ترجمہ: قیصر نذیر خاورؔ
میں اس مقام پر اکیلے نہیں کھڑی۔ میرے اردگرد آوازیں ہیں، سیکڑوں آوازیں۔ یہ میرے ساتھ بچپن سے ہمیشہ رہی ہیں۔ میں مضافات میں پلی بڑھی ہوں۔ہم جب بچے تھے تو گھر کے باہر کھیلنا ہمیں پسند تھا لیکن جیسے ہی شام ہوتی تو گاؤں کی ان عورتوں کی تھکی آوازیں ہمیں مقناطیس کی طرح کھینچ لیتیں جو اپنے جھونپڑوں کے پاس بینچوں پر اکٹھی ہوئی ہوتیں۔ ان میں سے کسی کا خاوند، باپ یا بھائی نہیں تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہمارے گاؤں میں مرد تھے، مجھے یاد نہیں۔ جنگ کے دوران ہر چار میں سے ایک بیلارسین یا تو محاذ پر یا پھر مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا جا چکا تھا۔ جنگ کے بعد ہم بچے عورتوں کی دُنیا میں رہتے تھے۔ مجھے جو سب سے زیادہ یاد ہے وہ یہ ہے کہ عورتیں موت کے بارے میں نہیں بلکہ محبت کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ وہ اس بارے میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں کہ انہوں نے، جن سے وہ پیا ر کرتیں تھیں، کیسے، ان کے جنگ پر جانے سے ایک دن پہلے انہیں الوداع کہا تھا۔ وہ اس بارے میں باتیں کرتیں کہ انہوں نے ان کا انتظار کیسے کیا اور یہ کہ وہ ابھی بھی کیسے ان کی منتظر ہیں۔ سالوں بیت گئے تھے لیکن وہ پھر بھی ان کی منتظر تھیں۔ وہ کہا کرتیں: ”مجھے اس کی پرواہ نہیں، اگر اس نے اپنے بازو گنوا دئیے ہیں یا ٹانگیں کھو دی ہیں، میں اسے اٹھائے پھروں گی۔“ بازو نہیں، ٹانگیں نہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بچپن سے ہی محبت کے بارے میں علم رہا ہے۔
میں یہاں اُس سرودگاہ سے اٹھنے والے کچھ المیہ گیت پیش کر رہی ہوں جو میں سنتی تھی۔
پہلی آواز:
”تم یہ سب کیوں سننا چاہتی ہو؟ یہ بہت ہی اداس کر دینے والا ہے۔ میں اپنے خاوند سے جنگ کے دوران ملی تھی۔ میں تب ایک ٹینک کے عملے میں تھی جس نے سیدھا برلن جانا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم رائکسٹاگ (Reichstag) کے نزدیک کھڑے تھے۔ وہ ابھی تک میرا خاوند نہیں بنا تھا اور اس نے مجھے کہا تھا: ”چلو شادی کر لیتے ہیں۔ مجھے تم سے پیار ہے۔“
میں تب بہت گھبرائی ہوئی اور پریشان تھی۔ ہم جنگ کے سارے عرصے میں کیچڑ، گند، گرد اور خون میں رہ رہے تھے اور میں نے بیہودہ، بے شرمی اور فحش باتوں کے سوا کچھ نہیں سنا تھا۔ میں نے جواب دیا:
”پہلے مجھے عورت تو بناؤ۔ مجھے پھول دو۔ میرے کانوں میں کچھ میٹھی میٹھی اَن کہیوں کی سرگوشیاں کرو۔ میں جب فوج سے فارغ ہو جاؤں گی تو اپنے لیے عروسی جوڑا بناؤں گی۔“
میں تب اتنی پریشان تھی کہ میں اسے تھپڑ مارنا چاہتی تھی۔ اس نے یہ سب سہا۔ اس کا ایک گال بری طرح جل چکا تھا اور اس پر زخموں کے نشان موجود تھے۔ میں نے دیکھا اس کے داغوں پر آنسو رواں تھے۔
”ٹھیک ہے، میں تم سے شادی کرلوں گی۔“، میں نے کہا تھا۔ بالکل ایسے ہی۔ میں خود پر یقین نہ کر سکی کہ میں نے یہ کہا تھا۔ہمارے اردگرد سوائے راکھ اور ٹوٹی ، چُورا ہوئی اینٹوں کے اور کچھ نہ تھا ، مختصر یہ کہ ہر طرف جنگ تھی۔“
دوسری آواز:
”ہم چرنوبل نیوکلیائی پلانٹ کے پاس رہتے تھے۔ میں ایک بیکری میں کام کرتی تھی اورسموسے بنایا کرتی تھی۔ میرا خاوندایک آگ بجھانے والا تھا۔ ہم نئے نئے بیاہے گئے تھے۔ ہم سٹور پر بھی جاتے تو ہاتھوں میں ہاتھ دئیے ہوتے۔ جس دن ری۔ ایکٹر پھٹا، میرا خاوند فائر سٹیشن پر ڈیوٹی پر تھا۔ انہوں نے عام کپڑے پہن رکھے تھے اور صرف قمیضوں میں ہی تھے۔ وہ اسی طرح اطلاع ملتے ہی دوڑ پڑے۔ جوہری توانائی کے سٹیشن میں دھماکہ ہوا تھا لیکن انہیں خصوصی لباس نہیں دئیے گئے تھے۔ ہم بس ایسے ہی رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں۔ وہ ساری رات آگ بجھاتے رہے اور تابکاری کا ایسے شکار ہوتے رہے جو زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اگلی صبح انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے سیدھا ماسکو پہنچایا گیا۔ وہ شدید تابکاری کی وجہ سے سخت علیل تھے۔ آپ ایسی حالت میں چند ہفتوں سے زیادہ جی نہیں پاتے۔ میرا خاوند تنومند تھا۔ وہ ایک کھلاڑی تھا۔ وہ سب سے آخر میں مرا۔ میں جب ماسکو گئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اسے خصوصی اور ایک الگ کمرے میں رکھا گیا ہے اور اس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں۔ ” لیکن مجھے اس سے محبت ہے۔“، میں نے ان کی منت کی، ”فوجی اس کی نگہداشت کر رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کہاں جا رہی ہو؟“،”میں اس سے محبت کرتی ہوں۔“ انہوں نے مجھ سے بحث کی: ”یہ اب وہ بندہ نہیں رہا جس سے تم محبت کرتی تھیں۔ وہ اب ایک ایسا جسم ہے جس کی معلومات کا اندراج کرنا ضروری ہے۔ کیا تمہیں سمجھ نہیں آتی؟“ میں لیکن بار بار خود کو ایک ہی بات سمجھاتی رہی: مجھے محبت ہے ۔ مجھے محبت ہے۔ رات میں، میں چمنی پر چڑھ جاتی تاکہ اسے دیکھ سکوں۔ یا پھر میں رات میں صفائی کرنے والوں سے پوچھتی۔ میں نے ان کو پیسے دئیے تاکہ وہ مجھے اندر جانے دیں۔ میں نے اس کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا، میں اس کے انت تک اس کے ساتھ رہی۔ اس کی موت کے کچھ ماہ بعد ہی میں نے ایک ننھی بچی کو جنم دیا لیکن وہ کچھ ہی دن زندہ رہی۔ وہ۔ جس کے بارے میں ہم بہت پُر جوش تھے لیکن میں اسے زندہ نہ رکھ سکی۔ اس نے البتہ مجھے میری جان بچا لی۔ اس نے ساری تابکاری خود میں جذب کر لی تھی۔ وہ بہت ہی چھوٹی تھی۔ ننھی گڑیا جیسی، لیکن مجھے دونوں سے پیار تھا۔ کیا آپ پیار و محبت سے کسی کو مار سکتے ہیں؟ محبت اور موت کیوں ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں؟ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں آتے ہیں۔ اس کی وضاحت کون کر سکتا ہے؟ میں ان کی قبروں پر اپنے گھٹنوں پر گر جاتی ہوں۔“
