تاریخ اردو ادب بہار ( اردو نثر ، 1914تاحال،جلد دوم) حکومت بہار کے ایک بڑے ادارے اردو ڈائریکٹوریٹ نے شائع کی ہے ۔ یہ کتاب اس ادارے کے ایک بڑے پروجکٹ کا حصہ ہے۔اس کے مصنف پروفیسر اعجاز علی ارشد ہیں۔اس کی مجلس مشاورت میں شفیع مشہدی،پروفیسر علیم اللہ حالی, ڈاکٹر عبدالصمد ، پروفیسر جاوید حیات جیسے اردو کے قدآور لوگ شاملِ ہیں۔ یہ سب ایسے لوگ ہیں جو کسی بھی طرح تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔لیکن اس کتاب نے بے انتہا مایوس کیا ۔ اس سے اردو ڈائرکٹوریٹ کی بد نامی بھی ہو رہی ہے۔ یہ کتاب 431 صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں کون سی ایسی غلطی ہے، جو نہیں ہے۔یہ اردو ادب کی ایسی تاریخ ہے جو حواشی،حوالے اور ماخذ سے پاک ہے۔حقائق کی بے پناہ غلطیاں ہیں ۔ بے شمار باتیں بغیر کسی حوالے کے کہی گئی ہیں ۔کئی جگہ ایسے تضادات ہیں کہ اللہ کی پناہ۔چند مثالیں۔
1- 1979میں بہار اردو اکادمی کا قیام (صفحہ 21 ) جبکہ بہار اردو اکادمی 1972 میں قائم ہوئی
2- پہلا باب( بیسویں صدی کے مختلف حالات اور بہار کا نثری ادب) صرف 10 صفحات پر مشتمل
3-گیارہواں باب(صحافت اور ادبی صحافت) صرف 36 صفحات
4-نقیب۔اس کے ادارہ تحریر میں فی الوقت اصغر امام فلسفی اور شاہد رام نگری ہیں۔(صفحہ385)
5-دوسری جگہ لکھا ہے۔موجودہ مدیر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ہیں (صفحہ403)
6-میرے تعلق سے ایک جگہ لکھا ہے "ان دنوں وہ باضابطہ طور پر قومی تنظیم سے وابستہ ہیں(صفحہ408) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اس اخبار سے کبھی وابستہ نہیں رہا ۔میری وابستگی روزنامہ سنگم پٹنہ، روزنامہ قومی آواز پٹنہ ، روزنامہ انقلاب جدید پٹنہ، روزنامہ پندار ہٹنہ ،روزنامہ عوامی نیوز پٹنہ سے رہی ۔ اس وقت میں روزنامہ تصدیق (ایڈیٹر ساجد پرویز) سے جڑا ہوا ہوں ۔لیکن اس کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
7-سب جانتے ہیں کہ بہار میں پہلے مرحلے میں 17اپریل 1981کو اردو دوسری سرکاری زبان بنی ۔جبکہ اس کتاب میں لکھا گیا ہےکہ”پہلے توحکومت بہار نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا اور بعد میں آفیشیل لینگویج ایکٹ 1950میں ترمیم کرتے ہوئے 16اگست 1989 کو نوٹیفکیشن کے ذریعہ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو سرکاری زبان بناتےہوئےمخصوص مقاصد اور ‘قلاقوں’ کی نشاندہی بھی کر دی۔”(صفحہ21) یہاں "قلاقوں” پتہ نہیں کیا ہے؟ ۔ یہ تو صرف بانگی ہے ۔ایسی ایسی بے شمار حماقتیں اس کتاب میں موجود ہیں، کس کس کا ذکر کیا جائے۔ اس پر اگر ٹھیک سے تبصرہ کیا جائے اور جائزہ لیا جائے تو اس کتاب جتنی یا اس سے بھی زیادہ ضخیم ایک دوسری کتاب تیار ہو جائے ۔اسے ہم ایک بڑے ادیب کی ناقص کتاب کہنے پر مجبورہیں۔
فیس بک پر تحریر پوسٹ کئے جانے کے فورآبعد اس پر دانشوران علم ادب کے تاثرات اور تبصرے آنے لگے اور راز ہائے سربستہ سے بھی پردہ اٹھنے لگا۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے لکھا "واہ۔۔۔۔ آپ کی اس حقیقت بیانی میں بہار کے بہت سارے لوگوں کے احساسات شامل ہیں۔ پیسے کے لئے کس قدر آدمی گر سکتا ہے یہ کتاب اس کی زندہ مثال ہے۔ بہار کی سنہری اردو تاریخ کو نہ صرف مسخ کیا گیا ہے بلکہ ذلیل اور رسوا کیا گیا ہے۔ میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ آپ کی صحافتی جرات کو سلام ”
