09685972242
بیسویں صدی کے نصف آخر میں اردو کے شعری منظر نامے پر جن شعراء کے نقوش کالحجر ثابت ہوئے ان میں زیب غوری کا نام نمایاں ہی نہیں معتبر بھی ہے ۔ وہ کانپور کے ایک ایسے تاجر باپ کے چہیتے بیٹے تھے جس نے ان کی ظاہری تربیت کے ساتھ ساتھ فکری رجحان پر بھی خصوصی توجہ دی چنانچہ بقول خود زیب کے:
"ذوق شاعری کی بنیاد گہری ڈالنے میں میرے والد صاحب کا ہاتھ رہا ہے ۔وہ جب بھی شام کو گھر آتے تو ناشتے وغیرہ کے بعد آرام کرسی پر دراز ہوکر مجھے اپنے پاس بلاتے ، میں ان دنوں بہت ابتدائی درجوں میں تھا اور وہ مجھ سے غالب کی غزلیں ترنم میں سنتے ۔غالب اور میر کے علاوہ انھوں نے اگر کبھی کسی اور غزل کی فرمائش کی تو وہ سرآج دکنی کی غزل ” چلی سمت غیب سے اک ہوا ۔” تھی ۔غزلیں پڑھنے کے دوران میراتلفظ بھی درست کرتے رہتے ۔پھر کچھ زمانہ کے بعد جب میری استعداد علمی بڑھی تو کبھی کبھی موڈ میں آکر اشعار غالب کے رموز و نکات بھی بیاں کرتے جاتے اور یہ بنیاد روز بروز گہری ہوتی چلی گئی اس طرح شاعری دھیرے دھیرے میرے خون میں شامل ہوتی چلی گئی ۔ "
زیب نے لکھا ہےکہ صرف اردو ہی نہیں انگریزی ادب کے شہ پاروں تک بھی ان کے والد نے ان کی رہنمائی کی ۔ یہ ایک کلیہ ہو یا نہ ہو لیکن کسی بچے کی ایسی تربیت اس کی ذات کے نہاں خانوں میں چھپے فنکار کو ابھرنے میں ضرور معاون ہوتی ہیں
۔بیسویں کا وہ وسطی دور جب آزادی کے بعد ہماری شعری ادبی فکر بھی شکست و ریخت کی زد پر تھی کانپور کے بساط سخن پر حسرت موہانی ۔ ثاقب کانپوری ۔نشور واحدی ۔کوثر جائسی اور فنا نظامی جیسے بزرگ اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ و آہنگ سے محفلیں آباد کئے ہوئے تھے اس کے علاوہ صنعتی شہر ہونے کے سبب یہاں مارکسی نظریات پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی چنانچہ ایک طبقہ ترقی پسند نظریات کا بھی اسیر تھا ۔ شروع میں زیب نے بھی اس کا اثر قبول کیا ۔مگر جلد ہی وہ اس کے حصار سے نکل آئے ۔ان کو اس حصار سے نکالنے میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں شمس الرحمن فاروقی کا ہاتھ یقینا٘ ہے جو ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں بسلسلۂ ملازمت کانپور میں موجود تھے اور شعراء کا ایک بڑا طبقہ ان کا حلقہ بگوش تھا ۔
زیب ایک اچھے شاعر ہونے کے باوجود اپنے شعری سروکار سے کبھی مطمئن نہیں ہوئے اور تلاش و تجسس کی راہوں پر اپنے لہو کے رنگ اڑاتے رہے ۔یہی وجہ رہی کہ فاروقی کے حلقۂ جدیدیت میں آنے کے بعد انھوں نے نہ صرف اپنا محاسبہ کیا بلکہ روایتی سانچوں کو توڑے بغیر اس میں نئے رنگوں کی آمیزش سے وہ لہجہ دریافت کیا جس میں پیکریت بھی تھی اور کلاسیکیت بھی ۔وہ نہ ایک اچھے مصور تھے بلکہ بقول شمس الرحمن فاروقی پکاسو اور پار کلے جیسے مصوروں کے فن پاروں پر ان کی گہری نظر تھی جس کا استعمال انھوں نے اپنی شاعری میں پوری جاذبیت اور فنکاری سے کیا ہے۔اس سلسلے میں فاروقی صاحب زیب کے شعری مجموعے زرد زرخیز کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