تیسری آواز
”میں نے پہلی دفعہ ایک جرمن کو مارا تھا۔ میں اس وقت دس سال کی تھی اور ہمارے مزاحمت کار/پارٹی کے جیالے مجھے مہم پر لے گئے تھے۔ یہ جرمن زخمی حالت میں زمین پر لیٹا ہواتھا۔ مجھے کہا گیا کہ میں اس کی پستول لے لوں۔ میں بھاگ کر گئی ، اس نے اپنا پستول دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور میرے چہرے کا نشانہ لیا لیکن وہ پہلے گولی نہ چلا سکا، میں نے چلا دی ۔
کسی کو ہلاک کرنے نے مجھے خوفزدہ نہیں کیا تھا۔ میں نے جنگ کے دوران اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ بہت سے لوگ مارے گئے تھے اور ہم ان مُردوں کے درمیان زندہ تھے۔ بہت سال بعد مجھے اچانک اس جرمن کے بارے میں ایک خواب آیا۔ یہ نجانے کہاں سے چلا آیا تھا۔ مجھے یہ خواب بار بار آتا رہا۔میں اڑ نا چاہ رہی ہوتی لیکن وہ مجھے ایسا نہ کرنے دیتا۔ میں اوپر اٹھتی۔اڑتی، اڑتی۔ وہ مجھے پکڑ لیتا اور میں اس کے ساتھ نیچے گر جاتی۔ میں کسی قسم کے گڑھے میں گرتی۔ یا میں اٹھنے کی کوشش کرتی۔ کھڑا ہونا چاہتی، لیکن وہ مجھے کھڑا نہ ہونے دیتا۔ اس کی وجہ سے میں اڑ کر دور نہ جا سکتی۔
یہی ایک خواب۔مجھے دہائیوں تک پریشان کرتا رہا۔
میں اس خواب کے بارے میں اپنے بیٹے کو نہ بتا سکی۔ وہ ابھی بچہ تھا۔ میں ایسا نہ کر سکی۔ میں اسے پریوں کی کہانیاں سناتی رہی۔ میرا بیٹا اب بڑا ہو چکا ہے، لیکن میں اسے اب بھی بتا نہیں پا رہی۔“
فلوبئیر نے خود کو انسانی قلم کہا تھا، میں یہ کہتی ہوں کہ میں ایک انسانی کان ہوں۔ میں جب گلیوں اور بازاروں میں نکلتی ہوں تو الفاظ، جملے اور فجائیے سنتی ہوں اور میں ہمیشہ سوچتی ہوں۔کتنی کہانیاں اور ناول اپنا نشان چھوڑے بِنا غائب ہو جاتے ہیں! تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہم ادب کے لیے انسانی زندگی کی اس مکالماتی سمت کا ادراک نہیں کر پاتے۔ ہم اسے داد نہیں دیتے، ہمیں حیرانی نہیں ہوتی یا ہم اس سے خوش نہیں ہوتے۔ یہ البتہ میرا دل موہ لیتی ہے اور مجھے اپنا بندی بنا لیتی ہے۔ مجھے انسانی گفتگو سے پیار ہے۔ مجھے انسان کی اپنی تنہا آواز سے پیار ہے۔ یہی میرا سب سے کھرا عشق اور حُب ہے۔
اس مقام تک پہنچنے والا راستہ طویل رہا ہے۔ ایک بندے سے دوسرے تک جانا اور ایک آواز سے دوسری تک پہنچنے کا یہ سفر لگ بھگ چالیس سال پر محیط ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں ہمیشہ اس راستے پر چلی ہوں۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں انسانوں سے خوفزدہ ہوئی ہوں اور مجھے ان سے صدمہ بھی پہنچا ہے۔ انہوں نے مجھے جھٹکے سے بھی دوچار کیا ہے ۔ مجھے فرحت، مسرت اور خوشی کے احساسات کے ساتھ ساتھ گِھن بھی آئی ہے۔ میں بعض اوقات یہ بھی چاہتی رہی ہوں کہ میں نے جو سنا ، اسے بھول جاؤں اور اس سمے میں لوٹ جاؤں جب میں لاعلم تھی ، بہرحال، میں نے ایک سے زیادہ بار لوگوں میں ارفعیت اور عالی ظرفی دیکھی ہے اور میرا دل رونے کو چاہا ہے۔
میں ایک ایسے ملک میں رہی ہوں جہاں مرنا، ہمیں بچپن سے ہی سکھایا گیا۔ ہمیں موت بارے تعلیم دی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ انسان زندہ ہی اس لیے رہتے ہیں کہ اپنا سب کچھ لٹا دیں، سب کچھ جلا ڈالیں اور خود کو بھی نثار کر دیں۔ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ ہم ہتھیار بند لوگوں سے محبت کریں۔ میں اگر کسی دوسرے ملک میں پیداہوئی ہوتی تو میں نے اس راستے پر سفر نہ کیا ہوتا۔ کھوٹ، برائی اوربدی ظالم ہوتی ہے، آپ کو اس کے خلاف تیار کیا جاتا ہے۔ ہم گردن مارنے والوں اور بھینٹ چڑھنے والوں کے درمیان پلے بڑھے۔ اگر ہمارے والدین کو خوف میں بھی رہنا پڑا تو انہوں نے ہمیں سب کچھ نہ بتایا اور اکثر تو انہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا۔ ہماری زندگیوں کی فضا زہر لود ہی رہی۔ بدی نے ہم پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی۔
میں نے پانچ کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ایسی کتاب جو یوٹوپیا کی تاریخ کے بارے میں ہے۔
( روسی ادیب ) وارلم شالاموف (Varlam Shalamov) نے ایک بار لکھا تھا: ”میں ایک بڑی لڑائی میں شریک رہا ہوں۔ یہ انسانیت کی اصلی بحالی کے لیے لڑی جا رہی تھی لیکن ہم یہ جنگ ہار گئے تھے۔“
