Home ستاروں کےدرمیاں فہمی صاحب کے جانے پر -مالک اشتر

فہمی صاحب کے جانے پر -مالک اشتر

by قندیل

کوئی تین چار سال پہلے اچھے خاصے جاڑوں کی ایک شام کا ذکر ہے۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے لان میں جشن ادب والوں نے مشاعرہ رکھا ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ غزلوں کی حرارت سے سماعت کے ہاتھ تاپ رہے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ناظم نے ایک نام پکارا: جناب فہمی بدایونی صاحب۔

میں اس نام اور چہرے سے واقف نہیں ہوں لیکن سامعین کی تالیوں کا شور غیر معمولی ہے۔ سر پر گول گرم ٹوپی لگائے وہ دبلے پتلے بڑے میاں مائیک سنبھال لیتے ہیں۔ ایک شعر سناتے ہیں۔۔پھر دوسرا، پھر اور، پھر اور۔۔۔ایک بار تو ختم کرکے چلے بھی جاتے ہیں لیکن سامعین کا اصرار دیکھ کر کرسی سے دوبارہ اٹھ کر آنا پڑتا ہے۔ سب داد دے رہے ہیں اور میں اس محرومی کے احساس میں پچھتائے جا رہا ہوں کہ ان کی شاعری سے پہلے متعارف کیوں نہ ہو سکا؟۔

واپسی میں راستے بھر فہمی صاحب کی ہی باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے دو اساتذہ پروفیسر رحمان مصور اور پروفیسر متین احمد صاحبان ساتھ ہیں۔ مصور سر فہمی صاحب کے اور شعر سناتے جاتے ہیں:

وہ اتنی میٹھی باتیں کر گیا ہے
کہ بستر چینٹیوں سے بھر گیا ہے

پروفیسر متین، نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ ہیں۔ وہ فہمی صاحب کی امیجری پر فریفتہ ہو گئے ہیں۔ پروفیسر رحمان مصور خود نئی غزل کا بڑا نام ہیں لیکن ان کی زبان فہمی صاحب کی تخلیقیت کی تعریف کرتے نہیں تھک رہی ہے۔ وہیں میں بھاگم بھاگ گھر پہنچنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی ہے اور مجھے اسے فورا چارج کرکے فہمی صاحب کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنی ہے۔ مصور سر نے بتایا ہے کہ وہ فیس بک پر بہت ایکٹیو رہتے ہیں۔

اس رات کے بعد کئی جاڑے، گرمی اور برسات نکل گئے۔ میں نے یوٹیوب پر فہمی صاحب کو چھان مارا ہے اور ان کی شاعری کا ہر ویڈیو دیکھ لیا ہے۔ کتنے ہی شعر منہ زبانی یاد ہو گئے ہیں اور اب منتظر ہوں کہ وہ کسی مشاعرے میں دلی آئیں تو ان سے جاکر ملوں۔

برسوں بعد پھر اسی دلی کی ایک شام ہے۔ بچپن کے دوست کی شادی ہے جس کے لئے میں دلی سے بستی کے سفر پر نکلا ہوں۔ گاڑی میں بیٹھ کر فیس بک کھولتا ہوں اور فہمی صاحب کے انتقال کی خبر پاتا ہوں۔ دل ہے کہ بیٹھ سا گیا ہے۔ بقول فہمی صاحب:

دل جب خالی ہو جاتا ہے
اور بھی بھاری ہو جاتا ہے

گاڑی میں بیٹھے بڑے بھائی کی باتوں کا میں بس ہاں-ہوں میں جواب دے رہا ہوں۔ پتہ نہیں انہیں کیا لگا ہوگا، پھر وہ بھی خاموش ہوکر سیٹ پر پیچھے سر ٹکا دیتے ہیں۔ میرے کانوں میں فہمی صاحب کے اشعار گونج رہے ہیں اور آنکھیں سامنے رات کے اندھیرے منظروں پر گڑی ہوئی ہیں:

تو جہاں تک دکھائی دیتا ہے
اس سے آگے میں دیکھتا ہی نہیں

پتہ نہیں کب دو تین ضلع پار ہوئے اور منزل آ گئی۔ گھر والوں کے شدید اصرار پر، سال بھر سے زیادہ کے بعد کسی طرح فرصت نکال کر بستی آیا ہوں۔ رات کی آدھی عمر گزر چکی ہے پھر بھی انتظار میں سب گھر والے جاگ رہے ہیں۔ میں دل کی اسی اداسی میں گھر والوں کے استقبال کا مسکرا کر جواب دے رہا ہوں۔ فہمی صاحب کان میں پھسپھسائے:

