Home نقدوتبصرہ ایک ہزار ایک راتوں کے بعد (عرب فیمنزم فلسطینی فکشن کے تناظر میں)-حقانی القاسمی

ایک ہزار ایک راتوں کے بعد (عرب فیمنزم فلسطینی فکشن کے تناظر میں)-حقانی القاسمی

by قندیل

عورت کی محکومیت فسانہ بھی ہے ، حقیقت بھی!

اولین مادری نظام اور عورتوں کی حکمرانی کی طویل تاریخ اسے فسانہ بتاتی ہے ۔ تاریخ کے کچھ حوالے اور حقائق بھی ایسا ہی کہتے ہیں ۔ مگر موجودہ دور میں عورتوں پر جبر اور استحصال سے عورت کی محکومیت حقیقت بن جاتی ہے۔یہ معاملہ عہد ، تہذیب، جغرافیہ اور اساطیر سے مربوط ہے۔ہمارے عہد میں عورت کی مظلومیت ایک افسانوی آفاقیت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اسی فسانے اور حقیقت کی کشمکش اور تصادم نے فیمنزم کو جنم دیا ہے مگر فیمنزم کی متضاد تعبیروں میں حقیقت کھو گئی ہے اور عورت کی طرح فیمنزم بھی ایک معمہ بن کر رہ گئی۔ تہذیب اور نفی تہذیب دونوں کے نام پر اب عورت جبر و استحصال کی شکار ہورہی ہے۔

الف لیلہ کی شہر زاد تانیثی شعور اور احتجاج کی پہلی روشن مثال ہے،جس نے نسائی وجود کے اعتبار اور وقار کے لیے خوف و دہشت کے سائے میں ایک ہزار ایک راتیں گزاریں اور نسائی وجود کی معنویت کو روشن کیا۔ایک ہزار ایک رات کے بعد عورت کی تقدیر میں جہاں کچھ تاریکیاں ہیں وہیں کچھ تابناکیاں بھی ہیں۔ عورت مکمل طور پر اندھیرے میں قید نہیں ہے، ایسا حقائق بتاتے ہیں اور مکمل طور پر روشنی میں بھی نہیں ہے، ایسا عالمی سطح پر عورتوں کی تصویریں بتاتی ہیں۔ بہرحال عورت کا وجود ہمارے عہد میں آشوب کا ایک استعارہ ہے اور اس میں داخلی اور خارجی دونوں عناصر کی شمولیت ہے۔ عورتوں نے داخلی سطح پر خود کو بھی آشوب کا اسیر کیا ہے اور خارجی سطح پر حالات نے بھی آشوب میں اضافہ کیا ہے۔ مکمل سچ وہ نہیں ہے جو فیمنزم سے متعلقہ تحریروں میں نمایاں ہے اور سچ وہ بھی نہیں ہے جو عورت مخالف لٹریچر سے ہویدا ہے۔ عورت اذیت میں ہے ، اس کا احساس ہر حساس انسان کو ہے۔ مگر اس کی تعمیمیت مناسب نہیں کہ سماج کا نصف حصہ مرد بھی آزارو ابتلا میں ہے ۔ اول الذکر اذیت اور ثانی الذکر آزار کی نوعیت و شکل مختلف ہوسکتی ہے اور اس کی شدت میں کمی و بیشی کا امکان بھی ہے مگر معاملہ دونوں طرف مساوات کا ہے اور یہ بات آج کے تناظر میں کہی جارہی ہے، جب خواتین امپاور مین کا مسئلہ صرف بحث کا موضوع نہیں رہا بلکہ خواتین عملی طور پر طاقتور اور مؤثر ہوگئی ہیں۔ خلاؤں پر کمند ڈالنے والی خواتین اور مختلف شعبہ حیات میں ان کے بڑھتے تسلط سے اتنی بات تو واضح ہے کہ اب معاملہ پہلے جیسا نہیں رہا، اس لیے مرد معاشرے سے شکوہ جواب شکوہ کی راہیں بہت حد تک بند ہوچکی ہیں۔