میں نے اس جنگ کی تاریخ، اس کی فتوحات اور اس کی شکستوں کومرتب کیا ہے۔ اس تاریخ کو، کہ لوگ کیسے اس دھرتی پر’فلکی سلطنت‘ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ جنت! آفتابی شہر! اور آخر میں لاکھوں لوگوں کی تباہ حال زندگیاں اور خون کا ایک سمندر ہی بچا۔ تاہم ایک وقت وہ بھی تھا جب بیسویں صدی کے کسی بھی سیاسی نظریے کا کمیونزم سے مقابلہ نہیں تھا (یا اس کی علامت کے طور پر اکتوبر انقلاب)۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی دانشوروں اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس کے علاوہ اور کچھ بھی، جذباتی سطح پر طاقتور اور موثر نظر نہیں آتا تھا۔ ( فرانسیسی ) ریمنڈ ایرن (Raymond Aron) نے روسی انقلاب کو ”دانشوروں کی افیون“ قرار دیا تھا، لیکن کمیونزم کا نظریہ کم سے کم دو ہزار سال پرانا ہے۔ ہم اسے افلاطون کی تعلیمات میں، ایک مثالی، کامل اور درست ریاست کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ ارسطوفینز کے ان خوابوں میں نظر آتا ہے جن میں وہ ایک ایسے وقت کو دیکھتا ہے جب ”ہر شے ہر کسی کے پاس ہو گی۔“۔۔۔ یہ ہمیں (برطانوی) ٹامس مور اور (اطالوی) توماسو کمپانیلا میں۔ بعد ازاں (فرانسیسی)سینٹ۔ سائمن، فوئیر اور (ویلیش)رابرٹ اوون میں بھی نظر آتا ہے۔ روسیوں کے جذبوں اور جذبوں میں کچھ ایسا سمایا ہوا ہے جس نے انہیں مجبور کیا کہ اِن خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔
بیس برس پہلے، ہم نے سوویتوں کی ’لال سلطنت‘ کو کوستے ہوئے اور روتے ہوئے رخصت کیا۔ اب ہم اپنے اس ماضی کو ایک تاریخی تجربے کے طور پر زیادہ سکون سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ سوشلزم کے بارے میں بحثیں ابھی مری نہیں ہیں۔ اس دوران ایک نئی نسل دُنیا کی ایک مختلف تصویر لیے پروان چڑھ چکی ہے لیکن بہت سے نوجوان مارکس اور لینن کو پھر سے پڑھ رہے ہیں۔ روسی شہروں میں سٹالن کی مداحی میں نئے عجائب گھر بن رہے ہیں اور اس کی خاطر نئی یادگاریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
’سرخ سلطنت‘جا چکی ہے لیکن ’لال آدمی‘ ہومو۔سوویتیکس ابھی بھی باقی ہے۔ وہ زندہ ہے۔
میرے والد حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔ وہ مرتے وقت تک کمیونزم پر یقین رکھتے رہے۔ انہوں نے اپنا پارٹی رکنیت کا کارڈ سنبھالے رکھا۔ میں خود کو کبھی بھی تیار نہ کر پائی کہ لفظ ’سوووک‘ (sovok)، سوویت ذہنیت کے لیے توہین آمیز خطاب، برت سکوں کیونکہ پھر مجھے اسے اپنے والد، قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کے لیے بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ ان سب کا ایک ہی گڑھ، سوشلزم ہے۔ ان میں بہت سے عینت پسند ہیں، رومان پسند۔ انہیں آج کل بعض اوقات رومان پسندی کا غلام کہا جاتا ہے۔ یہ یوٹوپیا کے غلام ہیں۔میرا ماننا ہے کہ یہ سب بہت مختلف زندگیاں بسر کر سکتے تھے لیکن انہوں نے سوویت زندگیاں بسر کیں۔ کیوں؟ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں بہت وقت صرف کیا ہے۔میں نے اس وسیع ملک کے ہر حصے میں سفر کیا جو کبھی یو ایس ایس آر ( USSR ) کہلاتا تھا اور میں نے ہزاروں ٹیپیں ریکارڈ کیں۔ یہ سوشلزم تھا اور سیدھے سیدھے ہماری زندگیاں تھیں۔ میں نے تھوڑی تھوڑی کرکے ’گھریلو‘ یا کہہ لیں ’گھروں کے اندر ‘ کے سوشلزم کی تاریخ مرتب کی۔ تاریخ کہ اس نے انسانی روح اور جذبات کے ساتھ کیسے کھیلا۔ میں نے اس چھوٹی ہیت پر توجہ کی جسے انسان کہا جاتا ہے۔تنہا ایک فرد۔ یہ فرد ہی وہ حقیقت ہے جس پر ہر واردات گزرتی ہے۔
جنگ کے فوراً بعد، (جرمن) تھیوڈور اڈورن(Theodor Adorno) نے صدمے کی حالت میں لکھا تھا: ”آشوہتس (Auschwitz) کے بعدشاعری کرنا جنگلی پن ہے۔“ میرے استاد، ایلس ایڈامووچ، جن کا نام میں آج یہاں ممنونیت کے طور پر لے رہی ہوں، نے یہ محسوس کیا تھا کہ بیسویں صدی نے جو ڈراؤنے خواب دکھائے ہیں ان پر نثر لکھنا، نثر کی توہین اور بے ادبی ہے۔ نثر کے لیے کچھ نیا نہیں گھڑا جا سکتا۔ آپ کو سچ لازماً ویسے ہی بیان کرنا پڑتا ہے جیسا کہ وہ ہے، ورنہ ایک ’سُپر۔ لٹریچر‘ درکار ہو گا۔ گواہ کو لازماً بولنا چاہیے۔ ایسے میں نطشے (Nietzsche) کے الفاظ یاد آتے ہیں۔کوئی بھی فنکار حقیقت کی برابری نہیں کر سکتا۔ وہ اس کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔
مجھے ایک بات ہمیشہ تنگ کرتی رہی ہے کہ سچ ایک دل، ایک دماغ میں نہیں سما سکتا اور یہ کہ سچ کسی نہ کسی طور ٹکریوں میں بٹا ہوتا ہے۔ سچ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ متنوع ہوتا ہے اور یہ ساری دنیا میں پھیلا ہوتا ہے۔ دوستوفسکی کا خیال تھا کہ انسانیت اپنے بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ جانتی ہے جتنا اسے ادب میں ریکارڈ کیا گیا ہے، اس لیے یہ کیا ہے جو میں کر رہی ہوں؟ میں روزمرہ زندگی کے احساسات، خیالات اور الفاظ کو جمع کر رہی ہوں۔ میں اپنے وقت کی زندگی جمع کر رہی ہوں۔ میں روح کی تاریخ میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ روح اور جذبوں کی روزمرہ کی زندگی، ان اشیاء کی جو تاریخ کی بڑی تصویر عام طور پر چھوڑ جاتی ہے یا جنہیں وہ حقیر جانتی ہے۔ میں لاپتہ اور گم کردہ تاریخ پر کام کرتی ہوں۔ مجھے اکثر بتایا جاتا ہے اور ایسا اب بھی ہوتا ہے کہ میں جو لکھ رہی ہوں، وہ ادب نہیں ہے، یہ ایک دستاویز ہے۔ آج ادب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے؟ ہم جتنی تیزی سے جی رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں جئیے تھے۔ مواد ہیت کو پھاڑ دیتا ہے۔ اسے توڑ دیتا ہے اور اسے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ہر چیز اس کے کناروں سے باہر امڈ پڑتی ہے۔ موسیقی، پینٹنگ۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں لکھے الفاظ دستاویز کی سرحدوں سے نکل بھاگتے ہیں۔ حقیقت اور گھڑی گئی باتوں کے درمیان سرحدیں نہیں ہوتیں، یہ ایک دوسرے میں بہہ جاتی ہیں۔ گواہی دینے والے غیر جانب دار نہیں ہوتے۔ کہانی بیان کرتے ہوئے انسان ساتھ میں تخلیق بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ اسی طرح کُشتی کر رہے ہوتے ہیں جس طرح ایک مجسمہ ساز پتھر سے لڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت اداکار اور تخلیق کار ہوتے ہیں۔
