تقریباً تمام ہی ایگزٹ پولس نے ایک بار پھر سے این ڈی اے کو ، یعنی بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ، کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے کامیاب قرار دیا ہے ۔ مطلب یہ کہ ایگزٹ پولس کی مانیں تو نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بننے جا رہے ہیں ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایگزٹ پولس کی پیشن گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں ، بس اگر فرق ہوتا ہے تو سیٹوں کے کم یا زیادہ ہونے کا ۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایگزٹ پولس کے پیش کردہ اعداد و شمار مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں ۔ مثال 2004 کی لے لیں جب مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی ۔ این ڈی اے نے ’ انڈیا شائننگ ‘ کے نعرے پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا ، ایگزٹ پولس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ واجپئی 275- 240 سیٹیں جیت کر پھر حکومت بنائیں گے ۔ لیکن جب نتائج سامنے آئے تو این ڈی اے کو صرف 187 سیٹیں ہی مل پائی تھیں ، ایگزٹ پولس کے دعوے مکمل غلط ثابت ہوئے تھے ۔ اسی طرح 2014 میں ایگزٹ پولس نے کانگریس کی جیت کا دعویٰ کیا تھا ، لیکن کانگریس وہ الیکشن بُری طرح ہاری تھی ، اسے صرف 44 سیٹیں ہی مل سکی تھیں ۔ چار بار اسمبلی کے انتخابات میں ایگزٹ پولس کے دعوے غلط ثابت ہو چکے ہیں ، 2015 میں دہلی اسمبلی کے الیکشن میں ایگزٹ پولس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عام آدمی پارٹی کو 50 سیٹیں ملیں گی ، مگر اُسے 67 سیٹیں ملیں ! اسی طرح 2015 کے بہار اسمبلی کے الیکشن میں ایگزٹ پولس کا دعویٰ تھا کہ کسی کو اکثریت نہیں ملے گی ، مگر آر جے ڈی کا اتحاد سب سے زیادہ سیٹیں لے گیا ۔ اترپردیش میں 2017 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ایگزٹ پولس میں جتنی سیٹیں دی گئی تھیں اُس سے کہیں زیادہ سیٹیں اسے ملیں ۔ اور 2023 کے چھتیس گڑھ کے اسمبلی الیکشن میں ایگزٹ پولس کانگریس کو جِتا رہے تھے مگر جیتی بی جے پی ۔ مزید مثالیں بھی ہیں ، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایگزٹ پولس کے دعوے کئی بار غلط ثابت ہو چکے ہیں ۔ لیکن زیادہ تر دعوے درست ثابت ہوئے ہیں ۔ اب اِس لوک سبھا الیکشن کے لیے ایگزٹ پولس کے دعوے کس قدر درست اور کتنے غلط ثابت ہوتے ہیں ، یا غلط ثابت نہیں ہوتے درست ثابت ہوتے ہیں ، اس کا پتا 4 ، جون کو ہی چلے گا ۔ لیکن ایک عام سوچ یہی ہے کہ بی جے پی اس بار پھر جیتے گی ، اور مودی ایک بار پھر وزیراعظم بنیں گے ۔ اور یہ ممکن بھی ہے ۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو اس میں نہ کوئی افسوس کی بات ہے اور نہ ہی بہت زیادہ خوشی کی ۔ افسوس اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ ہار اور جیت کا معاملہ عام انسانوں کے بَس میں نہیں ہے ، وہ بَس کوشش ہی کر سکتے ہیں ، اور یقیناً انہوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی ، ملک کے ماحول کو بدلنے کی ، ایک تبدیلی لانے کی ، حالات کو بہتر بنانے کی ، لیکن ان کے مقابلے ایک بڑی تعداد ان کی بھی تھی جو تبدیلی نہیں چاہتے تھے ، انہیں ملک کا آج کا ماحول بہتر لگ رہا ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ زہر مزید پھلے ! لہذا اگر بی جے پی پھر جیتی تو یہ سمجھ لیں کہ بہتری چاہنے والوں کے مقابلے وہ اب زیادہ ہو گیے ہیں جو نہ تبدیلی چاہتے ہیں اور نہ بہتری ۔ اور اگر ایگزٹ پولس کے نتائج غلط ثابت ہوئے تو ؟ تو پہلے نتائج آ جانے دیں ، پھر بات ہوگی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)