عورت کی حیثیت اور کردار کا تعین معاشرتی ، تہذیبی رویے اور نظام سے متعلق ہے۔تاریخیں جہاں عورتوں کے مکمل انسانی وجود کا اعتراف کرتی ہیں، وہیں عورتوں کے ثانوی وجود کی شہادتیں بھی ملتی ہیں۔ اور اسی ثانوی وجود کے احساس نے عورتوں کو مرد معاشرے سے بیزار کیا اور تانیثی تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔مختلف ممالک میں فیمنزم کی تحریکیں تیزی سے اٹھیں مگر جغرافیائی یا نسلی محدودیت کا شکار ہوگئیں۔ یہاں بھی رنگ و نسل کا مسئلہ حاوی رہا، یوروپی مرکوز تصور نسواں میں صرف ان ممالک کی عورتیں آئیں جو سفید فام ہیں ، جس کے رد عمل کے طور پر بلیک فیمنزم کی تحریک چلی۔ پھر اورینٹل فیمنزم اور اس کے بعد امپیریل فیمنزم ۔ یہ تحریکیں مختلف سمتوں میں بکھرتی گئیں اور اس طرح یہ تحریکیں اپنا جواز اور اثر کھوتی گئیں۔ مگر تانیثیت بحیثیت نظریہ آج بھی ہمارے ڈسکورس کا موضوع ہے اور جہاں جہاں عورتیں جبر و استحصال کی شکار ہورہی ہیں وہاں تانیثی نظریہ اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔پدری نظام کے تسلط سے نجات دلانا، عورت کی مظلومیت اوراستحصال کا نام فیمنزم ہے اور اس صورت حال کو بدلنے کی کوشش کوئی بھی کرسکتا ہے۔فیمنسٹ ہونے کے لیے عورت ہونا شرط نہیں ہے۔ مصر میں قاسم امین نے تانیثی نظریے کی بنیاد رکھی تھی اور اس تحریک کے نقوش کی تشکیل کی تھی۔ عورت کی آزادی کے نام سے ان کی کتاب فیمنزم کا منشور ہے اور ہندوستان میں مولوی سید ممتاز علی فاضل دیوبند پہلے فیمنسٹ ہیں جنہوں نے حقوق نسواں جیسی کتاب لکھی اور تہذیب نسواں جیسے رسالے سے عورتوں کو اپنی حیثیت ،مقام اور کردار سے آگاہ کیا اور ان تصورات سے نجات دلائی، جو معاشرے میں عورتوں کی ترقی کی راہ میں مزاحم تھے۔

عورت ایک مکمل انسانی وجود ہے، اس کا اعتراف سبھی کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ حاشیائی سیاست نے عورت کے وجوداور شناخت پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ عورت کو اپنے وجود پر اصرار ہونا چاہیے مگر مرد کے وجود کو مسترد کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہی بات زولیا کرسٹیوا نے کہی ہے، جو تانیثیت کے سب سے بہترین نقاد اور دانشور ہیں۔

عرب فیمنزم کا مسئلہ دوسرے ممالک کی فیمنزم کی تحریکوں سے مختلف ہے کہ عرب معاشرے میں عورتوں کو زندہ درگور کرنے کی ایک روایت رہی ہے۔ شاید اسی وجہ سے عرب دانشوروں نے فیمنزم کے تعلق سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا اور عورتوں کے وجود کے اثبات کے لیے نصوص قرآنی کا سہارا لیا جہاں عورتوں کو مساوات کا حق حاصل ہے اور ان آیات کی مختلف تشریحات کی گئیں، جن سے مردوں کا تسلط ثابت ہوتا ہے۔

عرب معاشرے کی عورتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یا تو وہ سر سے پاؤں تک سیاہ برقعہ میں قید ہوتی ہیں یا پھر بیلے ڈانسر، جو اپنی شہوت انگیز اور ہیجانی اداؤں سے مردوں کو مسحور کرتی ہیں۔ یہ عورتیں یا تو مرد کی تفریح کا سامان ہیں یا پھر غلام۔ لیکن اب عورتوں کی بیداری کی وجہ سے انہیں صرف دو زمروں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ عرب خواتین نے بھی ارتقاء کی کچھ منزلیں طے کی ہیں اور ان کی زندگی میں کچھ نئے در وا ہوئے ہیں، جو عورتیں یک رنگی خول Monochromatic shell میں قید تھیں وہ بھی اب باہر نکلی ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی خواتین میں بہت سی سطحوں پر بیداری آئی ہے، وہ کئی محاذ پر برسرپیکار ہیں۔ ان کے لیے صرف سماجی جبر ہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی جبر بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ ہے، وہ جہاں صنفی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں، وہیں سیاسی استعماریت کے خلاف بھی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ خاص طور پر فلسطینی خواتین کا تصور آزادی دوسرے ممالک کی عورتوں کے تصور آزادی سے بالکل مختلف ہے۔ ان کا المیہ اپنی ذات یا جنسی آسودگی یا آزادی تک محدود نہیں ہے اور المیہ ان کے لیے ایک خیال بھی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ وہ المیوں سے روز و شب گزرتی رہتی ہیں، اس لیے انہیں المیے کی شدت کا احساس بھی ہے۔