مجھے چھوٹے (عام) لوگوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے، عظیم لوگ، جیسا کہ میں انہیں کہتی ہوں کیونکہ یہ لوگ دُکھ سہہ سہہ کر اور ابتلا میں رہ رہ کر پھیل جاتے ہیں۔ میری کتابوں میں یہ لوگ اپنی ننھی ننھی تاریخیں بیان کرتے ہیں اور بڑی تاریخ ان کے ساتھ از خود بیان ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ سمجھ سکیں کہ ہمارے ساتھ پہلے ہی کیا ہو چکا ہے اور ابھی بھی ہو رہا ہے، ہمیں بس اسے کہہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروعات کرنے کے لیے، جو بیت چکا ہے، کم از کم، اس کا اظہار تو کرنا ہو گا۔ ہم ایسا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اپنے ماضی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ دوستوفسکی کے ناول ’بدروحیں‘ ( Demons ) میں شاتوف ، ستیوروجن سے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہتا ہے:
”ہم دو مخلوقات (جاندار) ہیں جو حدوں سے عاری ابد میں ملے ہیں اور ایسا دنیا میں آخری بار ہوا ہے اس لیے یہ انداز چھوڑو اور انسانوں کی طرح بات کرو۔ کم از کم ایک بار تو ایسا کرو کہ انسانی آواز میں بولو۔“
میری مرکزی کرداروں کے ساتھ گفتگو کم و بیش کچھ ایسے ہی شروع ہوتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے ’وقت‘ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی کھوہ سے تو نہیں بول رہے ہوتے لیکن پھر بھی انسانی روح تک پہنچنا مشکل ہے۔ اِس کے راستے پر ٹیلی ویژن اور اخبار بکھرے ہیں۔ صدی کے توہمات ہیں۔ اس کے تعصبات ہیں اور اس کی منافقتیں اور دھوکے ہیں۔
وقت کیسے حرکت کرتا ہے۔ ایک خیال کیسے مرتا ہے اور میں اس کے راستے پر کیسے چلتی ہوں، یہ دکھانے کے لیے، میں اپنی ڈائریوں کے کچھ صفحات پڑھنا چاہوں گی۔
1980۔ 1985
میں جنگ کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہی ہوں۔ جنگ کے بارے میں ہی کیوں؟ کیونکہ ہم جنگ کے ہی لوگ ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ہی جنگ میں رہے ہیں یا جنگ کی تیاری کرتے رہے ہیں۔ اگر آپ نزدیک سے دیکھیں تو ہم سوچتے بھی جنگ کے حوالے سے ہیں ، چاہے گھر پر ہوں یا سڑکوں اور گلیوں میں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں انسانی زندگی ارزاں ہے۔ ہر چیز جنگی زمانے کی سی ہے۔
میں نے شکوک و شبہات کے ساتھ دوسری عالمی جنگ پر ایک اور کتاب شروع کی۔۔۔ کس لیے؟
میں ایک دورے کے دوران ایک عورت سے ملی۔ وہ جنگ کے دوران طبی عملے میں رہی تھی۔ اس نے مجھے ایک کہانی سنائی:
جیسے ہی انہوں نے سردیوں میں لاڈوگا جھیل عبور کی، ان کی حرکت دشمن کی نظر میں آئی۔ اس نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ گھوڑے اور لوگ برف میں دب گئے۔ یہ سب رات میں ہوا۔ اس نے کسی کو پکڑا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ زخمی تھا اور اسے کنارے کی طرف کھینچنے لگی۔ ”میں نے اسے کھینچا، وہ گیلا اور ننگا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس کے کپڑے پھٹ چکے ہیں۔“، اس نے مجھے بتایا۔ ایک بار جب وہ کنارے پر پہنچ گئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک زخمی سٹرجیون (sturgeon) مچھلی کو کھینچتی رہی تھی۔۔۔ اور اس نے جنگ کی شکار اس مچھلی کو چھوڑ دیا۔ لوگ تو اس ننگی بربریت کو سہہ ہی رہے تھے لیکن جانور، پرندے اور مچھلیاں۔ انہوں نے کیا کیا تھا؟
ایک اور دورے کے دوران میں نے گھڑ سوار سکواڈرن سے وابستہ طبی عملے کی ایک رکن کی کہانی سنی۔ وہ ایک لڑائی کے دوران ایک زخمی فوجی کو گھسیٹ کر بم کے دھماکے سے بنے ایک گڑھے میں گھسیٹ رہی تھی اور پھر اس نے دیکھا کہ وہ ایک جرمن تھا۔ اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی اور اس کا خون بہہ رہا تھا۔ وہ دشمن تھا! کیا کیا جائے؟ اوپر، اس کے اپنے ساتھی مر رہے تھے! اس نے لیکن جرمن کی مرہم پٹی کی اور رینگتے ہوئے باہر نکلی۔ اس نے ایک روسی فوجی کو گڑھے میں گھسیٹا۔ وہ بیہوش تھا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو جرمن فوجی کو ماردینا چاہتا تھا۔ جب اس کا سامنا جرمن سے ہوا تو اس نے مشین گن تان لی۔ وہ روسی کو مارنا چاہتا تھا۔”میں نے پہلے ایک کو تھپڑ مارا اور پھر دوسرے کو۔ ہم سب کی ٹانگیں خون سے لت پت تھیں۔“ اس نے یاد کیا، ”ہمارا خون آپس میں رَل مِل گیا تھا۔“
یہ وہ جنگ تھی جس کے بارے میں، میں نے کبھی کچھ نہیں سنا تھا۔ یہ ایک عورت کی جنگ تھی۔ یہ ہیروؤں کے بارے میں نہیں تھی۔ یہ اس بارے میں نہیں تھی کہ لوگوں کے ایک گروہ نے بہادری سے لڑتے ہوئے انسانوں کے ایک دوسرے گروہ کو مار ڈالا تھا۔ مجھے وہ عورت یاد ہے جو اکثر نوحہ پڑھا کرتی تھی:
” لڑائی کے بعد جب ہم کھیتوں میں چہل قدمی کرتے تو وہ اپنی پشت پر لیٹے ہوتے۔ سارے جوان اور خوبرو تھے۔ وہ وہاں لیٹے ہوتے اور ان کی آنکھیں آسمان کو گھور رہی ہوتیں۔ ہمیں ان سب کے بارے میں افسوس ہوتا۔۔۔ یہ دونوں اطراف پر تھا ۔“، یہ رویہ تھا، ”سب کے بارے میں، دونوں اطراف پر۔“