ایک مہمان آنے والا ہے
آج دہلیز پر ہے سارا گھر

مجھے گھر سے واپس آئے آج کئی دن ہو گئے۔ یوٹیوب پر فہمی صاحب کو پھر سے سن رہا ہوں اور ان کے انتقال پر لکھی گئی تحریریں بھی پڑھے جا رہا ہوں۔ دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے چاہنے والوں کا ایسا بڑا حلقہ ہے۔ پھر یہ سوچ کر دل بجھ جاتا ہے کہ یہ پذیرائی، یہ مقبولیت جو پہلے دن سے فہمی صاحب کا حصہ تھی انہیں بہت بعد میں ملی۔ فیس بک پر سنجیدہ ادبی رحجانات کی کم موجودگی پر مجھ سمیت بہت سوں کو شکوہ رہا ہے۔ البتہ، فیس بک نے یہ کام اچھا کیا کہ فہمی صاحب جیسے فن کاروں کو قدردانوں تک لے گیا۔

ریختہ نے یوٹیوب پر فہمی صاحب کا مختصر انٹرویو شیئر کیا ہے۔ اس گفتگو کو دیکھ کر فہمی صاحب کی شعری دنیا کو سمجھنے کے نئے زاویے کھلتے ہیں۔ یہ اس بچے کی کہانی ہے جس کا بچپن اس طرح گزرا کہ والد ملازمت کے سلسلے میں باہر تھے اور بڑی بہن بیاہی جا چکی تھی۔ گھر میں بس یہ بچہ اور ماں تھے۔ نگہداشت کے لیے ایک چچا تھے لیکن ظاہر ہے وہ ہر وقت گھر میں نہیں رہا کرتے تھے۔ گھر کی دیواریں بس اس ماں بچے اور ان کی دو تنہائیوں کو تکا کرتی تھیں۔ پہلی، پردیسی شوہر والی خاتون کی تنہائی، جس کے پاس اپنے سکھ دکھ باٹنے کے لیے بس وہ چھوٹا سا بچہ رہا ہوگا۔ دوسری اس بچے کی تنہائی جس کے لئے اکثر وہ ماں ہی بہن بھائی اور باپ کا کردار نبھایا کرتی ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تنہائیوں کے اسی دوہرے تجربے کی فضا بعد میں فہمی صاحب کے شعروں میں ڈھل کر امر ہو گئی:

ٹہلتے پھر رہے ہیں سارے گھر میں
تیری خالی جگہ کو بھر رہے ہیں

برسوں پہلے کی ایک دستک سے
کر رہا ہے ابھی گزارہ گھر

دوستوں نے ہنسا دیا آکر
اچھے خاصے اداس بیٹھے تھے

رات بھی ہم نے ہی صدارت کی
بزم میں اور کوئی تھا ہی نہیں

مجھ سے کوئی پوچھے کہ فہمی بدایونی تمہیں کیوں پسند ہیں؟ تو میرا پہلا جواب ہوگا کہ ان کی شاعری میں چونکانے والا عنصر بہت ہے۔ وہ شعر کی شکل میں ایسا تجربہ سامنے لاکر رکھ دیتے ہیں جس سے آپ کتنی ہی بار گزرے ہوں گے لیکن اس پر توجہ فہمی صاحب کے شعر کو پڑھ کر ہی جائے گی۔

اب جو فہمی صاحب کی زبانی ان کی کہانی سنی تو معلوم ہوا کہ انہیں خود زندگی بار بار چونکاتی رہی۔ بارہویں کرنے کے بعد فہمی صاحب نے گریجویشن میں نام لکھا لیا تھا لیکن تب ہی سرکاری نوکری بھی لگ گئی۔ ظاہر ہے پس و پیش میں پڑ گئے کہ نوکری کریں یا تعلیم آگے بڑھائیں؟۔ چونکہ گھر اور حالات کی گواہی نوکری کی طرف تھی اس لئے پٹواری بن کر سیتاپور سدھارے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اب اس کہانی کی “اور بھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔۔” جیسی تکمیل ہو جاتی لیکن جو چونکا نہ دے وہ زندگی کیسی؟۔ یہاں کی آب و ہوا فہمی صاحب کو راس نہیں آئی اور یرقان میں بری طرح مبتلا ہو گئے۔ ایسے کہ لمبی چھٹی لے کر اپنے وطن بسولی، بدایوں آ گئے۔ محکمے نے ان کی صحتیابی کا انتظار کرتے کرتے پہلے تنخواہ بند کی اور پھر نوکری کا دروازہ۔ وہی نوکری، جسے انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کی قیمت پر حاصل کیا تھا۔

