یہ اچھا ہوا کہ ترکی کے صدارتی انتخاب میں رجب طیب اردوغان کے حریف کامیاب نہیں ہوسکے اور اردوغان ہی مسلسل تیسری بار صدر بن گئے۔ عالمی سطح پر ان کے صدر بننے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس پردنیا کے کئی بڑے ممالک میں الگ الگ انداز کے تبصرے ہورہے ہیں۔
ہندوستان میں سوشل میڈیا کی دنیا میں ہمارے نوجوان مبصرین کچھ اس مفہوم کے تبصرے کر رہے ہیں کہ ’اگر اردوغان کے حریف کمال کلچیدار جیت جاتے تو ترکی میں اسلامی اقدار کا جنازہ نکل جاتا اور ترکی کی سڑکوں پر خواتین رقص کرتی پھرتیں۔’
کمال کے بارے میں تین باتیں زور و شور سے کہی جارہی تھیں کہ وہ ترکی کو بد دینی کا گہوارہ بنادینے والے کمال اتاترک کے پیروکار ہیں‘ وہ ہم جنس پرستی کے فروغ اور آزادی کے علم بردار ہیں اور یہ کہ وہ یوروپ اور مغربی ممالک کے ہم نوا ہیں۔
اس موضوع پر کئی بار دوران الیکشن لکھنے کا خیال آیا لیکن ہر بار یہ سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کم مسائل درپیش ہیں جو دوسرے ملک کے اندرونی مسائل پر لکھا جائے۔ لیکن سوشل میڈیا پر ہمارے پرجوش نوجوانوں نے اردوغان کیلئے جو ’انتخابی مہم‘ چلائی اگر اردوغان کو اس کی شدت کا علم ہوجائے تو شاید وہ سوائے مسکرانے کے اور کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں۔
اردوغان ترکی کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں۔ انہیں ترکی کے 52 فیصد سے زیادہ ووٹر محبوب رکھتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ ترکی کا نام اب ترکیہ ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے نیا نام لکھنا شروع بھی کردیا ہے۔لیکن ترکی لکھنے میں جو معنی خیز آسانی ہے وہ ابھی ترکیہ لکھنے میں محسوس نہیں ہوتی۔
نام بدلنے کی ہوا ہمارے ملک میں بھی چل رہی ہے۔ نام بدلنے کی جو دلیل ہمارے حکمراں دیتے ہیں تقریباً وہی دلیل اردوغان نے بھی دی تھی۔ یہی کہ لفظ ’ترکیہ‘ سے ترکی کی تہذیب وتمدن اور اقدار و ثقافت زیادہ بہتر طریقہ سے واضح ہوتی ہیں۔
نام کی یہ تبدیلی اردوغان نے اپنے صدارتی الیکشن سے ایک سال پہلے کی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ ووٹروں کے اندر ’قومی فخر‘ کا احساس بیدار کرنا چاہتے تھے۔اس میں وہ کامیاب رہے۔
ترکی کے طریقہ انتخاب کی تفصیل ہمارے قارئین پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ آسان زبان میں اتنا بتانا کافی ہے کہ جو امیدوار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا ہے وہی صدر ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی بھی امیدوار اس نشانہ کو نہ پہنچ سکے اور سارے امیدوار پچاس فیصد سے نیچے رہیں تو پھر مقابلہ میں سب سے آگے رہنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ الیکشن ہوتا ہے۔ 2023کے الیکشن میں یہی ہوا۔اردوغان کو پچاس فیصد سے کچھ کم ووٹ ملے۔ پھر بھی وہ پہلے نمبر پر ہی تھے۔لیکن ان کے حریف کمال بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی تھے۔
ان دونوں کے درمیان دوبارہ ہونے والے مقابلہ میں کمال کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا اور ان کے ووٹر ان کے ساتھ قائم رہے تاہم اولین مقابلہ میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہنے والے امیدواروں کا کچھ حصہ اردوغان کومل گیا اور یوں انہیں 52 فیصد ووٹ حاصل ہوگئے۔ جب ہم 2018کے الیکشن کا جائزہ لیتے ہیں تو اردوغان کے قریب ترین حریف بھی ان سے کافی فاصلہ پر تھے۔لیکن 2023 کے حتمی نتائج سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اب تقریباً آدھا ترکی اردوغان کا مخالف ہے۔
تو کیا آدھا ترکی‘ ترکی کو بد دینی کا گہوارہ بنادینے والے کمال اتاترک کا پیروکار‘ ہم جنس پرستی کے فروغ اور آزادی کا علم بردار اور یوروپ اور مغربی ممالک کا ہم نوا ہے؟ یہ سوال فطری‘ منطقی اور مبنی بر دلیل ہے۔ ہم مغربی میڈیا کی اس منطق کا مذاق اڑاسکتے ہیں کہ ترکی کے حالیہ الیکشن کے نتائج نے ترکی کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے لیکن اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ آدھا ترکی‘ اردوغان کا مخالف اور ان کے حریف کمال کا حامی ہے۔ان کے حریف الیکشن کے دوسرے راؤنڈ میں اپنے ووٹروں کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے۔ لیکن چار یا پانچ فیصد ووٹروں کے اضافہ کے ساتھ اردوغان ہی صدر بن گئے۔