اس سے مجھے یہ خیال آیا کہ میری کتاب کس بارے میں ہو گی۔ جنگ سوائے مرنے مارنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ اسی طرح عورتوں کی یادوں میں منقش ہوئی۔ ’ یہ بندہ ابھی ہنس کھیل رہا تھا اور سگریٹ پی رہا تھا اور اب یہ جا چکا ہے۔ یوں لاپتہ ہونا، منظر سے غائب ہو جانا ہی تھا جس کے بارے میں عورتیں سب سے زیادہ بات کرتی تھیں۔ جنگ میں، ہر شے کیسے تیزی سے، اچانک اور یکدم ’ لا شے‘ میں بدل جاتی ہے۔ دونوں ، انسان اور انسان کا سمے بھی۔ درست ہے کہ انہوں نے 17 یا 18 کو محاذ پر جانے کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا لیکن وہ کسی کو مارنا نہیں چاہتے تھے اور پھر بھی مرنے کے لیے تیار تھے۔ اپنی مادر وطن کے لیے مرنے کو تیار تھے۔۔۔ اور سٹالن کے لیے مرنے کو تیار تھے۔ آپ ان الفاظ کو تاریخ سے کھرچ کر صاف نہیں کر سکتے۔
یہ کتاب پریسترویکا اور گورباچوف کے آنے سے پہلے دو سال تک چھپ نہ سکی۔” تمہاری کتاب پڑھنے کے بعد کوئی بھی نہیں لڑے گا۔“، سنسر والوں نے مجھے درس دیا۔ ” تمہاری جنگ بہت خوفناک ہے۔ تم ان میں ہیروؤں کو کیوں شامل نہیں کرتیں؟“
میں ہیروؤں کو دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ میں جنگ میں شامل ایسے لوگوں اور اس کے گواہوں، جن کا کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، کی کہانیوں کے ذریعے تاریخ لکھ رہی تھی۔ ان سے کبھی کسی نے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ ہمیں واقعی میں یہ پتہ نہیں کہ لوگ عظیم خیالات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ایک جنگ کے فوراً بعد ایک بندہ اسی جنگ کی کہانی سنائے گا۔ کچھ دہائیوں کے بعد یہ یقیناً، ایک مختلف جنگ ہو گی۔ اس بندے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آ چکی ہو گی کیونکہ اس نے اپنی ساری زندگی کو یادوں کی تہوں میں لپیٹ دیا ہو گا بلکہ اس نے اپنی ذات کو بھی ان میں تہہ کر دیا ہو گا۔ اس نے وہ تمام سال کیسے گزر بسر کی، اس نے کیا پڑھا، کیا دیکھا، کس کس سے ملا۔ وہ کس میں یقین رکھتا ہے۔۔۔ اور آخر، کیا وہ خوش ہے یا نہیں۔ دستاویزات زندہ مخلوق ہوتی ہیں۔ یہ اسی طرح بدلتی ہیں جس طرح ہم بدلتے ہیں۔
میں اس بات پر مکمل طور پر قائل ہوں کہ 1941 کے جنگی زمانے کی لڑکیاں اور جوان عورتیں پھر دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ یہ ”لال‘ نظریے کا نقطہ عروج تھا۔ یہ انقلاب اور لینن سے بھی بہت اونچا تھا۔ ان کی’فتح‘ ابھی بھی ’گولاگ‘ کو گہناتی ہے۔ میں ان عورتوں کو دل و جان سے پیار کرتی ہوں، لیکن آپ اُن سے سٹالن کے بارے میں باتیں نہیں کرتے یا اس حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے کہ جنگ کے فوراً بعد دلیر ترین اور سب سے زیادہ کھل کر بات کرنے والوں کو ریل گاڑی میں بھر کر سیدھا سائیبریا بھجوا دیا گیا تھا۔ باقی سب گھروں کو لوٹ گئے اور خاموش رہے۔ ایک بار میں نے سنا تھا:
” ایک ہی وقت ایسا تھا جب ہم آزاد تھے۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا اور ہم محاذ پر تھے۔“
تکلیف سہنا ہمارا سرمایہ ہے، گیس اور تیل کی بجائے۔۔۔’دکھ برداشت کرنا‘ ہمارے قدرتی وسیلے ہیں۔ یہی کچھ ہے جسے ہم تواتر سے پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ میں ہمیشہ اس سوال کا جواب تلاش کرتی رہتی ہوں کہ ہمارا دکھ جھیلنا کیوں آزادی میں ڈھل نہیں پاتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ سب غارت گیا؟
( روسی ) چادایف (Chaadayev) صحیح کہتا تھا:
روس ایک ایسا ملک ہے جس کی کوئی یادداشت نہیں۔ یہ ایک ایسا خلاء ہے جس پر مکمل نسیانی کیفیت طاری ہے۔ اس کا ضمیر/شعور تنقید اور انعکاس کے لیے کورا ہے، لیکن عظیم کتابیں ہمارے ہی پیروں تلے ڈھیر پڑی ہیں۔
1989
میں کابل میں ہوں۔ میں اب جنگ کے بارے میں مزید نہیں لکھنا چاہتی لیکن میں یہاں ایک اصلی جنگ میں موجود ہوں۔ اخبار ’پراودا‘ کہتا ہے:
”ہم سوشلزم کی تعمیر میں برادر افغان عوام کی مدد کر رہے ہیں۔“
جنگ کرتے لوگ اور جنگی ساز و سامان ہر طرف پھیلا ہے۔ یہ جنگ کا زمانہ ہے۔
وہ کل مجھے میدان جنگ میں لے کر نہیں گئے تھے:
”جوان محترمہ، ہوٹل میں ہی رہو۔ ہمیں بعد میں تمہارے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔“
میں ہوٹل میں بیٹھی ہوں اور سوچ رہی ہوں:
یہ نامناسب بات ہے کہ دوسروں کے حوصلے اور خطرہ جو وہ مول لیتے ہیں، کو پرکھا جائے۔ میں یہاں دو ہفتے کے لیے ہوں اور میں اس احساس سے چھٹکارا نہیں پا سکتی کہ جنگ مردانہ نوعیت کی شے ہے۔ یہ میرے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ لیکن جنگ کے روزمرہ کے لوازمات بڑے ہیں۔ میں نے اپنے لیے یہ دریافت کیا کہ ہتھیار، مشین گنیں، بارودی سرنگیں، ٹینک سب خوبصورت ہوتے ہیں۔ انسان نے اس پر بہت سوچ و بچار کی ہے کہ دوسرے انسانوں کو بہترین طریقے سے کیسے مارا جائے۔ یہ سچائی اور خوبصورتی کا ازلی جھگڑا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک نئی اطالوی بارودی سرنگ دکھائی اور میرا نسوانی ردعمل تھا:
”یہ بہت خوبصورت ہے۔ یہ اتنی خوبصورت کیوں ہے؟“
انہوں نے مجھے بالکل فوجی معانوں میں سمجھایا:
