پر 1964میں عبداللہ ہارون کالج کراچی میں بطور پرنسپل اپنی خدمات بحسنِ خوبی انجام دیں۔فیض کے متعلق یہ بات ادبی حلقوں میں مشہور ہے کہ وہ آزادی کے شاعر تھے۔انھیں مزاحمت کا شاعر گردانا جاتا ہے۔فیض نے جہاں ویت نام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی وہیں انھوں نے فلسطین کی تحریکِ مزاحمت کی بھی بھرپور حمایت کی اور اسکے لیے گیت بھی لکھے،اسکی شاید بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے قائد یاسر عرافات بھی ایک سوشلسٹ تھے اور انکی شہرت ایک روس نواز رہنما کی تھی۔لیکن جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کی خاموشی پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ افغانستان کی جدو جہد آزادی کے لیے انھوں نے نہ کوئی نظم لکھی ،نہ مضمون تحریر کیا،نہ ہی کوئی بیان جاری کیا۔
اس سے پہلے کہ ہم فیض کی شاعری کو مطالعہ میں لائیں آئیں ہم دیکھیں کہ خود فیض شاعر کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں،مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے،گردو پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ،اسکی بینائی پر ہے،اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر،اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلاحیت اور لہوکی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش و جدو جہد چاہتے ہیں‘‘
آئیے اب ہم فیض کے کلام کو دیکھتے ہیں جس کلام کی بدولت وہ اپنے ہم عصر شعراء کے بیچ موجود ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے فن میں ان سے جدا منفرد نظر آتے ہیں۔
خزاں وبہار کو کیا خوب انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ایک اور جگہ فیض کا منفرد رنگ دیکھیں:
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
ایک اور جگہ کچھ اس انداز میں محبوب سے ہم کلام ہیں :
شرحِ فراق،مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام
کس دلربا کے نام پہ خالی سبو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے ، نہ نظر کو تلاشِ جام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات،کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ،ہماری نہ جائیو‘‘
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ایک جگہ فیض کہتے ہیں:
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
مفلسی کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
ہم نے اپنا ملال بیچ دیا
محبوب کو یا د کرنے کا بہانہ دیکھیں کہتے ہیں :
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
ایک اور جگہ یاد کے تعلق سے کہتے ہیں کہ
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
ایک جگہ کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں:
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی بات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بہار اور خزاں کے پل بھر کے ٹھہرنے کا کیا خوب سماں باندھا ہے:
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
غمِ روزگا کا ایک جگہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی فریب ہیں غم روزگار کے
ہجر و فراق کے موضوع کو ایک جگہ کیا خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیاجاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا ہجر کی رات ڈھل گئی
اردوادب کو اپنی منفر د قسم کی انقلابی شاعری سے روشناس کرنے والایہ شعر و ادب کی دنیا کامنور ستارہ یعنی فیض احمد فیض آخر کار 20نومبر1984کو لاہور میں ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہو گیا ۔

You may also like

Leave a Comment