اس کے بعد ایک زمانہ گزرا۔ فہمی صاحب نے بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر، اپنے بچوں کو پڑھایا۔ کم عمری سے ہی شعر و ادب کا شوق تھا۔ طبع آزمائی کرنے لگے تو کچھ الگ کہنے کی کوشش ہوتی۔ بدایوں میں سخنوروں کی مجلسیں عام تھیں اس لیے وہاں حاضری ہونے لگی، لیکن وہاں وہی ہوا جو قلعہ معلی میں غالب کے ساتھ بیتا تھا۔ لحاظ بھر داد کے سوا کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی۔ جیون کی لگی بندھی ڈگر۔ وہی پڑھانا، پڑھنا اور لکھنا۔ زندگی کے پانی میں ارتعاش جیسا کچھ نہیں تھا:

سارے کردار ہو گئے خوددار
پھر کہانی میں کچھ ہوا ہی نہیں

گوشہ نشینی کی ان دہائیوں میں نہ تو ان کی مشق سخن رکی نہ ہی طرز سخن بدلا۔ انہوں نے نئی پرانی شاعری کو بھی خوب پڑھا۔ اس لیے نہیں کہ اس جیسا کہیں بلکہ اس لیے کہ اس سے ہٹ کر کچھ کہا جائے۔ یہی وہ خوبی تھی جو ادبی تذکروں میں فہمی صاحب کو بہت دنوں باقی رکھے گی۔ ہزاروں لاکھوں اشعار پرانی اردو غزل میں نیا مضمون کھوجنا یا پھر پرانے مضمون کو کہنے کا نیا انداز تلاش کرنا، یہ بہت بڑا چیلنج تھا جسے فہمی صاحب نے قبول بھی کیا اور پورا بھی۔

یہ بات درست ہے کہ فہمی صاحب کا ہر شعر منفرد نہیں لیکن ان کی زیادہ تر غزلوں کے کم از کم ایک دو شعر ایسے ضرور ہیں جو سننے والے کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ احباب کو کہتے سنا گیا ہے کہ فہمی صاحب ایک شعر یا دو شعر کے شاعر ہیں۔ غزل کے باقی اشعار ان ایک دو اشعار کے جواز کے لیے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تاثر ٹھیک ہو لیکن کسی ایک شاعر کے یہاں زبان و بیان کا اتنا تجربہ اور اس کے نتیجہ میں حیرت زدہ کر دینے والے اتنے اشعار کم ملتے ہیں جتنے فہمی صاحب نے ہمیں دیے ہیں:

کس کو آئے نظر ہمارا گھر
جب برابر میں ہو تمہارا گھر

اس لئے جا رہا ہوں کونے میں
آنکھیں شامل نہیں ہیں رونے میں

تیز آندھی چلی تو راز کھلا
کرسیوں پر لباس بیٹھے تھے

سوئی دھاگہ محبت نے دیا تھا
تو کچھ سینا پرونا چاہیے تھا

مجھ کو الفاظ چننا پڑتے ہیں
اس کو بس مسکرانا ہوتا ہے

اتنی باتیں ہو گئیں لیکن آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ اس فرینڈ رکویسٹ کا کیا ہوا جو مجھے فیس بک پر فہمی صاحب کو بھیجنی تھی؟۔ چلو بنا پوچھے ہی بتا دیتا ہوں۔ دراصل میں نے رکویسٹ بھیجی تھی، لیکن ایکسیپٹ نہیں ہوئی۔ میں سمجھا شاید ان کی نظر نہ گئی ہو اس لیے کچھ دن بعد کینسل کرکے پھر بھیجی، لیکن پھر وہی نتیجہ۔ ایسے ہی کرکے پانچ سات بار قسمت آزمائی ہوگی مگر پھر صبر کرکے بیٹھ رہا۔ سوچا تھا کبھی ملاقات کا موقع ملا تو گزارش کروں گا کہ رکویسٹ قبول کر لیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ اب ایسا نہیں ہو سکے گا۔

You may also like