اگر کوئی اس پر گاڑی چڑھائے یا اس پر ویسے ہی ایک خاص زاویے سے۔ اپنے قدم رکھ دے۔ تو اس کا کچھ نہیں بچے گا ، بس گوشت کی آدھی بالٹی ہی رہ جائے گی۔ یہاں لوگ غیر معمولی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ خود نارمل ہوں اور انہیں درست بھی سمجھتے ہیں۔’ تمہیں تو پتہ ہی ہے۔ یہ جنگ ہے۔کوئی بھی بندہ ان تصویروں کو دیکھ کر حواس نہیں کھوتا۔ مثال کے طور پر اسے دیکھو۔ وہاں ایک بندہ مرا پڑا ہے، اس کو کسی اور نے نہیں مارا نہ ہی اس کی آئی ہوئی تھی، اسے ایک دوسرے بندے نے مارا ہے۔ ‘
میں نے ایک ”بلیک ٹیولپ“ (وہ جہاز جس میں مرے ہوؤں کو زنک کے تابوتوں میں رکھ کر گھر واپس بجھوایا جاتا ہے۔ ) کو بھرتے دیکھا۔ مرے ہوؤں کو عام طور پر چالیس کی دہائی کے قدیمی یونیفارم، برجس کے ساتھ پہنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی کافی نہیں ہوتے کہ سب کو پہنائے جا سکیں۔ فوجی آپس میں باتیں کر رہے تھے:
” انہوں نے کچھ نئی سرد خانوں میں رکھی ہیں۔ یہ جنگلی سورؤں کی طرح باس مار رہی ہیں۔“
میں اس بارے میں لکھوں گی۔ مجھے خدشہ ہے کہ پیچھے گھر (وطن) میں میری بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ ہمارے اخبار صرف دوستی کے ان راستوں اور پٹریوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو سوویت فوجیوں نے بنائی ہوتی ہیں۔
میں فوجیوں سے بات کرتی ہوں۔ ان میں سے اکثر رضاکارانہ طور پر آئے ہیں۔ انہوں نے یہاں آنے پر خود ترجیح دی۔ میں نے نوٹ کیا کہ یہ پڑھے لکھے خاندانوں سے تھے۔ یہ دانشوروں میں سے تھے۔ استاد تھے۔ ڈاکٹر تھے۔ لائبریرین تھے۔۔۔ ایک لفظ میں بات کی جائے تو یہ کتابی لوگ تھے۔ وہ سب مخلصانہ طور پر یہ خواب دیکھتے تھے کہ افغانوں کو سوشلزم تعمیر کرنے میں مدد دیں۔ اب وہ خود پر ہنستے ہیں۔ مجھے ائیر پورٹ پر ایک جگہ دکھائی گئی جہاں سینکڑوں زنک کے تابوت دھوپ میں پراسرار طور پر چمک رہے تھے۔ وہ افسر جو میرے ساتھ تھا خود کو یہ کہنے سے باز نہ رکھ سکا:
” کون جانتا ہے۔ میرا تابوت بھی وہیں کہیں رکھا ہو۔ وہ مجھے اس میں ٹھونس دیں گے۔۔۔ میں یہاں کس لیے لڑ رہا ہوں؟“
وہ اپنے ہی لفظوں سے خوفزدہ ہو گیا اور اس نے مجھے فوراً کہا:
”اسے مت لکھنا۔“
رات میں مجھے مرے ہوئے خواب میں آتے رہے۔ ان سب کے چہروں پر حیرانی تھی:
’ کیا، تمہارا مطلب ہے، میں مارا جا چکا ہوں؟ کیا میں واقعی مار دیا گیا ہوں؟‘
میں نرسوں کے ایک گروپ کے ساتھ افغان شہریوں کے ایک ہسپتال میں گئی۔ ہم اپنے ساتھ بچوں کے لیے تحائف لے کر گئے تھے۔ کھلونے، بسکٹ، گولیاں اور ٹافیاں، میرے پاس پانچ ٹیڈی بئیر بھی تھے۔ ہم ہسپتال پہنچے۔ یہ ایک لمبی بیرک تھی۔ کسی کے پاس اوڑھنے کے لیے ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ ایک جوان افغان عورت ایک بچہ گود میں اٹھائے میرے پاس آئی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔ پچھلے دس سال کے عرصے میں تقریباً ہر کسی نے تھوڑی بہت روسی بولنا سیکھ لیا تھا۔ میں نے اس کے بچے کو ایک کھلونا دیا جو اس نے دانتوں سے دبوچ لیا۔
” اس نے دانتوں سے کیوں دبوچا ہے؟“، میں نے حیرانی سے پوچھا۔ اس نے اس کے ننھے جسم سے کمبل ہٹا دیا۔ ننھے لڑکے کے دونوں بازو نہیں تھے۔
” ایسا تب ہوا تھا جب تمہارے روسیوں نے بمباری کی تھی۔“
کسی نے مجھے سہارا دیا کیونکہ میں گرنے لگی تھی۔
میں نے اپنے ”گراڈ“ راکٹوں کو وہاں کے دیہاتوں کو ایسے کھیتوں میں بدلتے دیکھا جیسے ان میں ہل پھرا ہو۔ میں ایک افغان قبرستان میں گئی۔ یہ ان کے دیہاتوں میں سے ایک جتنا لمبا تھا۔ اس قبرستان کے درمیان کہیں ایک بوڑھی افغان عورت چیخ و پکار کر رہی تھی۔ منسک کے قریب ایک گاؤں میں جب وہ گھر میں زنک کا تابوت لیے داخل ہوئے تو مجھے ایک ماں کا واویلا یاد تھا۔ یہ کسی انسان یا جانور کی چیخ نہیں تھی۔۔۔ یہ کچھ ویسی ہی تھی جو میں نے کابل کے قبرستان میں سنی۔
مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں یک دم آزاد نہیں ہوئی۔ میں اپنے کام سے مخلص تھی اور انہیں مجھ پر اعتماد تھا۔ آزادی کے حوالے سے، ہم میں سے ہر کسی کا اپنا اپنا راستہ تھا۔ افغانستان سے پہلے، میں سوشلزم پر یقین رکھتی تھی کہ اس کا ایک انسانی چہرہ ہے لیکن جب میں افغانستان سے واپس آئی تو میں ساری خوش فہمیوں سے آزاد تھی۔
” ابا، مجھے معاف کرنا۔“، میں نے جب انہیں دیکھا تو کہا، ” آپ نے مجھے اس لیے بڑا کیا تھا کہ میں کمیونسٹ نظریات پر یقین رکھوں لیکن ان جوانوں کو، تازہ بنے سوویت ، سکول کے لڑکے، ویسے جنہیں آپ اور ماں نے بھی پڑھایا (میرے والدین ایک دیہاتی سکول میں استاد تھے) جب ان لوگوں کو مار رہے تھے جنہیں وہ جانتے تک نہ تھے اور وہ بھی بدیسی علاقے میں۔ یہ دیکھنا کافی تھا اور اس نے آپ کے سارے الفاظ راکھ میں بدل ڈالے۔ ابا ہم قاتل ہیں۔ آپ اس بات کو سمجھتے ہیں نا!؟ ‘‘
میرے والد یہ سن کر رو پڑے تھے۔
افغانستان سے پلٹنے والے بہت سے لوگ آزاد ہو گئے تھے لیکن دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں میرا ایک نوجوان ساتھی تھا جو مجھ پر چلایا تھا:
” تم ایک عورت ہو، تمہیں جنگ کی کیا سمجھ ہے؟ تم سمجھتی ہو کہ لوگ جنگ میں ویسی ہی سہانی موت مرتے ہیں جیسی کتابوں اور فلموں میں دکھائی جاتی ہے؟ کل میرا ایک دوست مارا گیا، اس نے اپنے سر میں گولی ماری اور اپنے پھٹتے بھیجے کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں دس میٹر دور تک بھاگتا رہا۔“
سات سال بعد میرا وہی ساتھی ایک کامیاب بزنس مین ہے جو افغانستان کے بارے میں کہانیاں سنانا پسند کرتا ہے۔ اس نے مجھے فون کیا:
” آپ کی کتابیں کس کام کی ہیں؟ یہ بہت ہی خوفناک ہیں۔“
اب وہ ایک مختلف بندہ تھا، وہ اب وہ جوان نہیں تھا جسے میں موت کی وادی میں ملی تھی اور وہ بیس سال کی عمر میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔
میں خود سے پوچھتی ہوں کہ میں جنگ کے بارے میں کس قسم کی کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔ میں ایک ایسے بندے کے بارے میں کتاب لکھنا چاہتی ہوں جو گولی چلانا نہیں چاہتا، جو کسی دوسرے انسان پر فائر نہیں کھول سکتا، جسے جنگ کے خیال سے ہی اذیت کا احساس ہوتا ہو۔ وہ کہاں ہے؟ میں اس سے کبھی نہیں مل پائی۔
1990۔ 1997
روسی ادب دلچسپ ہے ، اس لحاظ سے کہ یہ وہ واحد ادب ہے جو ہمیں ایک ایسے تجربے کی داستان سناتا ہے جو ایک وسیع اور بڑے ملک پر کیا گیا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے: آپ المیوں کے بارے میں کیوں لکھتی ہیں؟
میں ایسا اس لیے لکھتی ہوں کہ ہم ان میں ہی رہتے ہیں۔ اب ہم مختلف ملکوں میں رہتے ہیں لیکن ’لال‘ لوگ ہر جگہ ہیں۔ وہ اسی زندگی سے باہر آئے ہیں اور ان کے پاس اسی زندگی کی یادیں ہیں۔
میں نے چرنوبل پر لکھنے کے حوالے سے، لمبا عرصہ خود کو روکے رکھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں اس بارے میں کیسے لکھوں، کیا طریقہ اختیار کروں اور اس موضوع تک کیسے رسائی حاصل کروں۔ دنیا جس نے کبھی میرے ننھے سے ملک، جو یورپ کے ایک کونے میں ٹِکا ہے، کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا لیکن اب اس کا نام ہر زبان پر تھا۔ ہم بیلارسین چرنوبل کے لوگ بن گئے تھے۔ وہ جنہوں نے اِک ان ہونی، اِک انجانے سانحے کا سامنا کیا۔ تب یہ واضح ہو گیا تھا کہ کمیونسٹ، نسلی اور نئے مذہبی چیلنجوں کے علاوہ ہمارے لیے اور بھی خونی، درندہ صفت اور عالمی چیلنج موجود ہیں گو یہ فی الحال نظر نہیں آ رہے البتہ چرنوبل کے بعد کچھ تو، چاہے رتی برابر سہی، ہم پر آشکار ہوا ہے۔
مجھے ایک بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور یاد ہے۔ اس کی وِنڈ شیلڈ سے جب ایک کبوتر ٹکرایا تھا اور اس نے مایوسی کے عالم میں قسمیہ کہا تھا:
”دوتین پرندے روز کار میں آ ٹکراتے ہیں لیکن اخبارات یہی کہتے ہیں کہ صورت حال قابو میں ہے۔“
شہر کے باغات کو پتوں سے خالی کر دیا گیا تھا۔ انہیں آبادی سے باہر لے جا کر گہری زمین میں دفن کیا گیا۔ آلودہ علاقوں کی مٹی کو بھی کھود ڈالا گیا اور اسے بھی لے جا کر دفنا دیا گیا۔ دھرتی کو دھرتی میں ہی دفن کیا گیا۔ جلانے کے کام آنے والی لکڑیاں اور گھاس بھی دفنائی گئی۔ پر بندہ کسی حد تک دیوانہ نظر آنے لگا تھا۔ شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک بوڑھے نے مجھے بتایا:
” اس صبح میں باغ میں گیا تو کوئی شے۔ ایک مانوس آواز وہاں کم تھی۔ وہاں شہد کی مکھیاں نہیں تھیں۔ میں ایک مکھی کی آواز بھی نہ سن سکا۔ ایک کی بھی نہیں! کیوں؟ وہاں کیا ہو رہا تھا؟ وہ دوسرے روز بھی نہ اڑیں اور پھر تیسرے روز بھی۔ تب ہمیں بتایا گیا کہ نیوکلیائی سٹیشن پر ایک حادثہ پیش آ گیا ہے۔۔۔ اور یہ زیادہ دور نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اس کے بارے میں عرصے تک کچھ بھی معلوم نہ ہوا۔ شہد کی مکھیوں کو پتہ تھا لیکن ہم بے خبر تھے۔ اخباروں میں چرننوبل کے بارے میں سب کچھ فوجی زبان میں تھا: ’ دھماکہ، ہیرو، فوجی، انخلا۔ کے جی بی ( KGB ) سٹیشن پر مصروف عمل تھی۔ وہ جاسوس اور تخریب کار تلاش کر رہی تھی۔ افواہیں پھیلیں کہ یہ حادثہ سوشلسٹ کیمپ کو کمزور کرنے کے لیے مغربی انٹیلی جنس اداروں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ فوجی ساز و سامان چرنوبل کی طرف رواں دواں تھا۔ وہاں فوجی آ رہے تھے۔ جیسا کہ معمول تھا ، نظام ایسے چل رہا تھا جیسے یہ جنگ کا زمانہ ہو لیکن اس نئی دنیا میں، ایک نئی چمکتی مشین گن لیے فوجی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ صرف ایک کام کر سکتا تھا کہ تابکاری کی بڑی مقدار اپنے اندر جذب کرتا رہے اور جب گھر واپس جائے تو مر جائے۔
میرے آنکھوں کے سامنے چرنوبل کے حادثے سے پہلے کے لوگ یکدم ’’ پیپل آف چرنوبل ‘‘ بن گئے۔
آپ تابکاری کو نہ تو دیکھ سکتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں اور نہ ہی سونگھ سکتے ہیں۔ ارد گرد کی دنیا مانوس تھی اور نامانوس بھی۔ میں نے جب اس زون میں سفر کیا تو مجھے فوراً ہی بتا دیا گیا:
پھولوں کو ہاتھ نہیں لگانا، گھاس پر نہیں بیٹھنا، کسی کنویں سے پانی نہیں پینا۔ ہر جگہ موت چھپی ہوئی تھی لیکن اس بار یہ مختلف قسم کی موت تھی۔ اس نے نیا مکھوٹا پہن رکھا تھا۔ یہ ایک اجنبی بھیس میں تھی۔ بوڑھے لوگ جو پہلے بھی جنگ جھیل چکے تھے، کا پھر سے انخلاء شروع ہو چکا تھا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتےاور کہتے:
” سورج چمک رہا ہے۔ کہیں دھواں نہیں، پٹرول کی بو نہیں۔ کوئی گولیاں اور گولے نہیں داغ رہا۔ یہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن ہمیں مہاجر بننا پڑ رہا ہے۔“
ہر صبح، ہر کوئی خبروں کے لالچ میں اخباروں پر جھپٹتا اور پھر ناامید ہو کر انہیں پٹخ دیتا۔ کوئی جاسوس نہ مِلا۔ کسی نے عوام کے دشمنوں کے بارے میں نہ لکھا۔ جاسوسوں اور عوام کے دشمنوں کے بغیر یہ دنیا بھی اجنبی اور نامانوس تھی۔ یہ بھی کسی نئی شے کی شروعات تھی۔ افغانستان میں ناکامی کے بعد جلد ہی چرنوبل نے ہمیں آزاد قوم بنا دیا۔