” زرد زرخیز کی غزلوں کے حوالے سے میں نے مصوری اور پکاسو کا ذکر خاص طور پر کیا ہے ۔اپنی انفرادی پہچان کی تلاش میں زیب غوری کی نظر مصوری پر بار بار پڑتی تھی اور اس انفرادیت کا سراغ انھیں اس بات میں ملا تھا کہ وہ ایسے الفاظ اور پیکر دریافت کریں جو شاعر کو نہیں مصور کوسوجھیں۔ دریافت کے اس عمل بلکہ اس کشمکش کی وجہ سے زرد زرخیز کا بیشتر کلام ایسا سانچا نظر آتا ہے جس کی شکل بار بار بنتی اور بگڑتی ہے ۔لہذہ اس کا مجموعی تاثر ایک زبردست سعئ اور ایک غیر معمولی خاکے کا ہے ۔ایسا خاکہ جس کی بنیاد پر کوئی وسیع کینوس تیار ہوسکتا ہے "
۔زیب غوری اپنے حلقے میں پڑھے لکھے ہی نہیں تھے بلکہ اردو انگریزی ادب کے شناور بھی تھے ۔چنانچہ انھوں نے اردو کے کلاسیکی رنگوں کو جدید منظر نامے میں اس طرح ضم کیا کہ ان کی شاعری جدیدیت کا ایک اہم استعارہ بن گئی اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ زیب ایک اچھے مصور بھی تھے چنانچہ یہاں بھی انھوں نے قلم سے برش کا کام لے کر وہ شعری پیکر تراشے جن میں عصری کیف و کم بھی ہے اور قدیم روایتوں کا عکس بھی ۔ اس حوالے سے یہ چند اشعار جو مجھے یاد آرہے ہیں پیش کر رہا ہوں:
یہ کس نے جوش میں جام بہار اچھال دیا
گئے ہیں رنگ کے چھنٹے چمن سے باہر تک
ہوا چلی تو مرا دل لرز لرز اٹھا
مجھے لگا کہ کوئی برگ زرد میں بھی ہوں
پڑی ہوئی کسی تاریک طاق پر اے زیب
یہیں کھنڈر میں کوئی شمع سرد میں بھی ہوں
لپیٹ رکھا ہے انگلی پہ وقت کو میں نے
ازل دکھاؤں کہ روز ابد دکھاؤں تجھے
تھی موج لپکتی ہوئی میرے ہی لہو کی
چہرہ کوئی دیوار کے روزن میں نہیں تھا
مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا
نجانے تیرے تماشے میں میرا کام ہے کیا
جیسے پریاں شب کے سناٹے میں ساحل کی طرف
بڑھ رہی ہیں لمبی لمبی کشتیاں کھیتی ہوئی
کیا کنول روشن تھا اس کے حسن کا پانی میں زیب
عکس اپنا دیکھ کر اس کو بھی حیرانی ہوئی
رات میں نے ایک خرقہ پوش کو دیکھا تھا زیب
اپنے چہرے کے اجالے میں رفو کرتے ہوئے
جدید شاعری میں جہاں دوسری بہت سی تبدیلیاں ہوئیں وہیں پیکریت کو بھی فروغ ملا ۔ پیکر پرست شعراء کے حوالے سے اس وقت کئی اہم نام سامنے آتے ہیں مثلا۔کیف احمد صدیقی جن کا جدیدیت کے حوالے غالباٗ پہلا مختصر سا مجموعہ ” سورج کی آنکھ ۱۹۶۰ میں شائع ہوا تھا جس پر شمس الرحمان فاروقی کا تفصیلی مضمون تھا اس کے علاوہ چند دوسرے بھی تھے مثلاٗ غلام مرتضی راہی جن کے کلام میں اس کے عکس دیکھے جا سکتے ہیں ۔خود کانپور میں کئی شاعروں کا یہ پسندیدہ رنگ تھا ۔لیکن زیب کے مقابلے میں ان کی حیثیت بہرحال ثانوی رہی ۔اس کی ایک وجہ تو زیب کی مقناطیسی شخصیت کا وہ جادو تھا جو ہند و پاک میں دور دور تک چل رہا تھا ۔ان کے حلقۂ احباب میں شمس الرحمن فاروقی نیر مسعود اور عرفان صدیقی جیسے نکتہ داں اور نکتہ رس موجود تھے پھر یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں پیکریت جن رنگوں سے عبارت ہے وہ ان کے ہم عصروں کے یہاں دور دور تک نظر نہیں آتی اس کے علاوہ زیب کے یہاں لفظیات کا جو خلاقانہ استعمال ہے اور شعری پیکر تراشی میں جو بے ساختگی اور غیر شعوری کیفیت کا احساس ہوتا ہے وہ یقیناٗ اہم ہے انھوں نے لغت باہر الفاظ کو بھی نہ صرف یہ کہ پوری فنکاری سے برتا بلکہ غزل کے ڈکشن میں پیش بہا اضافہ بھی کیا ۔
