موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے اندرعصری تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت ہونی چاہئے خواہ معاملہ بنیادی ڈھانچوں کا ہو یا پھر نصابی تبدیلی کا۔مگر اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ طرح طرح کے اقدامات سے معیار تعلیم متاثر نہ ہو اور صرف تجربے ہی تجربے نہ کئے جائیں بلکہ ٹھوس نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔ان دنوں ریاست بہار میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی تک محکمہ تعلیم ، حکومت بہار کی جانب سے کچھ اس طرح کے تجربے کئے جا رہے ہیں جس سے پوری ریاست میں ایک اضطرابی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔اگرچہ محکمہ تعلیم کا موقف ہے کہ ریاست میں تعلیمی ماحول کو سازگار کرنے کے لئے اور بالخصوص اسکولوں اور کالجوں میں طلبا کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور ملازمین کو پابندِ وقت کرنے کی خاطر محکمہ کی جانب سے کوششیں ہورہی ہیں۔دراصل گذشتہ چھ مہینوں سے محکمہ تعلیم کی طرف سے اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کی حاضری صد فی صد ہو اس کے لئے خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے اور اسکولوں اور کالجوں سے اساتذہ اور ملازمین کے غائب رہنے کی جو شکایتیں تھیں ان کو دور کرنے کے لئے سرکاری عملوں کے ذریعہ پوری ریاست کے تعلیمی اداروں کے اچانک معائنے کا سلسلہ جاری ہے۔ظاہر ہے کہ حکومت ان شکایتوں کی بنیاد پر جو اقدام اٹھا رہی ہے اس کی مخالفت نہیں کی جا سکتی بلکہ تعلیمی اداروں سے منسلک سرکاری اساتذہ اور ملازمین کو بھی اخلاقی طورپر حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔مگر ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ریاست میں تعلیمی ماحول سازگار کرنے کے نام پر جس طرح کی افراتفری ہے اور طرح طرح کے فرمان جاری کئے جا رہے ہیں اس سے تعلیمی ماحول سازگار ہونے کی امید کم ہے بلکہ اساتذہ ، ملازمین اور سرکاری عملوں کے درمیان رسّہ کشی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے حالات میں تعلیمی اداروں پر منفی اثرات مرتب ہونے لازمی ہیں ۔ حال ہی میںمحکمہ تعلیم کے ڈائرکٹر نے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں کو اپنے حکم نامے کے ذریعہ متنبہ کیا ہے کہ اب تعلیمی اداروں میں اساتذہ یا ملازمین اپنی یونین نہیں بنا سکتے اور اپنے مطالبے کو لے کر اپنے اداروں میں مظاہرہ یا دھرنا نہیں کر سکتے۔اب حکومت کے اس فیصلے کو لے کر اساتذہ اور ملازمین کی تنظیمیں آمنے سامنے ہیں ۔ بہار یونیورسٹی اساتذہ تنظیم کے ایک لیڈر سنجے کمار سنگھ جو اس وقت ممبر قانون ساز کونسل بھی ہیں انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور اس حکم نامے کو غیر آئینی وغیر جمہوری قرار دیا ہے۔لیکن محکمہ تعلیم نے ان کے بیان کی بنیاد پر ان کی پنشن پر پابندی لگا دی ہے اور اب ان کی حمایت میں مختلف تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ یونین تشکیل پر جو پابندی لگائی گئی ہے اسے واپس لیا جائے ۔لیکن محکمہ تعلیم کا موقف ہے کہ بیجا مطالبے کو لے کر یونین کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں درسی نظام متاثر ہوتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت معمولی مطالبے کو لے کر بھی اساتذہ یونین یا ملازمین کی یونین اپنے ادارے کے کاموں کو معطل کردیتی ہے جب کہ ان کا مطالبہ ریاست گیر سطح پر حکومت سے ہوتا ہے لیکن وہ حکومت پر دبائو بنانے کے لئے اس طرح کا کام کرتے ہیں ۔
