Mob:9810141528
وہ ٹھیک سے سن نہیں سکتا تھا۔ وہ کان سے کافی بہر ہ ہو چکا تھا لیکن وہ دل کا بہت اچھا تھا۔ وہ اپنے پڑوسیوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ اس کو سب کی فکر رہتی۔ وہ سب کی خبرگیری کرتا رہتا اور سب کی مدد بھی کرتا۔ وہ بیماروں کی عیادت بھی کرتا۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ اس نیک دل بہرے کا پڑوسی بیمار پڑ گیا۔ بہرے نے سوچا کہ یہ میرا اخلاقی، سماجی اور مذہبی فرض ہے کہ میں اس کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر جائوں۔ پھر اسے خیال آیا کہ میں تو کسی حد تک بہرہ ہوں اور وہ پڑوسی بیمار پہلے ہی بہت دھیمے بولتا ہے ۔یا یوں کہیں کہ وہ منھ ہی منہ بولتا ہے ۔ بیماری میں اس کی آواز تو اوربھی کمزور ہو گئی ہوگی، جس سے مجھے بالکل نہیں سنائی دے گا۔ پھر اس نے قیاس لگایا کہ جب میں کہوں گا کہ
تم کیسے ہو؟
تو وہ کہے گا کہ
میں اچھا ہوں۔
اِس پر میں کہوں گا کہ
اللہ تیرا کا شکر ہے۔
پھر میں پوچھوں گا کہ
تم نے کھانا کھایا؟
تو وہ کہے گا کہ
ہاں ، میں نے سوپ پیا۔
اس پر میں کہوں گا کہ
یہ مناسب اور بہتر ہے۔
پھر میں پوچھوں گا کہ
کون حکیم تمہارا علاج کر رہا ہے؟
اس پر وہ کہے گا کہ
فلاں حکیم
تو اس پر میں کہوں گا کہ
مبارک ہو۔ وہ اچھا حکیم ہے۔ اس کے قدم مبارک ہیں۔
یہ قیاسی اور اندازے سے سوال و جواب تیار کرکے وہ معصوم بہرہ اپنے پڑوسی کے گھر پہونچا۔ اس کے پاس بیٹھا اور اس کے سر پر بہت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر بہت محبت سے پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟
بیمار نے کہا کہ میں تو اس بیماری میں بے جان ہو گیا۔ میں تو لگ بھک مر سا ہی گیا ہوں۔
اس پر معصوم بہرے نے یہ سوچ کر کہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں اچھا ہوں، کہا:
اے اللہ تیرا کا شکر ہے!
خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد، نیک دل بہرے نے دوسرا سوال کیا کہ تم نے آج کیا کھایا؟
بیمار نے جل کر جواب دیا کہ زہر کھایا!
بہرے نے یہ سوچ کر کہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے سوپ پیا ، کہا :
یہ مناسب اور بہترہے!
اس خدا ترس بہرے نے پھر پہلے سے تیار کیا سوال کیا کہ کون سا حکیم تمہارے علاج کے لیے آتا ہے؟
اب تک بیمار پڑوسی غصے سے لال پیلا ہو چکا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ معصوم بہرہ بیمار پڑوسی کی کوئی بھی بات ٹھیک سے نہیں سن پا رہا ہے اور وہ اندازے سے ساری باتیں کر رہا ہے ۔ بیمار پڑوسی غصہ سے تلملاتے ہوئے بولا:
موت کا فرشتہ!
بہرے نے بڑی معصومیت سے، یہ سوچ کر کہ وہ کہہ رہا ہے کہ فلاں حکیم صاحب آتے ہیں، کہا:
اس کے قدم مبارک ہوں!
بس پھر کیا تھا ، اس بیمارنے برابھلا کہتے ہوئے عیادت کے لیے آئے اپنے مہمان کو اپنے گھر سے باہر جاے کا راستہ دکھایا اور وہ معصوم و کم سنائی دینے والا بہرا آج تک یہ نہ سمجھ سکا کہ آخر ہوا کیا؟ اسکی غلطی کیا تھی ؟؟
دراصل ، وہ لوگ جو اپنے منھ ہی منھ میں بولتے ہیں یا وہ لوگ جو بات کرتے وقت ضرورت بھر اپنا منھ نہیں کھولتے ہیں یا وہ لوگ جو ضرورت سے زیادہ دھیمے بولتے ہیں ، یا وہ لوگ جو ضرورت سے زیادہ بڑی تیزی سے بولتے ہیں یا اتنی جلدی جلدی بولتے ہیں کہ انکا ایک لفظ انکے منھ سے باہر نکلتاہے جبکہ دوسرا لفط انکے منھ کے اندر ہی رہ جاتا ہے ، ایسے سب ہی لوگوں کو اب اپنی اصلاح کر لینی چاہیے!
(کہانی کار آکاشوانی و دوردرشن کے سابق آئی بی ایس افسر اور ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ سے سرفراز ہیں )