دارالعلوم بالاساتھ، سیتامڑھی
مجھ کو کسی سے کام کیا؟میرا کہیں قیام کیا؟
میرا سفر ہے در وطن،میرا وطن ہے، درسفر
دنیا کی پوری زندگی ہی درحقیقت ایک سفر ہے، ایسا سفر جس کی انتہا کسی کو معلوم نہیں، پھر زندگی کے اس سفر میں جو چھوٹے چھوٹے سفر ہوتے ہیں انہیں ”سفر در سفر“ ہی کہا جا سکتا ہے۔
10/ صفر 1444ھ مطابق 8/ ستمبر2022ء کو گھر سے چلا اسلام پور پہنچا وہاں پہلے سے حضرت حکیم مولانا افتخار احمد قاسمی براری موجودتھے حضرت مولانا محمد اعجاز احمد مد ظلہ سوبھن دربھنگہ کے فرزند عزیز محمد فہیم الدین میرے منتظر تھے بندہ رفیق محترم حضرت حکیم افتخار احمد قاسمی برار،نانپور، سیتامڑھی، الحمید انٹر نیشنل دواخانہ، ناگپاڑا،ممبئی(معالج خصوصی)مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف ”پٹنہ“ کی امارت میں یہ قافلہ چلا اور امارت شرعیہ پھلواری شریف پہنچا، استقبالیہ کے نزدیک ہی پہلی ملاقات حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی، نائب امیر شریعت پھلواری شریف پٹنہ سے ہوئی، ہم لوگ مہمان خانہ نمبر۴ میں رکے معاً بعد حضرت الحاج مولانا محمد اعجاز احمد قاسمی سوبھن دربھنگہ”سابق چیئر مین بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ پٹنہ کمرہ میں تشریف لے آئے اور ان سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔پروگرام کی ترتیب کے مطابق ضروری کام انجام دیے گئے، کل ہو کرصبح 8/ بجے یہ قافلہ مونگیر بہار کے لئے چلا اور گیارہ بج کر چالیس منٹ پر جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر بہار میں حاضری ہوئی، یہاں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی مدظلہ سے شرف نیاز حاصل ہوا، قریب سوا بارہ بجے حضرت مولانا امتیاز احمد رحمانی زید مجدہ تشریف لائے اور فرمایا کہ آج جمعہ میں مجھ کو بیان کرنا ہے،ساتھ ہی خطبہ دیکر نماز بھی پڑھانی ہے اولاً میں نے معذرت چاہی لیکن ان کا اصرار ہوا کہ تمہیں ہی یہ کام آج انجام دینے ہیں، لہذا پھر عذر کا کوئی موقع نہیں رہا اور ہاں کرنی پڑی، بعد نماز حضرت شاہ مولانا محمد علی مونگیری ؒ، حضرت شاہ منت اللہ رحمانی ؒ اور پھر حضرت امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی قدس سرہ کے آستانے پر حاضری ہوئی اور فاتحہ خوانی کا موقع ملا، پھر حضرت امیر کے دست راست مولانا محمد احتشام عالم رحمانی زید لطفہ سے ملاقات ہوئی، ان کی فکری بلندی اور اعلیٰ اخلاق نے ہم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔انھوں نے رحمانی فاؤنڈیشن لے جا کر تفصیلی معائنہ کروایا، پھر جامعہ رحمانی کی جملہ تعمیرات کا مشاہدہ کروایا اس سے حضرت ؒ کے فکری تنوع کی غماز ی ہوتی ہے، ایک چھ منزلہ عمارت جوکہ”درس گاہ“ سے معروف ہے، اس کا حسنِ تعمیر اپنے آپ میں ایک مثال ہے، یہاں کی نظافت ضرب المثل ہے”خانقاہ رحمانی“ ہندوستان کی نہایت معتبر اور بافیض خانقاہ ہے، ہماری فکرولی اللّہی ہے توہمارا تزکیہ رحمانی ہے، یہاں نماز عصر تک یہ قافلہ رہا، بعد نماز وہاں سے باچشم تر رخصت