وطن آزاد ہو اور وجود غلام، تب بھی یہ مکمل آزادی نہیں ہے۔ اسے آزادی کا التباس یا فریب آزادی کہہ سکتے ہیں۔ آزادی اپنی معنویت کے ساتھ اس وقت مکمل ہوتی ہے ، جب کسی قسم کا جبر و احتساب نہ ہو۔ معاشی ، سماجی، مذہبی یا کسی اور نوعیت کا جبر نہ ہو۔فلسطین کی خواتین افسانہ نگار وطن اور وجود، دونوں ہی محاذ پر آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں اور آزادی کے تصور کو ایک نیا معنی دے رہی ہیں۔ ان کے لیے وجود کی آزادی، وطن کی آزادی سے مشروط ہے۔

سمیرہ عزام اور سحر خلیفہ دونوں فلسطین کی مشہور فکشن نگار ہیں اور دونوں ہی اپنے فیمنسٹ نظریات کی وجہ سے عرب دنیا میں مقبول ہیں۔ سمیرہ عزام کی کہانیوں میں وطن اور وجود کا کرب نمایاں ہے۔ وطن بھی غیر کے شکنجے میں ہے اور وجود بھی۔ وطن اور وجود کی مماثلت سے بنی گئی ان کہانیوں میں وطن وجود اور وجود وطن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ سمیرہ نے وطن اور نسائی وجود کو ایک ہی زاویے سے دیکھا ہے ۔ سمیرہ کے بیشتر نسائی کردار مزاحمتی قوت سے معمور ہیں اور یہ مزاحمت اپنے وطن کے لیے بھی ہے اور اپنے وجود کے لیے بھی۔ ان کی نظر میں عورت کی آزادی، سماج کی آزادی ہے اور عورت کی ترقی، سماج کی ترقی۔ ان کے بیشتر نسائی کردار آزادی پسند ہیں ۔یہ آزادی سماجی اور سیاسی دونوں سطح کی ہے، اسے نیشنل اور سوشل لبریشن سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

سعاد ان کے ناول کا ایسا ہی ایک کردار ہے جو اپنے وطن کے لیے جہاں مزاحمت ، ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتی ہے وہیں اپنے وجود کے لیے بھی۔ سمیرہ عزام کی کہانی کی ایک ہیروئن ایک جوان ماں ہے جو بیوہ ہوجاتی ہے اور اس کے دل میں غموں کا طوفان ہوتا ہے ، لہلہاتے ہوئے درختوں کو جب اپنی کھڑکی سے دیکھتی ہے، تو اسے خاوند کی موت پر غصہ آجاتا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ وہ لوگ جو مرجاتے ہیں، انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ جو زندہ ہیں وہ موت سے بد تر اور خوفناک زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ کہانی میں عورت کا کردار ایک باغی علامت کے طور پر ابھرتا ہے جو کہ وہ عورت اپنی زندگی کو موت سے بھی بدتر سمجھنے لگتی ہے اور اس کے لیے مرد معاشرہ ذمہ دار ہے۔اس طرح کی اوربھی کہانیاں ہیں جس میں نسائی کردار وطن اور وجود دونوں کی آزادی کے لیے سربکف ہیں۔