ترکی کے الیکشن میں کئی عناصر کار فرما تھے جن میں کردوں کا مسئلہ‘ شامی پناہ گزینوں کا مسئلہ اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ شامل ہے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کا تھا۔ 2022 میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تھی جو مارچ 2023 میں بھی 10 فیصد ہی رہی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردوغان کے زمانے میں بے روزگاری پر کوئی خاص قابو نہیں پایا جاسکا۔ 2019 میں یہ شرح پونے 14 فیصد تھی۔ یعنی اردوغان نے اپنی مدت صدارت کے دوسرے دور میں محض پونے چار فیصد بے روزگاری پر ہی قابو پایا۔ یعنی ہرسال ایک فیصد سے بھی کم۔
دس فیصد بے روزگاروں کی فوج بہت بڑی ہوتی ہے۔ ایسے ملک میں تو بہت ہوتی ہے جہاں 15 سے 65 سال کی عمر کے افراد کی تعداد 68 فیصد ہو۔ عمر کا یہی وہ حصہ ہے جس میں روزگار کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ ترکی میں 18سال کی عمر کا نوجوان ووٹ ڈالنے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اگر محتاط اوسط نکالا جائے تو بے روزگاری سے ناراض ووٹرس کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد کو اردوغان کے خلاف ووٹ دینا چاہئے تھا۔ لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔
مختلف رپورٹوں کا ایک جائزہ بتاتا ہے کہ ترکی میں پچھلے 62 برسوں میں مہنگائی کی شرح نے ایک فیصد سے 72 فیصد تک کا اوسط طے کیا ہے۔ لیکن ’اے پی‘ایجنسی کے ایک جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2020 میں مہنگائی کی یہ شرح 80 فیصد کو پار کرگئی تھی۔ ظاہر ہے کہ محض سات آٹھ مہینوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی ہوگی۔ اس کے باوجود اردوغان کامیاب ہوگئے۔
جس ملک میں 68 فیصد بے روزگاری اور80 فیصد مہنگائی ہو وہاں کے ووٹرس اپنے دو دہائیوں سے برسر اقتدار حکمراں سے اتنی محبت کریں کہ وہ نامساعد حالات اور سخت مقابلہ میں بھی کامیاب ہوجائے تو یہ اس مہذب دنیا کا ایک ’کرشمہ‘ ہی کہلائے گا۔ ایسے ’کرشموں کے ظہور‘ میں ترکی اکیلا نہیں ہے۔ ہم بھی تقریباً اسی کے نقش قدم پر ہیں۔
اردوغان صدر بننے سے پہلے مسلسل دوبار یعنی 11 سال وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ ترکی میں وزیر اعظم کے عہدہ کی مدت ساڑھے پانچ سال ہوتی ہے۔ ترکی کے آئین کے مطابق وہ تیسری بار وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ لہذا وہ صدر کے الیکشن میں اترے اور کامیاب ہوگئے۔ بلاشبہ یہ ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
ان کے طاقتور ترین لیڈر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب تک وہ وزیر اعظم رہے عاملہ کے سارے اختیارات بھی وزیر اعظم کے پاس رہے اور صدر محض ربڑ کی مہر۔ لیکن جب وہ صدر ہوگئے تو اب سارے اختیارات صدر کو منتقل ہوگئے اور وزیر اعظم محض زیب داستاں کےلیے رہ گیا۔
انہوں نے 16اپریل 2017 کو ایک آئینی ریفرینڈم بھی کرایا‘ اس میں کل 18 ترمیمات پیش کی گئیں۔ اس کے ذریعہ انہوں نے ترکی کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرکے وزیر اعظم کا عہدہ بھی ختم کردیا۔ انہوں نے 2029 تک اقتدار میں رہنے کا راستہ بھی صاف کرلیا۔ اسی وجہ سے وہ اب تیسری بار الیکشن میں حصہ لے سکے۔ ان کی انتخابی مہم کا ایک جائزہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اس بار قوم پرستی کا سوال زور و شور سے اٹھایا اور بے روزگار ی اور مہنگائی کے اشوز کو دبانے میں کامیاب ہوگئے۔
دوسرے راؤنڈ میں کامیاب ہونے کے بعد ترکی کی سیاسی راجدھانی انقرہ میں واقع ان کے عالیشان محل کے باہر ان کے چاہنے والوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ بلاشبہ ایسے مناظر تاریخ عالم میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اردوغان نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی ’جمہوریت نوازی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: بائے بائے کمال۔
اس موقع پر مجھے نہ جانے کیوں ہندوستان کی اپوزیشن اور خاص طور پر ’کانگریس مکت‘ بھارت کا خیال آگیا۔ان کے حامیوں نے اپوزیشن لیڈر کمال کوترکی کو بد دینی کا گہوارہ بنادینے والے کمال اتاترک کا پیروکار بتایا تھا۔ لیکن اردوغان فتح یابی کے بعد کمال اتاترک کی قبر پر گئے اور ’بابائے ترکی‘ کو گلہائے عقیدت پیش کیے۔