بہر کیف! اس حکم نامے کی وجہ سے پوری ریاست میں اساتذہ یونین اور محکمہ تعلیم کے درمیان رسّہ کشی جاری ہے۔اسی طرح حال ہی میں محکمہ تعلیم نے پوری ریاست کے پرائمری وسکنڈری اسکولوں کے اوقات میں تبدیلی کردی ہے ۔ اب تمام اسکولوں میں نو بجے صبح سے پانچ بجے شام تک اساتذہ اور ملازمین کو اسکولوں میں رہنا ہے جب کہ طلبا کی چھٹی چار بجے ہو جائے گی اور ایسے طلبا جن کی شناخت کسی موضوع میں کمزور کے طورپر ہوگی اسے ایک گھنٹے کا وقت دیا جائے گا ۔دراصل محکمہ تعلیم کے آفیسران کا موقف ہے کہ اس طرح کے اقدام سے نجی ٹیوشن پر نکیل کسا جا سکے گا اور طلبا اسکول وکالج میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں گے ۔ اسی طرح یومیہ پانچ بجے کے بعد ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ محکمہ تعلیم پوری ریاست کے اسکول وکالج کے ہیڈ ماسٹر وپرنسپل کے ساتھ حاضری اور دیگر مسائل پر میٹنگ کرتے ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل نو بجے صبح اسکول وکالج پہنچتے ہیں وہ پانچ بجے کے بعد ویڈیو کانفرنسنگ کے لئے بھی اسکول وکالج میں رہنے پر مجبور ہیں ، اس مسئلے کو لے کر بھی اساتذہ کی تنظیموں کے درمیان اضطرابی کیفیت دیکھی جا رہی ہے اور اب وزیر اعلیٰ سے مختلف تنظیموں کے ذریعہ مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ محکمہ تعلیم کے ذریعہ روز بروز جس طرح کے حکم نامے جاری کئے جا رہے ہیں اس سے تعلیمی ماحول سازگار ہونے کی امید تو کم ہے بلکہ اساتذہ اور ملازمین نفسیاتی طورپر ذہنی الجھنوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ذریعہ محکمہ تعلیم اور اساتذہ کی تنظیموں کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اسی کس طرح دور کیا جاتا ہے کیو ںکہ اس طرح کے کشیدہ ماحول میں تعلیمی ماحول کا سازگار ہونا ممکن نہیں ہے۔دریں اثناء محکمہ تعلیم نے ایک نیا تجربہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ محکمہ تعلیم کے فیصلے کے مطابق اب ریاست کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کے لئے پرائیوٹ ایجنسیوں کے ذریعہ اساتذہ سے خدمات لی جائیں گی ۔ اس فیصلے کے مطابق کالجوں کے پرنسپل اور محکمہ تعلیم ، حکومت بہار کے ذریعہ منظور شدہ پرائیوٹ ایجنسیوں کے درمیان معاہدہ ہوگا اور وہ پرائیوٹ ایجنسی جس کالج میں جس موضوع کے اساتذہ کی کمی ہے اس کو پُر کرے گی ۔حکومت نے اس کے لئے چھ زمرے کے اساتذہ کے لئے معاوضے بھی طے کئے ہیں ۔ انسٹرکٹر کو پچاس منٹ کے کلاس کے لئے 500روپے اور پورے دن کے لئے 1500روپے دئے جائیں گے۔ اسپیکر کو بھی ایک کلاس کے لئے 500روپے اور پورے دن کے لئے 1500روپے۔ اسی طرح اسسٹنٹ پروفیسر کو فی کلاس 1000روپے اور پورے دن کے لئے2000روپے، ایسوسی ایٹ پروفیسر کو ایک کلاس یعنی پچاس منٹ کے لئے1200روپے اور پورے دن کے لئے3000روپے دئیے جائیں گے۔ پروفیسر اورپروفیسر آف ایکسلینس کو ایک کلاس کے لئے1500روپے اور یومیہ 3500روپے دئے جائیں گے۔
واضح ہو کہ ایک سال قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھی اس طرح کا حکم نامہ جاری کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں درسی نظام میں شامل ہونے کا موقع ملے گا اوراس سے طلبا وطالبات کو روایتی نصاب کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین کے ماہرین سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ جب تک تعلیمی اداروں میں مستقل اساتذہ کی بحالی نہیں ہوگی اور مختلف موضوعات کے اساتذہ کی کمیوں کو دور نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس طرح کے وقتی تجربوں کی بدولت معیاری تعلیم کا ماحول مستحکم نہیں ہو سکتا ا س لئے حکومت کو اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ مستقل اساتذہ کے بغیر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیقی شعبے کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا اور ملک کو اس وقت معیاری تحقیق کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کی بنیاد پر ہمارے تعلیمی ادارے عالمی تعلیمی اداروں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونے کی قوت پیدا کر سکیں۔