جیسا کہ اوپر آچکا ہے زیب نے میر و غالب کو بچپن سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔اس کے علاوہ فارسی شعراء کا کلام بھی ان کی نظر میں تھا تو اس کا اثر یا وہ ترکیب بندی اگر زیب کے یہاں نظر آتی ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے مثلاٗ یہی دیکھئے:
ہر طرف نظر کردیم ہم بخود سفر کریم
اے محیط حیرانی ایں چہ بیکرانی ہاست
بیدل
خانۂ دل سے بام فلک تک کوئی رکاوٹ روک نہ ٹوک
باٹوں پاٹ کھلے دروازے آتی جاتی خوشبو یہ
زیب
گلیوں میں میری لاش کو کھیچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہگزار تھا
غالب
اک باد تیزگشت اڑا لے گئی مجھے
جاں دادۂ ہلاکت رفتار میں ہی تھا
زیب
کیا جانے چشم تر کے پرے جی کو کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
میر
ایسا لگا ہے جیسے خموشی میں شام کی
میں ہی کھڑا ہوا ہوں سمندر کے پار بھی
زیب
بہرحال یہ تو میر و غالب سے زیب کی عقیدت یا اثر جو بھی کہئے اس کے اثرات ان کی شاعری پر نظر آتے ہیں ۔ویسے بھی بیسویں صدی کے بیشتر رہروان سخن میر و غالب کی خانقاہ پر حاضری دیئے بغیر اپنا سفر مکمل نہیں کر سکے ہیں ۔یہاں کسی ثبوت یا حوالے کی ضرورت نہیں کہ ادب کا ہر طالب علم اس سے بخوبی واقف ہے ۔ زیب کی شاعری پر یہی نہیں کہ قدیم کلاسیکی شعراء کا پرتو کہیں کہیں نظر آتا ہے ان کی شاعری میں ہم عصروں کی بازگشت بھی موجود ہے خصوصاٗ منچندہ بانی ۔شکیب جلالی ۔عرفان صدیقی یا ظفر اقبال جیسے ہمعصروں سے زیب کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔یہاں بحث اس سے نہیں کہ کس نے کس سے استفادہ کیا بلکہ بتانا یہ ہے کہ کوئی بھی شاعر اپنے ہم عصر شعراء کے فکری رویوں ،لفظیات یا موضوعات سے خود کو بچا نہیں پاتا ہے ۔مثلا عرفان صدیقی کا یہ شعر دیکھئے:
میں اپنے نقد سِخن کی ذکواۃ باٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
زیب غوری کہتے ہیں
موضوع سخن ہمت عالی ہی رہے گی
جو طرف نکالوں گا مثالی ہی رہے گی
اسی طرح ظفر اقبال کا شعر ہے کہ
ظفر یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
زیب کہتے ہیں:
لفظوں سے مٹ چکے ہیں معانی کے خد و خال
بگڑی ہوئی زبان کی صورت ملی مجھے
زیب کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ان کا انداز تخاطب بھی ہے ۔ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ واحد متکلم کے زمرے میں آتا ہے ۔ مجھے اپنی بات واضع کرنے کے لئے پھر فاروقی صاحب کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"زرد زر خیز کی غزلوں میں ایک زیب غوری تو شاعر پے یعنی وہ تجربات بیان کررہا ہے جن سے بطور شاعر وہ دوچار ہوتا ہے ۔وہ تجربات عام طور پر اظہار نارسائی کے ہیں ۔لیکن دوسرا زیب غوری بھی ہے جو شاعر نہیں ہے بلکہ اشعار کا متکلم ہے ۔یہ متکلم وہ ہے جو بقول پکاسو ان چیزوں کو نہیں بیان کرتا جن کی اسے تلاش ہے بلکہ وہ ان چیزوں کو بیان کرتا ہے جو اس نے پائی یا دیکھی ہیں "۔
زیب نے کل پچپن برس ( 1929 تا 1985) کی عمر پائی ۔ دیکھا جائے تو ان کا شعری اثاثہ بہت زیادہ نہیں ہے مگر جو کچھ ہے وہ اتنا پر آثر اور کیفیت سے بھرپور ہے جو قاری پر اپنے دیر پا اثرات چھوڑتا ہے:
ادھوری چھوڑ کے تصویر مر گیا ہے زیب
کوئی بھی رنگ میسر نہ تھا لہو کے سوا