اپنے حریف کمال کو انہوں نے یوروپ اور مغربی ممالک کا ہم نوا بھی بتایا تھا لیکن 1998میں جیل سے باہر آنے کے بعد اردوغان نے اپنے اسلام پسند سیاسی استاذ نجم الدین اربکان سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ انہوں نے اپنی پارٹی بناکر سرگرم سیاست میں قدم رکھا اور یوروپی یونین کی ممبرشپ حاصل کرنے کی تگ ودو شروع کردی۔ اتنے عرصہ تک وہ ترکی کو یوروپی یونین میں شامل کرنے کےلیے کوشاں رہے تاہم اس بار الیکشن سے پہلے انہوں نے اس ’گناہ‘ کا خیال ترک کردیا۔
مختلف آزاد مبصرین کے جائزوں کے مطابق 15 جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت پر قابو پانے کے بعد انہوں نے ترکی کے اپنے ان ہم نوا اسلام پسندوں پر یورش ویلغار کی جو بعد میں ان کے سیاسی مخالف ہوگئے تھے۔ انہوں نے بغاوت کے الزام میں سینکڑوں لوگوں‘ یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کو بھی جیلوں میں ڈال دیا۔
اس وقت رپورٹیں آئی تھیں کہ ایسے واقعات میں 600 بچے جیلوں میں پیدا ہوئے۔سینکڑوں انجینئروں‘ ڈاکٹروں‘ وکیلوں اور بہت سے ججوں کو بالجبر معزول کردیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ دین اسلام کے واعظ فتح اللہ گلین کی عالمی تحریک ’خدمت‘ کے رکن تھے۔ ان میں سے بیشتر قرآن کے حافظ اور تعلیمات اسلامی پر عامل تھے۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ فتح اللہ گلین نے اردوغان کے ابتدائی سیاسی ایام میں ان کی حمایت کی تھی۔ ہم اس سے زائد گلین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ ان کی تحریک نے ترکی سمیت دنیا بھر میں 100سے زیادہ معیاری اسکول قائم کیے جہاں ماڈرن ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ اعلی اسلامی اقدار کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔ ترکی میں تو ان کی کئی یونیورسٹیاں بھی تھیں۔ لیکن چشم زدن میں یہ سارے ادارے بند ہوگئے۔
ان اداروں کو چلانے والے ترکی کے متمول افراد کو پکڑ پکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا۔ کہا گیا کہ ہم نے انہیں ایسی جگہ پہنچادیا ہے کہ ‘جہاں وہ اس دنیا کا سورج نہیں دیکھ سکیں گے‘۔ ان کے داماد اور امور ثقافت کے وزیر نے کہا کہ وہ ’موت کی بھیک مانگیں گے اور ہم انہیں موت نہیں دیں گے‘۔ یہ سب عالمی اخبارات کی برقی لائبریریوں میں موجود ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اردوغان کے زمانے میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور معاشی رشتے مزید مستحکم ہوئے۔گزشتہ 26 برسوں میں ترکی سے اسرائیل کو کی جانے والی برآمد 12 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی ہے۔ ان میں21 سال سے اردوغان ہی برسر اقتدار ہیں۔ 1995 میں 288 ملین ڈالر کا ایکسپورٹ تھا جو 2021 میں 6 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ ترکی اسرائیل کو خام لوہے کی چھڑیاں‘ کاریں اور زیورات بھیجتا ہے۔. جبکہ اسرائیل سے ترکی کو 2 بلین ڈالر کی برآمد کی جاتی ہے۔ اسرائیل ترکی کو ریفائنڈ پیٹرولیم’ لوہے کا کباڑ اور پولیمرس بھیجتا ہے۔
بہرحال یہ سب ترکی کا اپنا معاملہ ہے۔ اردوغان ترکی کے باضابطہ منتخب حکمراں ہیں۔ وہ اپنی پالیسیوں میں آزاد ہیں۔ ہندوستان کے تناظر میں میری تشویش کا سبب دوسرا ہے۔ ہمارے اپنے لوگ جو کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں وہ ہر جگہ سنا اور پڑھا جارہا ہے۔ ترکی اور ہندوستان کے سیاسی احوال میں مماثلت کے باوجود ہمیں اظہار خیال کے وقت خارجی سیاست کے پہلو کو سامنے رکھنا ہوگا۔
خارجی سیاست کے محاذ پر اردوغان کو یہاں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہند و پاک کے متنازعہ اشوز پر ان کی رائے ہندوستان سے مختلف ہے۔ اردوغان کو آپ کسی بھی سبب سے پسند کرتے ہوں آپ اس کیلئے آزاد ہیں۔ لیکن اس پسند کا اظہار متوازن اور ملک کی خارجہ پالیسی کے اعتبار سے کیجیے ۔ فکری وابستگی صرف اپنے دین و ایمان سے رکھئے اور سیاسی وابستگی اپنے ملک کی حدود میں رکھئے۔ ہر بات کھل کر نہیں کہی جاتی۔ عقل مندوں کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)