سحر خلیفہ کی کہانیوں میں بھی اسی طرح کے تصورات اور احساسات ملتے ہیں، ان کے یہاں جہاں داخلی تشدد کے خلاف احتجاج ہے، وہیں خارجی جبر کے خلاف مزاحمت ۔ ان کا ناول ’سورج پوجنے والے ‘ ایسا ہی ایک ناول ہے جس کا مرکزی کردار رفیف شہر کی ایک پڑھی لکھی خاتون ہے، جو سماجی جبر اور روایتی سماج کے امتیازی رویوں کی شکار ہے، وہ مرد حاوی سماج میں آزادی اورمساوات کے لیے کوشاں ہے، ماضی اور حال کی کشمکش میں مبتلا اس خاتون کو بڑی دقتیں پیش آتی ہیں کہ وہ بھی روایتی سماج کا ایک حصہ ہے۔ اور یہ کشمکش اس کی زندگی ایک حصہ بن جاتی ہے۔ ’’البلاد‘‘ میگزین میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے بھی اسے مردوں کے امتیازی رویے کا شکار ہونا پڑتا ہے ، کیونکہ ا س کی مجلس ادارت میں مردوں کا غلبہ ہے اور اس کے سپرد صرف خواتین کا صفحہ ہے۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ فیشن اور خوراک کا صفحہ بھی اسے دے دیا جائے ، مگر اس جنگ میں وہ ہار جاتی ہے اور فرسٹریشن کی شکار ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو مرد سماج کا رد عمل نہایت معاندانہ اور مخاصمانہ ہوجاتا ہے۔ اس ناول میں سعدیہ بھی ایک باغی کردار ہے جو زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ نہیں ہے، مگر مزاحمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ خضرا بھی ایک ایسا کردار ہے، جو سماجی اور سیاسی جبر کی شکار ہے۔ اس کی شادی ایک شادی شدہ مرد سے ہوجاتی ہے ۔ اس کے مظالم کی تاب نہ لاکر طوائف بن جاتی ہے اور پھر وہ ایک ایسے مرد سے شادی کرلیتی ہے جو اس کی کمائی پر گزارا کرتا ہے۔

مرد جارحیت کے خلاف اس کے اندر اتنا غصہ ہوتا ہے کہ وہ سعدیہ کی طرح یہ اعلان کرتی ہے کہ دنیا میں خدا کا وجود نہیں ہے، اس لیے وہ کھلم کھلا یہ پیشہ کرتی ہے ۔ سحر خلیفہ کے تمام کردار کردار سیاسی استعماریت اور سماجی رجعت پسندی کے خلاف بغاوت کی علامت ہیں۔ سحر خلیفہ کے تمام نسائی کردار خارجی جبر اور داخلی تشدد کے خلاف مزاحمت پہ آمادہ ہیں۔ داخلی جبر سے مراد مرد معاشرہ ہے، جب کہ خارجی جبر سے مراد غیر ملکی استعماریت اور سامراجیت ہے۔

فلسطین کی فکشن نگار خواتین داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر جنگ لڑ رہی ہیں۔ ایک طرف وجود کی جنگ ہے تو دوسری طرف وطن کی جنگ۔ اور دونوں کی آزادی کے لیے وہ مسلسل برسرپیکار ہیں۔ ان کے یہاں آزادی نسواں کا وہ تصور قطعی نہیں ہے جو بعض مغربی ملکوں میں ہے، بلکہ ان کی آزادی ایک مقصد سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کم عورتیں ایسی ہیں جو مختلف محاذو ںپر جبر، ظلم اور استحصال کے خلاف برسرپیکارہوں۔ ان کی آزادی کا مفہوم بھی وسیع ہے اور دائرہ بھی بسیط ہے۔ یہاں عورت کی آزادی وہ نہیں ہے جو جنسی انارکی میں تبدیل ہوجائے اور دنیا کا نظام انتشار کا شکار ہوجائے۔ عورت کی آزادی کے بھی اپنے دائرے، حدود اور حریم ہیں۔ فلسطینی فکشن نگاروں نے اپنی آزادی کے تصور کو وسیع معنی دے کر فیمنزم کے دائرے کو وسعت دی ہے اور اس طور پر عرب فیمنزم کی ایک الگ شناخت اورپہچان قائم ہوئی ہے۔ عرب فیمنزم صرف نسائی وجود سے وابستہ تصور نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سارے تصورات بھی شامل ہیں،جو نسائی وجود سے ماوراء ہیں اور یہی ماورائیت عرب فیمنزم کو دوسری تانیثی تحریکوں سے ممتاز کرتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ فیمنزم کی صحیح تعبیر اور تصویر فلسطینی فکشن میں ہی نظر آتی ہے جہاں عورت مکمل طور پر ایک مزاحم اور باغی کردار کے طور پر سامنے آتی ہے اور صرف داخلی مسائل سے نجات کا راستہ تلاش نہیں کرتی بلکہ خارجی انتشار سے بھی نبردآزما رہتی ہے۔