ہوا، راستہ میں چک بہاؤ الدین ہمارے پرو گرام کا ایک حصہ تھا، دور مغلیہ میں پانچ سو بیگھ زمین دے کر شاہ بہاء الدین ؒ کو یہاں بھیجا گیا تھا یہ بابا فرید الدین گنج شکر خلیفہ حضرت بختیار کاکیؒکے پڑپوتے ہیں، یہاں سب اپنے کو فریدی لکھتے ہیں اور سید کہلاتے ہیں، یہاں ایک ادارہ”مدرسہ اسلامیہ دعوۃ الحق“ قائم ہے، اس ادارہ کے روح رواں حضرت الحاج قاری محمد یعقوب مدنی ہیں،ان سے مل کر دل باغ باغ ہو گیا، انہوں نے اکیس حج کر رکھے ہیں، حضرت مدنی کی زیارت کا شرف حاصل ہے اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفہ ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جب جمعیۃ علما، گجرات کا اجلاس شہر بھروچ میں ہونا طے ہوا تو مرکز سے تیاری کیلئے پہلے مجھے بھیجا گیا،پھر قاری محمد حمادؒ اور اس کے بعد مولانا سید احمد ہاشمیؒ تشریف لے گئے۔ فرمایا میں حضرت مولانا عبد الحنانؒ کے کمرے میں رہا اور ان کی محبتوں سے نوازاجاتا رہا، ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد یوسف فریدی ہیں، مکہ میں رہتے ہیں، ان سے بھی ملاقات ہوئی، ان سے احقر کی ملاقات بعد نماز مغرب باب العمرۃ پر ہوئی تھی، یہ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے مدرسہ میں معلم ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ جب کبھی حضرت مولانا عبد الحنانؒ اور قاری انواراحمد بہادر گنج تشریف لاتے تو مکی ؒ کی خدمت میں حاضری ہوتی رہتی تھی،مکیؒ کی وفات ساؤتھ افریقہ میں ہوئی،لیکن جنۃ البقیع میں محو خواب ہیں۔
یہاں شاہ بہاؤالدینؒ پر فاتحہ پڑھی گئی اور یہ قافلہ یہاں سے چل کر سوبھن دربھنگہ پہنچا اور حضرت مولانا محمد اعجاز احمد دامت برکاتہم کے گھر پر قیام کیا،مولانا مدظلہ اٹھارہ کتابوں کے مصنف ہیں، تعلیم کی اعلیٰ سندیں ہیں، خواجہ آصفی حربی پر پی،ایچ،ڈی بھی کر رکھا ہے، صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ ہیں، انہیں بیسٹ ٹیچر بیسٹ سٹیزن اور ان کے علاوہ دسیوں طرح کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، متھلا آئی ٹی آئی گروپ کے سر پرست ہیں، ایک اسکول چلا تے ہیں محمد پور دربھنگہ میں لڑکوں کا مدرسہ چل رہا ہے اور مدرسہ اصلاح البنات سوبھن،دربھنگہ کے بانی ہیں، پٹنہ سے مونگیر پھر چک بہاء الدین اور آخر گھر تک ان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا، مولانا دل کے نیک، جہاں دیدہ ہیں اور مختلف دینی ورفاہی کاموں میں سرگرم رہتے ہیں۔
بہر حال یہ سفر قطب الاقتاب حضرت مولانا بشارت کریم گڑھول بدھ نگرہ،سیتامڑھی کے آستانہ ئ عالیہ پر حاضری کے بعد اختتام کو پہنچا۔الغرض ان نفوس قدسیہ اور علماے ربانی سے کسب فیض کا موقع ملا اور علم وفکر کے گلستاں جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کا تو پوچھنا ہی کیا، اللہ رب العزت ان مقامات عالیہ کی حاضری اور انفاس قدسیہ سے ملا قات کو ہم سب کے لئے توشہئ آخرت بنائے اور ان کے فیوض ہم تک بھی منتقل ہوں۔
أحب الصالحین ولست منہم
لعل اللہ یرزقني صلاحا