شخصیات جنم لیتی ہیں، اور کچھ عرصے بعد ہماری نظروں سے روپوش ہو جاتی ہیں۔ ان کی مٹی کا قرض ان کا جسم اتار دیتا ہے مگر ان کی روح کا قرض آنے والی نسلوں کے سروں پر باقی رہتا ہے۔ یہ قرض اسی مقدار میں بڑھ جاتا ہے جس مقدار میں شخصیت با وزن ہوتی ہے۔ گویا کچھ شخصیتیں آنے والی نسلوں کو اپنا مقروض بنا جاتی ہیں۔ یہ احسان سے آگے کی منزل ہے۔ اور پھر شخص سے شخصیت کا سفر بھی کوئی لقمۂ تر نہیں۔ محمد حسن عسکری ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے، جس سے بطور خاص ‘جدید اردو افسانہ اور ‘جدید افسانہ تنقید’ کی سمتیں متعین ہوتی ہیں۔
عسکری کی شخصیت متعدد جہات رکھتی ہے، جس میں داستان، ترجمہ، مشرق شناسی اور تنقید وغیرہ شامل ہیں، لیکن افسانے کے باب میں وہ ایک بنیاد گزار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا اور نئی نسل کو ان کے کارناموں سے روشناس کرانا ہی ان کی روح کا قرض اتارنا ہے۔ محمد حسن عسکری کی شخصیت سے میری گہری دلچسپی کا پہلا محرک "جزیرے” کا "اختتامیہ” اور دوسرا اہم محرک شمس الرحمن فاروقی کی وہ گفتگو ہے جس میں ناچیز بھی شریک تھا۔ اس کے بعد عسکری کی متعدد تحریروں سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
مجھے یہ دیکھ کر حد درجہ مسرت ہو رہی ہے کہ ڈاکٹر ندیم احمد نے ان کے تمام افسانوں (جن کی کل تعداد گیارہ ہے) کو کلیات کی شکل میں یکجا کر دیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کا خیال تھا کہ عسکری کے افسانوں کو منٹو اور بیدی کی کہانیوں کی طرح بار بار تو نہیں پڑھا جا سکتا، لیکن ان افسانوں کو پڑھے بغیر افسانوی روایت کو سمجھ پانا مشکل ہے۔ ڈاکٹر ندیم احمد کی مرتبہ اس کلیات میں عسکری کے دونوں افسانوی مجموعے، اختتامیہ اور ایک ترجمہ کے علاوہ گراں قدر مقدمہ بھی شامل ہے۔ مقدمے میں ڈاکٹر ندیم احمد نے نہایت عرق ریزی سے عسکری کے تمام افسانوں پر گفتگو کی ہے۔ ان کی یہ گفتگو اس لحاظ سے اور بھی با معنی ہو گئی ہے کہ انہوں نے عسکری کے افسانوں پر اظہار خیال کرنے والے تمام اہم ناقدین تک رسائی حاصل کی ہے اور ان کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی متن کے متعلق تمام اہم آرا، فقرے اور افواہیں ایک جگہ آپ کو مل جائیں۔ ڈاکٹر ندیم احمد نے حسب ضرورت ان تمام چیزوں کی جانب مقدمے میں اشارہ کیا ہے۔
کتاب کی خوبصورت طباعت اور نفیس سرورق کے ساتھ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر ندیم احمد نے کتاب کے پہلے اور آخری صفحے پر داستانوی اسلوب میں کچھ سطریں رقم کی ہیں۔ میں ان سطور کو اضافی یا بیجا صناعی اس لئے نہیں مانتا کہ ان سے محمد حسن عسکری کی داستان شناسی سے گہری مناسبت کا ایک پہلو نکلتا ہے۔ ترتیب ایک آسان عمل بھی ہے اور مشکل بھی۔ ترتیب میں مشکلات اس وقت پیش آتی ہیں جب مرتب، مصنف اور اس کے متن کے تئیں ایماندار ہونے کے ساتھ موضوع سے گہری دلچسپی بھی رکھتا ہو۔ کتاب دیکھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر ندیم احمد نے اس ترتیب کو سرسری انجام دینے کے بجائے جگر کاوی سے کام لیا ہے۔ میں ڈاکٹر ندیم احمد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔انہوں نے ایک بنیاد گزار ادیب کی بازیافت کی ہے۔ ساتھ ہی اس گراں قدر تحفے سے نوازنے کے لیے میں ان کا بیحد ممنون ہوں۔