سمیرہ عزام اور سحر خلیفہ فلسطینی فکشن کے بہت معتبر نام ہیں۔ سمیرہ عزام کا جنم 1924 میں فلسطین کے شہر عکا میں ہوا تھا۔ 16سال کی عمر میں عکا کے مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیتی رہیں۔ 1948کے حادثہ نے انہیں لبنان ہجرت کرنے پرمجبور کردیا۔ اس کے بعد وہ عراق میں تدریسی سلسلہ سے جڑ گئیں۔ 1952 میں الشرق الادنی ریڈیو سے اناؤنسر کی حیثیت سے وابستہ رہ کر خواتین کے پروگرام نشر کرتی رہیں۔ وہ پہلے فتاۃ الساحل کے نام سے کہانیاں لکھتی تھیں اور پھر جلد ہی عربی فکشن کے منظر نامے پر نمایاں دستخط بن کر ابھریں ۔ عالمی ادبیات سے آگہی نے ان کے وژن اور وجدان کو وسعت عطا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں عالمی عناصر ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ 100سے زائد کہانیاں ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں خواتین کا کرب اور ان کی جدوجہد بھی نمایاں ہے۔ عرب میں فیمنزم کی علمبردار کی حیثیت سے شناخت رکھتی ہیں۔

سحر خلیفہ بھی فلسطین کے مغربی کنارے کی خاتون ناول نگار ہیں۔ فلسطین کی آزادی اور آزادی نسواں دونوں ہی ان کے اہم مرتکز موضوعات ہیں اور وہ دونوں کی آزادی کو ایک دوسرے سے مربوط سمجھتی ہیں اور تانیثی نظریات کی وجہ سے عرب دنیا میں باوقار سمجھی جاتی ہیں۔ نوا ل السعداوی نے اپنی تحریروں کے ذریعے عرب تانیثی نظریے میں جو روح پھونکی تھی اس روح کی صحیح تعبیر و تفہیم سمیرہ عزام اور سحر خلیفہ کی کہانیوں میں نظر آتی ہے۔ ان دونوں کہانی کاروں کی کہانیوں کے مکمل تجزیے سے عرب فیمنزم کی صحیح شکلیں سامنے آسکتی ہیں اور یہ پتہ لگانا آسان ہوسکتا ہے کہ عرب فیمنزم کے بنیادی تصورات کیا ہیں اور ان کے لیے نسائی وجود کا دائرہ کیا ہے۔ وہ صرف اپنی ذات کی اسیر نہیں ہیں، بلکہ ذات کے علاوہ بھی ان کے وجود سے جڑے ہوئے بہت سے مسائل ہیں۔ صنفی، سماجی، سیاسی جبر کے خلاف مشترکہ طور پر جو آوازیں فلسطینی خواتین فکشن نگار اٹھارہی ہیں، وہ شہر زاد کی روایت کی توسیع اور تسلسل ہیں۔ شہر زاد زندہ ہے، اس کا احساس ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ ایک ہزار ایک رات کے بعد نسائی وجود کی کہانیاں ختم نہیں ہوئی ہیں، بلکہ کہانیاں اسی تسلسل میں جاری و ساری ہیں، یہ احساس فلسطینی فکشن کی قرأت کے بعد ہوتا ہے۔ فلسطینی فکشن نگار خواتین ایک ہزار ایک رات کے بعد کی جو کہانیاں لکھ رہی ہیں ، ان کہانیوں میں عورت کا کرب بھی نمایاں ہے اور ان کی جدوجہد کی داستان بھی۔یہ کہانیاں ان کی بے وطنی اور شناخت کی گمشدگی سے جڑی ہوئی ہیں اور دیکھا جائے تو اپنے نسائی تشخص کی تلاش میں یہ کہانی کار بہت حد تک کامیاب ہیں۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ عورت اپنے وطن اور اپنے بدن کی جنگ ہار چکی ہے، اسی لیے ایک فیمنسٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے بدن کو میدان جنگ نہ بناؤ، لیکن آج کے عہد میں عورت کا وطن اور بدن دونوں ہی میدان جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ اگر عورتوں کو یہ جنگ جیتنی ہے تو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑے گی،ورنہ اس کے بغیر عورت کے مقدر میں شکست اور اذیت ہی رہے گی اور یہ حکمت عملی انہیں فلسطین خواتین فکشن نگاروں کی کہانیوں میں ہی مل سکتی ہے، جنہو ں نے نسائی انتفاضہ کی ایک نئی شکل پوری دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔

You may also like