ڈاکٹر اقبال حسن آزاد کا تاثر ہے”بڑے لوگ ہیں۔ سب کی آپس میں ملی بھگت ہے۔سرکاری فنڈ کو تو حق لگانا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کس کا نام شامل کرنا ہے اور کسے حاشیے سے باہر کرنا ہے۔” صفدر امام قادری کہتے ہیں” اس کتاب کی دو جلدیں ہیں۔ریحان غنی صاحب! اچّھا ہوتا کہ پہلی جلد پر بھی آپ کی رائے آتی جسے پروفیسر جاوید حیات صاحب نے تالیف کرنے کی مہربانی فرمائی ہے” ۔ ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے کہا "یہ کتاب ہماری نظر سے ابھی نہیں گزری ہے، لیکن آپ کی مثالوں سے اندازہ ہوا کہ اس میں بہت سی اطلاعات صحیح نہیں ہیں، اس لئے اسے طلبا اور اہالیان ادب تک پہنچنے سے پہلے مارکیٹ سے ہٹا لینا چاہیے۔اعجاز صاحب ذمہ دار آدمی ہیں، وہ ان تمام غلطیوں کی جب تصیح کردیں تو دوبارہ اسے چھاپ دیا جائے، ویسے جب اس پروجیکٹ کا منصوبہ بن رہا تھا تو مجھے اس کا ایک باب لکھنے کو کہا گیا تھا، میری طرح اور بھی کئئ میدانوں کے الگ الگ ادبا تھے، جنھیں الگ اصناف پر کام کرنے کو کہا گیا تھا، یہ بہت ہی اچھا اور منطقی فیصلہ تھا، مگر کچھ دنوں بعد اچانک معلوم ہوا کہ اب یہ سارا کام صرف ایک شخص کے ہاتھوں انجام کو پہنچے گا۔”
ڈاکٹر اسلم جاوداں نے لکھا”آپ اپنی بے باک اور بے لاگ بیانی کے لیے مشہور ہیں ۔اس کا عملی ثبوت اپ نے پھر ایک بار پروفیسر اعجاز علی ارشد کی حالیہ ناقص اور مجہول کتاب ” تاریخ اردو ادب بہار ” پر رائے زنی کر کے دیا ہے ۔ سچ بات یہ ہے کہ اس پروجکٹ کی کہانی بہت لمبی ہے ، جس کو میں کبھی لکھوں گا۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہ لچر اور کمزور کتاب بہار کے اردو ادب کی تاریخ کے نام پر ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اب تک اردو ڈائرکٹوریٹ سے جو بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ معیاری اور مثالی رہی ہیں ۔ مگر یہ کتاب تو اردو ڈائرکٹوریٹ کی پیشانی پر دھبہ ہے ۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کو یہ کتاب بازار سے واپس لے کر دریا برد کر دینا چاہیے ۔ ورنہ بہت سی تاریخی غلط فہمی پھیل جائے گی ۔آپ کی بے باکی اور حق گوئی کو سلام ۔ "محمد نور عالم نے لکھا ۔”جیسی نیت ویسی برکت …………….! مزید تھو تھو تو تب ہوگی جب اس بات کا انکشاف ہوگا کہ انتہائی رازداری کے ساتھ اس احمقانہ پروجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کس کس طرح سے سرکاری مال پر ہاتھ صاف کیا گیا ہے ۔” جمیل اختر شفیق نے لکھا "لگتا ہے اردو ڈائریکٹوریٹ کی کمیٹی میں یہ جتنے بڑے صاحب قلم ہیں انہیں محض تبرکاً شامل کیا گیا ہے ان کی شمولیت کا مقصد اگر صرف موقع محل کے حساب سے اسٹیج کی شوبھا بڑھانا ہے اور شرف ومنزلت پانے والے وہ سبھی ادبا وشعراء اسی بات پہ خوش ہیں کہ دنیا جائے تیل بیچنے ہمیں تو عزت مل رہی ہے تو یہ کہا جائے گا وہ سارے کے سارے دنیا بھر میں اپنے قلم کا لوہا منوانے کے باوجود عمر کے آخری پڑاؤ پر بھی خود کو صاحبِ ظرف نہیں بناسکے ۔ محترم!بہت معذرت کے ساتھ مجھے آپ کے عنوان سے بھی اختلاف ہے کیونکہ جو آدمی دو پیسے کے لیے اپنی تصنیف کا معیار اتنا گرا سکتا ہے وہ بڑا ادیب کیسے ہوسکتا ہے؟ بہت ممکن ہے حالات کے ہاتھوں استحصال ہونے ہونے والے کسی ایسے کمزور طالبِ علم کو ذہنی طور پر ہرغمال بناکر یہ خدمت حاصل کی گئی ہوگی جسے ہرصورت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے . سچ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی سیاست اپنا پیر پسارتی ہے وہاں علم تو چھوڑیے انسانیت کو تنزلی کا شکار بنادیتی ہے ،یہ لوگ اپنے قلم سے آنے والی نسلوں کو کیسی روشنی عطا کر رہے ہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔” ڈاکٹر زر نگار یاسمین نے کہا ۔”