میرے لیے دنیا دو لخت ہو گئی۔ زون کے اندر مجھے بیلارسین یا روسی یا پھر یوکرینی ہونے کا احساس نہ ہوتا بلکہ میں ایک ایسی حیاتیاتی نوع کی نمائندہ تھی جسے تباہ کیا جا سکتا تھا۔ دو المیے، دو آفتیں، دو تباہیاں ایک ساتھ آ ملی تھیں۔ سماجی دائرے میں سوشلسٹ ’ اٹلانٹس ‘ ڈوب رہا تھا۔۔۔ اور سنسار کی سطح پر۔۔۔ چرنوبل تھا۔ سلطنت کے ڈھ جانے پر ہر کسی اور ہر شے کو الٹا پلٹا کر رکھ دیا۔ لوگ روزمرہ کی زندگی کے بارے میں پریشان ہونے لگے۔ اشیا کیسے، کیونکر اور کس سے خریدی جائیں؟ کیسے زندہ رہا جائے؟ کس پر یقین کیا جائے؟ اس بار کن نعروں کے پیچھے چلا جائے؟ یا ہمیں کسی بھی عظیم نظریے کے بغیر زندہ رہنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت ہو گی؟ آخری بات بھی نامانوس تھی، اس لیے کہ اس طرح کی زندگی کسی نے نہ جی تھی۔’لال‘ آدمی کو سینکڑوں سوالات کا سامنا تھا لیکن وہ اپنے آپ میں تھا۔ آزادی کے اُن اولین دنوں میں وہ ایسا اکیلا بندہ تھا کہ کبھی پہلے تنہا نہ ہوا تھا۔ میں چاروں طرف سے ایسے لوگوں میں گھری ہوئی تھی جو صدمے کے عالم میں تھے۔ میں نے انہیں سنا۔
میں اپنی ڈائری بند کرتی ہوں۔۔۔
جب سلطنت ڈھ گئی تو ہم پر کیا بیتی؟ پہلے دنیا ظالموں اور مظلوموں میں منقسم تھی۔یہ گولاگ تھا۔ بھائی اور بہن تھے۔ یہ جنگ تھی۔ رائے دہندگان تھے۔ ٹیکنالوجی کا کچھ حصہ تھا اور ہمعصر دنیا تھی۔ ہماری دنیا ان میں منقسم تھی جو قید میں تھے اور جو انہیں قید کرنے والے تھے۔ آج یہاں سلاوک اورمغربیت پسندوں کی تقسیم ہے،”فاسشٹ ۔ غدار“ اور محب وطنوں کی تقسیم ہے اور ان کے بیچ وہ ہیں جو اشیا خرید سکتے ہیں اور وہ جو نہیں خرید سکتے۔ یہ آخری والے، میں کہوں گی، سب سے ظالم آزمائش میں ہیں اور سوشلزم کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں کیونکہ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ سب برابر تھے۔ ’لال‘ آدمی آزادی کی بادشاہت میں داخل ہونے کے قابل نہ رہا تھا کیونکہ اس کے خوابوں کی دنیا اس کے باورچی خانے کی میز کے گرد گھومتی تھی۔ روس نے اسے کچھ نہ دیا اور اس کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس کی ہتک کی گئی اور اسے لوٹاگیا۔ وہ مشتعل اور خطرناک ہو گیا۔
یہاں میں کچھ تبصرے پیش کر رہی ہوں جو میں نے سوویت یونین ٹوننے کے بعد روس میں سفر کے دوران سنے۔
”یہاں جدیدیت صرف ’شاراشکس‘ (سائنس دانوں کے لیے بنائے گئے قید خانے اور ان کے لیے کھڑے کیے گئے فائرنگ سکواڈ) کے ذریعے ہی آ سکتی ہے ۔“
”یہاں ایماندار لوگ نہیں ہیں لیکن ایسے ضرور ہیں جنہیں ولی کہا جا سکتا ہے۔“
ہم کوئی ایسی نسل نہیں دیکھیں گے جسے کوڑے نہ مارے گئے ہوں۔ روسی آزادی کا مطلب نہیں سمجھتے، انہیں قازکوں اور کوڑوں کی ضرورت ہے۔“
”روس میں دو الفاظ سب سے اہم ہیں ۔ یہ’جنگ‘اور ’قید خانہ‘ ہیں، آپ کچھ چرائیں، کچھ موج مستی کریں، وہ آپ کو بند کر دیں گے۔ آپ باہر نکلیں گے اور دوبارہ جیل میں جا کر سڑیں گے۔“
”روسی زندگی کوفاسد اور گھناؤنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کی روح تبھی اوپر اٹھے گی اور اسے سمجھ آئے گی کہ وہ اس دنیا کے لیے نہیں بنی۔ چیزیں جتنی غلیظ اور خونیں ہوں گی روح کے لیے اتنی ہی زیادہ جگہ ہو گی۔“
”کسی کے پاس اتنی توانائی نہیں کہ ایک اور انقلاب لائے یا دیوانگی پھیلائے۔ اب حوصلے ہی نہیں رہے۔ روسیوں کو ایسے نظریے کی ضرورت ہے جو ان کی ریڑھ کی ہڈی تک میں کپکپی پیدا کر دے۔“
”اسی لیے ہماری زندگی افراتفری اور بیرکوں کے درمیان لٹکی ہوئی ہے۔ کمیونزم مرا نہیں ہے، اس کی لاش ابھی بھی زندہ ہے۔“
میں یہ کہنے کی جسارت کروں گی کہ ہم نے وہ موقع گنوا دیا ہے جو ہمیں 1990 کی دہائی میں ملا تھا۔ اس وقت یہ سوال کھڑا ہوا تھا کہ ہمارا ملک کس قسم کا ہونا چاہیے؟ ایک طاقتور ملک یا ایک ایسا ، جس میں لوگ نفاست سے رہ سکیں؟۔۔۔ ہم نے پہلا والا چُنا۔ ایک طاقتور ملک۔ ہم ایک بار پھر’طاقت‘ کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ روسی یوکرینیوں سے لڑ رہے ہیں جو ان کے بھائی ہیں، میرا باپ بیلارسین ہے، میری ماں یوکرینی ہے۔ ایسا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہےاور روسی جہاز شام پر بمباری کر رہے ہیں۔
امید سے بھرا وقت پھر سے اُس وقت میں بدل گیا ہے جو خوف سے لدا ہے۔ زمانے نے الٹا رخ پھیر لیا ہے اور وقت میں پیچھے کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم اب جس وقت میں رہ رہے ہیں یہ پرانا ہے اور پہلے سے برتا ہوا ہے۔
بعض اوقات مجھے یقین نہیں آتا کہ میں نے ”لال“ آدمی کی تاریخ لکھ لی ہے، اسے مکمل کر لیا ہے۔
میرے تین گھر ہیں۔ میری بیلارسین زمین جو میرے والد کا وطن ہے، جہاں میں نے اپنی ساری زندگی گزاری ہے۔ یوکرین، میری ماں کا وطن جہاں میں پیدا ہوئی اور روس کی عظیم تہذیب و تمدن جس کے بغیر میں اپنے وجود کے نہ ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مجھے یہ سب پیارے ہیں لیکن آج کے دن اور اِس عمر میں میرے لیے پیار اور محبت کے بارے میں بات کرنا مشکل ہے۔
(بیلاروس کی سویٹلانا ایلکسیوچ (Svetlana Alexievich) نے اپنا یہ لیکچر 7 دسمبر 2015 کو سویڈش اکیڈمی، سٹاک ہوم، سویڈن میں، روسی زبان میں دیا تھا۔ اصل زبان میں یہ لیکچر nobelprize.org پر موجود ہے۔)