(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کی اسمبلیوں کے ساتھ ملک کی چار ریاستوں کی پندرہ اسمبلی سیٹوں اور مہاراشٹر کی ایک لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخاب مکمل ہو گیا ہے ۔ اس بار بھی ہر بار کی طرح پولنگ کا فیصد کم رہا ۔ حالانکہ الیکشن کمیشن اور تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے پولنگ فیصد بڑھانے کے لیے محنت بھی کی تھی اور زوردار اپیلیں بھی کیں ، لیکن لگتا ہے جیسے عوام کی ساری دلچسپی ووٹنگ کے عمل سے ختم ہو گئی ہے ، یا ختم ہوتی جا رہی ہے ! ایسا کیوں ہو رہا ہے ، اور اس کا سد باب کیسے کیا جا سکتا ہے ، اس پر تمام ہی سیاسی پارٹیوں کو اور الیکشن کمیشن کو غور کرنا ہوگا ، ورنہ آنے والے الیکشنوں میں پولنگ کا فیصد مزید گر جائے گا ۔ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے کے بعد جو ایگزٹ پول آئے ہیں اُن میں ’ مہایوتی ‘ کی کامیابی کی پیشن گوئی کی گئی ہے ۔ اور اگر ’ مہایوتی ‘ پیشن گوئی کے مطابق کامیاب ہوجاتی ہے ، تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی ۔ ریاست میں ’ مہایوتی ‘ کی ہی حکومت تھی ، اور جس کی حکومت ہوتی ہے ، اسے کچھ نہ کچھ فائدے ملتے ہی ہیں ۔ الزامات لگ رہے ہیں کہ ’ مہایوتی ‘ نے دولت اور طاقت کا بھرپور استعمال کیا ، اور ووٹروں کو لبھانے کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جو ممکن تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ الزامات سچ بھی ہوں ، کیونکہ بی جے پی کے ایک جنرل سکریٹری ونود تاوڑے لاکھوں روپیے کے ساتھ پکڑے گیے ہیں اور ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو گئی ہے ۔ لیکن یہ تو ہر وہ سیاسی پارٹی کرتی ہے جس کی حکومت ہوتی ہے ۔ یقیناً دولت اور طاقت کا مظاہرہ الیکشن کی جیت اور ہار میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم کردار اس ذہن سازی کا ہوتا ہے ، جو سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں ، اور اس بار لگتا ہے کہ ’ مہایوتی ‘ میں شامل تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے ذہن سازی کی مہم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ انتہائی زہریلے نعروں سے ووٹرں کی ذہن سازی کی گئی اور لوگوں میں پھوٹ ڈالی گئی ۔ بلاشبہ جب وزیراعظم نریندر مودی کی زبان سے ’ ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ کا نعرہ نکلا ہوگا تو کچھ نہ کچھ ووٹروں کی ذہن سازی ہوئی ہوگی ، اور ووٹ تقسیم ہوئے ہوں گے ۔ یہ جو نفرت ، پھوٹ اور فرقہ پرستی پھیلا کر ووٹوں کو منقسم کیا گیا ہے ، اس کے الیکشن کے نتائج پر اثرات پڑ سکتے تھے ، بلکہ پڑے ہیں ۔ ’ مہایوتی ‘ اگر جیتی تو اس کی جیت میں جہاں دولت ، طاقت اور فرقہ پرستی کا نمایاں کردار ہوگا ، وہیں سیکولر مزاج کے ووٹروں کے ووٹوں کے شفٹ ہونے کا بھی کردار ہوگا ۔ اور مسلم ووٹوں کے تقسیم ہونے کا بھی ۔ اس دفعہ عام مسلمانوں نے سمجھداری کا ثبوت تو دیا ہے ، مگر مسلم لیڈروں نے ان کے ووٹوں کو تقسیم کرانے کے لیے جو کھیل کھیلا ہے ، وہ انتہائی گھناؤنا ہے ۔ مسلمانوں کے ووٹ کچھ اس طرح سے تقسیم ہوئے بلکہ تقسیم کرائے گئے ہیں کہ وہ مسلم سیاست داں جو کئی کئی دفعہ جیت کر آئے ہیں ان کی کامیابی بھی مشکوک ہو گئی ہے ۔ ممکن ہے اس بار مہاراشٹر اسمبلی میں پہلے کے مقابلے مسلم نمائندوں کی تعداد گھٹ جائے ، اور اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار خود مسلمان ووٹر اور مسلمان قائد ہوں گے ۔ ویسے اس طرح کے ایگزٹ پولس پہلے بھی آئے ہیں اور غلط ثابت ہوئے ہیں ، اس لیے ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر وہ ہاری بھی تو بھی اس کی اتنی سیٹیں ہوں گی کہ وہ ایک مٖضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کر سکے ۔ جھارکھنڈ میں بھی این ڈی اے کی واپسی کی پیشن گوئیاں ہیں ، اور جہاں جہاں ضمنی الیکشن ہوئے ہیں وہاں بھی بی جے پی کے لیے حالات بہتر بتائے جا رہے ہیں ۔ نتائج اگر ایگزٹ پولس کے مطابق آئے تو ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کو غور کرنا ہوگا کہ اس کی ناکامی کا سبب کیا ہے ، اور اس سے کہاں چوک ہوئی ہے ، اور پھر اسے نئے سرے سے اُن عناصر سے ٹکرانے کے لیے میدان میں اترنا ہوگا ، جو جمہوریت کو دفن کرنا چاہتے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)