حد تو یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ اس کے مقصد کو ضائع کر دیا اور اس کی روح کو مجروح کیا ہے۔” نئیر فاطمی نے مشورہ دیا ۔”آپ اس دستاویز پر مکمل تبصرے لازمی کریں۔” افتخارِعظیم چاند کا تاثر تھا۔”آپ نے بالکل بجا تحریر کیا ہے- میں آپ کی باتوں سے پورا پورا اتفاق کرتا ہوں- راقم السطور 25 سال تک انجمن ترقی اردو بہار(پروفيسر عبدالمغنی صاحب گروپ) میں بحیثیت آفس سکریٹری اپنے فراٸض نبھاتا رہا (سن 1983 تا 2009)- تاریخ اردو ادب بہار مرتب ڈاکٹر اعجاز علی ارشد صاحب کو معلومات حاصل کرنے کے لیے مجھ سے رجوع کرنا چاہیے تھا جس طرح انہوں نے ”بِہار کی بَہار“ کے لیے ڈاکٹر شبیر احمد صاحب مرحوم کی تاریخ پیداٸش، جاۓ پیداٸش، مرحوم کی ادبی خدمات نیز سوانح حیات وغيرہ وغیرہ کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے مجھ کو فون کیا تھا اور مجھ سے شبیر احمد سے متعلق واقفیت حاصل کی تھی- ڈاکٹر ریحان غنی صاحب نے حقائق کی پوری نشان دہی کرتے ہوۓ بالکل بجا اور درست تحریر فرمایا ہے- میں موصوف کی بیباکانہ اور جرآت مندانہ اقدام کی کافی ستاٸش کرتا ہوں-” ثنا اللہ ثناء دوگھروی نے لکھا۔ "یہ تو بہت عجیب معاملہ ہے۔ بڑے لوگوں کے یہاں بھی اس طرح کی حرکتیں ہوتی ہیں۔افسوسناک۔” دلشاد نظامی کہتے ہیں.”تاریخ اُردو ادب بہار کے حوالے سے صحافی ڈاکٹر ریحان غنی صاحب کے تاثراتی نوٹ سے میں ششدر ہوں ۔ جہاں تک میری سمجھ ہے کہ پہلے لوگ ایسی تحقیق عبادت کے طور پر کیا کرتے تھے اس لیے رام بابو سکسینہ سے وہاب اشرفی تک بہترین کاوشوں کی نظیر نہیں ملتی ہمارے یہاں یہ بھی رائج ہے کہ ایسے موضوعات پر جو کتابیں موجود ہیں ان میں ترمیم و اضافہ کے بعد اُنہیں مزید معیاری بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں وہاب اشرفی کی کتاب بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ڈاکٹر زر نگار یاسمین صاحبہ نے ڈاکٹر غنی سے اتفاق کرتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ حد تو یہ ہو گئی کہ اسے کئی حصوں میں منقسم کر دیا گیا جاوید حیات صاحب بھی اس پروجیکٹ میں کیسے شامل ہوگئے اُن کا تو کوئی خاص کارنامہ بھی نہیں ہے۔
لوگوں نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ صرف اُردو ڈائریکٹوریٹ سے رقم اگاہی کا ایک ذریعہ ہے اور تعجب خیز یہ ہے کہ یہی لوگ پیسے والی دوسری کمیٹیوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔اب ایسے میں معیار پر رونے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے.انا للہ وانا علیہ راجعون۔” سرفراز عالم کا تاثر تھا .”دیکھئے اصل بات یہ ہے کہ ہم آپ کے بیچ کے ہی کچھ لوگوں نے ایسے ناقص العقل اور متکبر پروفیسر کو سر پر چڑھا کر ایک بڑے ادیب کا تمغہ پہنا دیا ہے۔ سوچئے ان کے شاگردوں کو یہ جان کر اپنی ڈگری پر کتنا فخر محسوس ہوا ہوگا۔ ہر دور میں امت کے ہر حلقہ کو کسی نہ کسی ” میر جعفر” سے ہی نقصان پہنچا ہے۔ افسوس امت جنگ ہار جانے کے بعد ان جیسوں کو پہچان پاتی ہے۔ افسوس ان ادیبوں پر جن کو فراست نصیب نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر ریحان غنی کی بے باکی اور نڈرتا کو سو سو سلام۔ ” میری اس تحریر کے تعلق سے فیس بک پر تبصرے کا سلسلہ جاری ہے ۔